UrduPoint:
2025-09-18@11:58:20 GMT

لٹریچر فیسٹیول کے سماجی اثرات کیوں نہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT

لٹریچر فیسٹیول کے سماجی اثرات کیوں نہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) یہ حتمی طور پر کہنا تو ذرا مشکل ہے کہ پاکستان میں ادبی میلوں کا یہ چلن باقاعدہ کس سال شروع ہوا، لیکن یہ ضرور ہے کہ گذشتہ 15، 16 سالوں سے مختلف شہروں میں باقاعدہ ایسے پروگراموں کا انعقاد بڑھتا چلا جا رہا ہے، جسے 'ادبی میلے‘ قرار دیا جاتا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ ایسے پروگرام بڑھتے اور وسیع ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اس میں کراچی آرٹس کونسل کی سن 2008 میں شروع ہونے والی ''عالمی اردو کانفرنس‘‘ اور سن 2010 میں اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ''کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘نے کافی کلیدی کردار ادا کیا اور پھر یہ کانفرنسیں اور لٹریچر فیسٹیول، لاہور، اسلام آباد، ملتان اور فیصل آباد تک باقاعدگی سے ہر سال ہونے لگے ہیں۔

(جاری ہے)

یہی نہیں گذشتہ سال کوئٹہ میں 'پاکستان لٹریچر فیسٹیول‘ بھی ہوا اور ایسے ہی اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سابقہ روح و رواں امینہ سید نے بھی کچھ برسوں سے اپنے الگ سے ''ادب فیسٹیول‘‘ شروع کرا دیے ہیں۔

بہ ظاہر تو ادب، اردو اور کتابوں کی باتیں کتنی دل نشیں لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ادب دوستی بڑھ رہی ہے۔ عوام ان میلوں میں جوق در جوق امڈ آتے ہیں، ملکی اور غیر ملکی مہمانوں اور ادیبوں کی گفتگو سنتے ہیں، لیکن اس خوب صورت تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کئی برسوں سے جاری یہ بڑی بڑی ادبی سرگرمیاں کیا ہمارے معاشرے پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں؟

زیادہ نہیں بس تھوڑا ہی سا، کیا ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے یا کچھ بھی پڑھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟ ان ادبی میلوں سے زبان و ادب کے تئیں کوئی علمی و ادبی اثرات دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا ان سالانہ ادبی محفلوں میں عام میڈیا اور سوشل میڈیا میں رکاوٹوں کا شکار بن جانے والے مختلف مقامی اور بین الاقوامی موضوعات کو جگہ مل پاتی ہے؟

سچائی سے جواب دیجیے تو ان سب سوالات کے جواب نفی میں ملتے ہیں، جیسے ہمارے سماج میں ڈگری یافتہ لوگ بڑھ رہے ہیں اور اخلاق باختہ یا بدتمیز لوگوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، بالکل ایسے ہی سالانہ ادبی میلوں اور پروگراموں کے باوجود ہمارے سماج میں برداشت اور تحمل دور سے دور ہوتا جا رہا ہے۔

کتابوں کی اشاعت بدستور گھٹ رہی ہے۔ رہ گئے ہمارے معاشرے کے اصل موضوعات اور سنگین ہوتے ہوئے مسائل، تو جو اسٹیک ہولڈر ہمارے میڈیا اور عالمی میڈیا کو قابو کرتے ہیں، ان کے مندرجات اور ترجیحات طے کرتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح ان لٹریچر فیسٹیولز میں بھی وہی لوگ کارفرما ہیں، تو پھر کسی نئی چیز کی توقع کیوں کر ہو سکتی ہے!

پھر اس ادبی میلے سے 'ادب‘ خارج کر کے صرف 'میلے‘ کے عنصر پر زیادہ توجہ رہتی ہے، اسے مارکیٹنگ اور اشتہار بازی کا ایک موقع اور تفریح برائے تفریح بنا دیا گیا ہے۔

ادب کے نام پر مختلف ادبی جتھے اور گروہ ایک دوسرے کی مداح سرائی کرتے ہیں۔ ہر شہر میں وہی چہرے بار بار دکھائی دیتے ہیں، پچھلے برسوں کے موضوعات کی جگالی ہوتی ہے، ہلکی پھلکی متنازع بات کرتے عوام کی توجہ کھینچی جاتی ہے، یا پھر ان پروگراموں کے اسپانسرز سماج کے اندر کوئی تبدیلی یا کسی سماجی قدر کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، تو ان کے لیے یہ ایک باقاعدہ پلیٹ فارم محسوس ہوتے ہیں۔

یعنی وہی کام جو ملٹی نیشنل کمپنیاں این جی اوز کے ذریعے کر رہی ہیں، وہی کام ان کانفرنسوں کے ذریعے بہت سہولت سے ٹارگٹ آڈیئنس تک پہنچ جاتا ہے۔

ان فیسٹیولز کا 'ہاﺅس فل‘ ہو جائے تو بس پھر سمجھیے منتظمین کی اصل کامیابی یہی سمجھی جاتی ہے۔ اب یہاں حقیقت میں ادب کے سنجیدہ لوگ کتنے آئے؟ کتنی جامع اور سیر حاصل گفتگو ہو سکی؟ ان سب سے قطع نظر صرف مجمع اکھٹا ہونا ہی ہدف ٹھیرا ہے۔

اس کے لیے مختلف نجی جامعات سے نوجوان لڑکے لڑکیاں بلا لی جاتی ہیں، جن میں سے بہت کم کی ہی کچھ ادبی تربیت ہوئی ہوتی ہے، وہ صرف کیمپس کی مجبوری میں یہاں آتے ہیں اور سیلفیاں لیتے اور چائے، کافی کے اسٹال پر ہلہ گلہ زیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔

ایسے میں تو ہم یہ توقع بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی ان اردو کانفرنسوں اورادبی میلوں پر تعمیری تنقید کا اظہار کر سکے گا، اس کی وجہ وہی 'تعلقات‘ اور 'لابیاں‘ ہیں، جو ہر جگہ موجود ہیں۔

ساتھ ہی تنقید کی جسارت کرنے والوں کا بھی تو سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، اس لیے یہ ذمہ بھی اب کوئی اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتا، سچ پوچھیے تو ضروری ہے کہ تین، تین دن کے فیسٹیول اور کانفرنس کے بجائے اسے ایک دن کر لیا جائے، لیکن پروقار طریقے سے اور زبان و ادب اور سماج کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی عام میڈیا اور موضوعات کے بجائے تخلیقی انداز میں سماج کے مسائل پر اظہار خیال کیا جائے، تاکہ ایسے پروگراموں کے اثرات ہمارے معاشرے کے اندر تک پہنچیں اور ہمیں مثبت تبدیلی کی کوئی رمق دکھائی دے سکے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ادبی میلوں رہا ہے

پڑھیں:

ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی، علی امین گنڈاپور

فائل فوٹو۔

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی۔

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ 4 اکتوبر کے احتجاج کے نتیجے یہ ٹارگٹ حاصل کیا۔

انھوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے یہ ٹارگٹ دیا تھا، اور کہا تھا سب کو آنا ہے، 4 اکتوبر کو پشاور سے نکلا، 5 اکتوبر کو ٹارگٹ حاصل کر کے واپس لوٹا تھا۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ 24 سے 26 نومبر تک لڑائی لڑنا آسان نہیں تھا، 26 نومبر کو ہمارے لوگ گولیاں کھانے نہیں آئے تھے، حکومت نے شکست تسلیم کر کے گولیاں چلائیں۔

دریں اثنا وزیر اعلیٰ کے پی نے کہا سوشل میڈیا پر لوگ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، سوشل میڈیا نے الیکشن میں ہمیں بالکل سپورٹ کیا، مجھے لوگوں نے ووٹ سوشل میڈیا پر نہیں پولنگ بوتھ پر جا کر دیئے

انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا کردار ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ سوشل میڈیا نے ہی سب کچھ کیا ہے، بغیر تحقیق کے الزامات لگانا ہماری اخلاقیات کی گراوٹ ہے، جب بانی پی ٹی آئی نے فائنل مارچ کی کال دی تو لوگ کیوں نہ آئے؟

 علی امین گنڈا پور نے کہا کہ وی لاگ اور جعلی اکاونٹ بنانے سے آزادی کی جنگ نہیں لڑی جاتی، ان ڈراموں کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی رہا نہیں ہو رہے، گھوڑے ایسے نہیں دوڑائے جاتے ایسے دوڑائے جاتے ہیں۔

اس موقع پر علی امین گنڈاپور نے طنزیہ انداز میں ہاتھوں کو ٹیڑھا کر کے گھوڑے دوڑانے کی ترکیب بتائی۔ انکے گھوڑے دوڑانے کے اسٹائل پر پی ٹی آئی اراکین اسمبلی نے قہقہ لگایا۔ انقلاب گھر بیٹھ کر انگلیاں چلانے سے نہیں آتے۔

انھوں نے کہا پارٹی کے اندر ایک تناو ہے، گروپ بندیاں چل رہی ہیں، یہ گروپ بندیاں کس نے کی، میں نے نہیں بنائیں، میری گزارش ہے گروپ بندیوں کا حصہ نہ بنیں، کوئی ایک شخص آکر بتائے میں نے کوئی گروپ بندی کی ہو۔

وزیراعلیٰ نے کہا کمزور پوزیشن میں مذاکرات ہوتے ہیں نہ کہ جنگ ہوتی ہے، ہمیں کمزور کر کے گروپوں میں بانٹا جا رہا ہے، جلسہ ہے پشاور آئیں کوئی رکاوٹ نہیں، یہ ایسا نہیں کرینگے بس علی امین پر الزامات لگائیں گے۔

انھوں نے کہا 5 اور 14 اگست کو کتنے لوگ نکلے؟ صرف باتیں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک کر نے سے انقلاب نہیں آتے، سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک سے انقلاب آتے ہوتے تو بانی پی ٹی آئی جیل میں نہ ہوتے۔

متعلقہ مضامین

  • صوابی: ٹک ٹاک پر غیراخلاقی ویڈیو وائرل کرنے والا لڑکا  گرفتار
  • انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کا تین روز فلم فیسٹیول اختتام پذیر
  • صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا
  • ’شروع ہونے سے پہلے ہی بائیکاٹ کیا جائے‘، عائشہ عمر کے ڈیٹنگ ریئلٹی شو ‘لازوال عشق’ پر صارفین پھٹ پڑے
  • کراچی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا
  • اردو یونیورسٹی سینٹ اجلاس موخر کرنے کیلئے خالد مقبول کا ایوان صدر کو خط
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین
  • ہمارے کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر بے وقوف بن جاتے ہیں، وزیراعلی علی امین گنڈاپور
  • ہمارے کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر بے وقوف بن جاتے ہیں، وزیراعلیٰ کے پی
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی، علی امین گنڈاپور