لٹریچر فیسٹیول کے سماجی اثرات کیوں نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 فروری 2025ء) یہ حتمی طور پر کہنا تو ذرا مشکل ہے کہ پاکستان میں ادبی میلوں کا یہ چلن باقاعدہ کس سال شروع ہوا، لیکن یہ ضرور ہے کہ گذشتہ 15، 16 سالوں سے مختلف شہروں میں باقاعدہ ایسے پروگراموں کا انعقاد بڑھتا چلا جا رہا ہے، جسے 'ادبی میلے‘ قرار دیا جاتا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ ایسے پروگرام بڑھتے اور وسیع ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اس میں کراچی آرٹس کونسل کی سن 2008 میں شروع ہونے والی ''عالمی اردو کانفرنس‘‘ اور سن 2010 میں اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ''کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘نے کافی کلیدی کردار ادا کیا اور پھر یہ کانفرنسیں اور لٹریچر فیسٹیول، لاہور، اسلام آباد، ملتان اور فیصل آباد تک باقاعدگی سے ہر سال ہونے لگے ہیں۔
(جاری ہے)
یہی نہیں گذشتہ سال کوئٹہ میں 'پاکستان لٹریچر فیسٹیول‘ بھی ہوا اور ایسے ہی اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی سابقہ روح و رواں امینہ سید نے بھی کچھ برسوں سے اپنے الگ سے ''ادب فیسٹیول‘‘ شروع کرا دیے ہیں۔
بہ ظاہر تو ادب، اردو اور کتابوں کی باتیں کتنی دل نشیں لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ادب دوستی بڑھ رہی ہے۔ عوام ان میلوں میں جوق در جوق امڈ آتے ہیں، ملکی اور غیر ملکی مہمانوں اور ادیبوں کی گفتگو سنتے ہیں، لیکن اس خوب صورت تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کئی برسوں سے جاری یہ بڑی بڑی ادبی سرگرمیاں کیا ہمارے معاشرے پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں؟
زیادہ نہیں بس تھوڑا ہی سا، کیا ہمارے ہاں کتابیں پڑھنے یا کچھ بھی پڑھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے؟ ان ادبی میلوں سے زبان و ادب کے تئیں کوئی علمی و ادبی اثرات دکھائی دے رہے ہیں؟ کیا ان سالانہ ادبی محفلوں میں عام میڈیا اور سوشل میڈیا میں رکاوٹوں کا شکار بن جانے والے مختلف مقامی اور بین الاقوامی موضوعات کو جگہ مل پاتی ہے؟
سچائی سے جواب دیجیے تو ان سب سوالات کے جواب نفی میں ملتے ہیں، جیسے ہمارے سماج میں ڈگری یافتہ لوگ بڑھ رہے ہیں اور اخلاق باختہ یا بدتمیز لوگوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، بالکل ایسے ہی سالانہ ادبی میلوں اور پروگراموں کے باوجود ہمارے سماج میں برداشت اور تحمل دور سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
کتابوں کی اشاعت بدستور گھٹ رہی ہے۔ رہ گئے ہمارے معاشرے کے اصل موضوعات اور سنگین ہوتے ہوئے مسائل، تو جو اسٹیک ہولڈر ہمارے میڈیا اور عالمی میڈیا کو قابو کرتے ہیں، ان کے مندرجات اور ترجیحات طے کرتے ہیں۔ کسی نہ کسی طرح ان لٹریچر فیسٹیولز میں بھی وہی لوگ کارفرما ہیں، تو پھر کسی نئی چیز کی توقع کیوں کر ہو سکتی ہے!
پھر اس ادبی میلے سے 'ادب‘ خارج کر کے صرف 'میلے‘ کے عنصر پر زیادہ توجہ رہتی ہے، اسے مارکیٹنگ اور اشتہار بازی کا ایک موقع اور تفریح برائے تفریح بنا دیا گیا ہے۔
ادب کے نام پر مختلف ادبی جتھے اور گروہ ایک دوسرے کی مداح سرائی کرتے ہیں۔ ہر شہر میں وہی چہرے بار بار دکھائی دیتے ہیں، پچھلے برسوں کے موضوعات کی جگالی ہوتی ہے، ہلکی پھلکی متنازع بات کرتے عوام کی توجہ کھینچی جاتی ہے، یا پھر ان پروگراموں کے اسپانسرز سماج کے اندر کوئی تبدیلی یا کسی سماجی قدر کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، تو ان کے لیے یہ ایک باقاعدہ پلیٹ فارم محسوس ہوتے ہیں۔ یعنی وہی کام جو ملٹی نیشنل کمپنیاں این جی اوز کے ذریعے کر رہی ہیں، وہی کام ان کانفرنسوں کے ذریعے بہت سہولت سے ٹارگٹ آڈیئنس تک پہنچ جاتا ہے۔ان فیسٹیولز کا 'ہاﺅس فل‘ ہو جائے تو بس پھر سمجھیے منتظمین کی اصل کامیابی یہی سمجھی جاتی ہے۔ اب یہاں حقیقت میں ادب کے سنجیدہ لوگ کتنے آئے؟ کتنی جامع اور سیر حاصل گفتگو ہو سکی؟ ان سب سے قطع نظر صرف مجمع اکھٹا ہونا ہی ہدف ٹھیرا ہے۔
اس کے لیے مختلف نجی جامعات سے نوجوان لڑکے لڑکیاں بلا لی جاتی ہیں، جن میں سے بہت کم کی ہی کچھ ادبی تربیت ہوئی ہوتی ہے، وہ صرف کیمپس کی مجبوری میں یہاں آتے ہیں اور سیلفیاں لیتے اور چائے، کافی کے اسٹال پر ہلہ گلہ زیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ایسے میں تو ہم یہ توقع بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی ان اردو کانفرنسوں اورادبی میلوں پر تعمیری تنقید کا اظہار کر سکے گا، اس کی وجہ وہی 'تعلقات‘ اور 'لابیاں‘ ہیں، جو ہر جگہ موجود ہیں۔
ساتھ ہی تنقید کی جسارت کرنے والوں کا بھی تو سوشل بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے، اس لیے یہ ذمہ بھی اب کوئی اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتا، سچ پوچھیے تو ضروری ہے کہ تین، تین دن کے فیسٹیول اور کانفرنس کے بجائے اسے ایک دن کر لیا جائے، لیکن پروقار طریقے سے اور زبان و ادب اور سماج کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی عام میڈیا اور موضوعات کے بجائے تخلیقی انداز میں سماج کے مسائل پر اظہار خیال کیا جائے، تاکہ ایسے پروگراموں کے اثرات ہمارے معاشرے کے اندر تک پہنچیں اور ہمیں مثبت تبدیلی کی کوئی رمق دکھائی دے سکے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ادبی میلوں رہا ہے
پڑھیں:
حکومتی خواب تعبیر سے محروم کیوں؟
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ملک بھر میں مختلف تقریبات میں کبھی مایوسی کی باتیں نہیں کرتے بلکہ عوام کو اچھے خواب ہی دکھاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے شہر کے لوگوں کو بتایا تھا کہ حکومت نے ملک کو دلدل سے نکالا جو اب اپنی اڑان بھر رہا ہے اور ہر طرف پاکستان کے چرچے ہو رہے ہیں۔
معرکہ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوا ہے اور مسلح افواج نے دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کا دفاع کیا اور پاکستان پر آنچ نہیں آنے دی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کراچی آرٹس کونسل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وہاں بیٹھے سامعین کو یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ سندھ کا مقابلہ کسی شہر یا صوبے سے نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے اور یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔ پورے ملک کو ایک ہو کر دنیا سے مقابلہ کرنا چاہیے اور آپس میں تقسیم نہیں ہونی چاہیے۔ ملک میں کہیں بھی تعمیری و ترقیاتی کام ہو رہا ہو یہ پاکستان کا نام روشن ہوتا ہے۔
غربت کے خاتمے کے عالمی دن پر لاہور میں ایک تقریب میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ساڑھے دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی اہم وجوہات ملک میں کرپشن اور مہنگائی ہے۔ ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہوگا۔ بیڈ گورننس، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، کم وسائل، آمدن میں کمی اور سماجی ناہمواری کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی ہوتی ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اگر آبادی میں مسلسل اضافہ ہوگا اور وسائل کم ہوں گے تو غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ پاکستان کی 41.7 فی صد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
حکومتی عہدیداروں کے دعوؤں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی جو باتیں سرکاری طور پر ہو رہی ہیں، اس کے باوجود ملک کی تقریباً آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔احسن اقبال کے پاکستان سے متعلق اڑان کے بیان اور بلاول بھٹو کے سندھ کے دنیا سے مقابلے کے برعکس حقائق یکسر مختلف ہیں۔ جب ملک کی 41.7 فی صد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو تو ایسے حالات میں حکمرانوں کے بیانات خواب ہی نظر آتے ہیں جن کی کبھی تعبیر نہیں ملتی۔ جب بڑوں کے بیانات ایسے ہوں تو ملک کے سب سے بڑے شہر کے میئر مرتضیٰ وہاب بھی کہاں پیچھے رہتے۔ انھوں نے بھی اپنے ہی شہر کے لوگوں کو خواب دکھا دیا کہ کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔
کراچی پاکستان کا دل ہے اور ایک ایسا شہر جو معاشی سرگرمیوں، ثقافتی تنوع اور انسانی استقامت کی علامت ہو سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے وژن کے مطابق مستقبل میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگا۔ انھوں نے یہ بات دنیا کے جدید شہر دبئی ایشیا پیسفک سیٹیز سمٹ سے خطاب میں کہی۔ میئر کراچی نے دبئی میں مزید کہا کہ کراچی میں منصوبے صرف سڑکوں، عمارتوں یا بنیادی ڈھانچے کی بہتری تک محدود نہیں بلکہ یہ انسانی وقار، مساوات اور انصاف کی بحالی کا سفر ہے۔
جنرل پرویز مشرف ملک میں تقریباً نو سال اقتدار میں رہے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور سندھ میں 17 سالوں سے مسلسل برسر اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور دو بار اقتدار میں رہنے والی ان کی والدہ بے نظیر بھٹو بھی کراچی میں پیدا ہوئی تھیں مگر انھوں نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کو ترجیح دی اور نہ ہی کراچی سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو کراچی کو اہمیت و ترجیح نہیں دے رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیدائشی شہر کراچی کا حق ادا کیا تھا اور ایم کیو ایم کے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال کو اتنے فنڈز دیے تھے کہ انھوں نے چار سالوں میں ترقی دلا کر دنیا کے 13 میگا سیٹیز میں کراچی کو شامل کرا دیا تھا جو کراچی کی ترقی کا دور تھا۔
مصطفیٰ کمال کا تعلق بھی کراچی سے تھا اور میئر کراچی کا تعلق بھی کراچی سے ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے کراچی کے پہلے ناظم ہیں جو تقریباً دو سال سے اقتدار میں ہیں اور دبئی کی ایک تقریب میں یہ خواب دکھا رہے ہیں کہ ہم کراچی کو عالمی شہروں کی صف میں شامل کرائیں گے۔ میئر کراچی حکومت سے اپنے لیے آئینی اختیارات لے سکے اور کراچی کی ضرورت کے لیے ضروری فنڈ حاصل کر سکے۔
کراچی کی حالت ڈھکی چھپی نہیں جس کو 2008 میں جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی وفاقی حکومتوں نے اہمیت و ترجیح دی اور نہ ہی وفاق سے تین حکومتوں میں وہ فنڈز ملے جو ملنے ہی نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ فنڈز کراچی کا حق تھا جس کے متعلق ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ یونس ڈھاگا تفصیلات بتا چکے ہیں۔
سندھ حکومت کی ترجیح کراچی رہا ہی نہیں کیونکہ ان کے نزدیک کراچی کمائی کا گڑھ اور سونے کی چڑیا ہے جو اپنی آمدنی سے ملک اور صوبے کو پال رہا ہے۔
صدر زرداری اور مراد علی شاہ کا تعلق کراچی سے نہیں مگر کراچی بلاول بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صدر زرداری کی دونوں بیٹیوں کا پیدائشی شہر ہے اور ان پر کراچی کا حق ہے کہ کراچی والوں کو صرف خواب نہ دکھائیں۔ بلاول بھٹو دنیا کو چھوڑیں اور سندھ کا موازنہ پنجاب سے اور کراچی کا موازنہ لاہور سے کر لیں تو انھیں حقائق کا اندازہ ہو جائے گا۔ پنجاب کی ترقی پاکستان سے نہیں صوبہ پنجاب سے ہے۔ اندرون سندھ کے شہروں کی جو ابتر حالت ہے انھیں دیکھ کر کوئی نہیں مانے گا کہ سندھ کا مقابلہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ پاکستان اڑان بھر رہا ہوتا تو غربت میں کمی آتی اور سندھ حکومت کراچی کی سڑکیں ہی بنوا دے تو سڑکوں کی ترقی ہی نظر آ جائے گی۔