حکومت آج کمیشن بنارے ہم مذاکرات میں شامل ہوں گے، شبلی فراز
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
راولپنڈی:
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ حکومت نیک نیتی دکھائے اور ہمارے مطالبے پر دو کمیشن بنائے تو ہم آج ہی مذاکرات میں شامل ہوں گے۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی سینیٹر شبلی فراز نے اڈیالہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 8 فروری ایک ایسا دن ہے جس کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر دیکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس دن کے بعد ملک میں عدم استحکام آیا ہےکیونکہ عوام کے حقیقی نمائندے پارلیمان میں نہیں بیٹھے ہوئے ہیں، ایوانوں میں عوام کے مسترد کیے گئے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ایسے لوگ عوام کے لیے کیا قانون سازی کریں گے، ڈریکونین قوانین بن رہے ہیں، یہ اسی کا شاخسانہ ہیں اگر عوام کے اصلی نمائندے بیٹھے ہوتے تو اس قسم کے قوانین منظور نہ ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی وزرا کو ملاقات کی اجازت نہ دینے کی مذمت کرتے ہیں، بانی سے ملاقات میں کیا بات کرلیں گے کہ نیشنل سیکیورٹی خطرے میں پڑجائے گی۔
شبلی فراز نے کہا کہ اگر حکومت آج ہمارے مطالبے کے مطابق 2کمیشن بنا دیتی ہے تو ہم مذاکرات میں شامل ہو جائیں گے لیکن حکومت کو اپنی سنجیدگی اور نیک نیتی دکھانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ پی ٹی آئی کے لوگوں کا کمیشن بنا دیں ہم تو صرف تین سینیئر موسٹ ججوں کے کمیشن کا کہہ رہے ہیں، ایسے سینئر ججوں کا کمیشن بنائیں جو فیصلہ دینے کی اہلیت رکھتے ہوں اور غیر جانب دار بھی ہوں تاکہ عوام کو پتہ چل سکے کہ 9 مئی کو کیا ہوا اور 26 نومبر کو کیا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سیاسی جماعت ہیں اور سیاسی جماعت کا کام سیاسی حلیفوں کو اکٹھا کرنا ہے، بطور سیاسی جماعت ون پوائنٹ ایجنڈے پر اپنے حلیفوں کو لانا اور سیاسی تحریک شروع کرنا ہے اور سیاسی جماعتیں یہی کر سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شبلی فراز عوام کے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
پاکستان اور افغانستان کے حالات نہ صرف کشیدگی بلکہ جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے واقعات اور افغان طالبان کی دوغلی پالیسی ہے۔ حالیہ دنوں میں قطر اور ترکیہ کی میزبانی اور ثالثی کے کردار کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ اس ناکامی نے مستقبل کی بہتری کے امکانات پرسوالات کھڑے کردیے ہیں۔
اس کا مجموعی اثر خطے میں دہشت گردی کی وجوہات کو دور کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں جو امید کے پہلو قائم ہوئے تھے کہ معاملات بات چیت کی صورت میں حل ہوسکیں گے، وہ بھی دم توڑ گئے ہیں۔ اب حالات ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سفارت کاری کے بجائے کشیدگی بڑھے گی اور ایسے لگتا ہے کہ مذاکرات کی حکمت عملی کی ناکامی نے امن کے حمایتیوں کو مایوس کیا ہے۔
ان مذاکرات میں تین مواقع ایسے بھی دیکھنے کو ملے جہاں امید بندھی تھی کہ مفاہمت میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آسکتی ہے جو تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اصولاً قطر اور ترکیہ کی مدد کی بنیاد پر مذاکرات آگے بڑھنا چاہیے تھے لیکن کابل میں بیٹھی افغان طالبان قیادت اور دہلی میں بیٹھی بھارت کی قیادت ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں مصروف تھی ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی بات چیت آگے بڑھتی تو مذاکرات میں شامل افغان وفد کہتا کہ وہ کابل اور قندھار سے اجازت لے لیں لیکن انھیں اجازت کے بجائے نئے مطالبات کی لسٹ مل جاتی ، یوں مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوتا رہا۔قطر اور ترکیہ کو بھی کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ افغان حکومت کا طرز عمل سفارتی آداب کے برعکس تھا ۔پاکستان نے یہ بھی واضح کردیا کہ ہم نے صرف قطر اور ترکیہ کی درخواست پر مذاکرات میں شرکت کی تھی۔حالانکہ ہمیں پہلے سے اندازہ تھا کہ افغان حکومت کا ایجنڈا پاکستانی مفادات کے برعکس ہے، وہ دہشت گردی ، ٹی ٹی پی اور دیگر ایشوز پر نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی عملی اقدامات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
پاکستان کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا اور پاکستان افغان حکومت سے تحریری ضمانت یا معاہدہ چاہتا تھا۔لیکن افغان طالبان حکومت کی جانب سے تحریری معاہدے سے انکاری اور انحراف ہی مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بنا ۔حالانکہ افغان حکومت کو پاکستان نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی پر مبنی شواہد بھی پیش کیے اور اسے افغان حکومت نے تسلیم بھی کیا مگر تحریری معاہدہ کرنے سے انکار کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس اہم معاملے پر تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتے تھے ۔پاکستان افغانستان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اہل دانش کے بقول اگر افغانستان کا وفد بااختیار ہوتا تو مفاہمت کا راستہ نکل سکتا تھا لیکن افغانستان میں موجود افغان طالبان کی قیادت نے مذاکرات کو ناکام بنایا ، یقیناً یہ افغان طالبان اور بھارت کا ایجنڈا تھا۔
طالبان قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کی بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر جنگ کے نتیجے میں جو حالات کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے، وہ ممالک کو بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ قطر اور ترکیہ کے بعد بڑی عالمی طاقتیں یعنی امریکا اور چین اس ڈیڈ لاک میں کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے یا دونوں ممالک کو جنگ کے میدان میں دھکیل دیںگے۔
کچھ سادہ لوح یا حد سے زیادہ چالاک سفارت کار اس نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان سے تحریری معاہدے پر زور نہیں دینا چاہیے تھا اور نہ ہی افغان طالبان نے تحریری ضمانت دینی تھی ۔ان کی رائے یہ تھی کہ اگر زبانی طور پر افغان حکومت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے اور ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کراتی تو ہمیں یہ آفر قبول کرنی چاہیے تھی ۔لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ زبانی یقین دہانی کابل کئی دفعہ کرچکا ہے اور بار بار اس پر عملدرآمد کی ناکامی نے پاکستان کو تحریری معاہدے پر مجبور کیا ۔دوئم، افغان حکومت نے قطر اور ترکیہ کو بھی افغان طالبان کی طرف سے زبانی ضمانت دینے سے انکار کیا تھا جو عملی طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنی۔
اس وقت چین یا امریکا یا سعودیہ عرب بھی معاملات کے سدھار میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دونوں ممالک جنگ یا کشیدگی سے بچ سکیں۔ ہمیں اپنے سفارتی کارڈ یا سیاسی حکمت عملیوں کو اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ کھیلنا ہو گا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ افغانستان پاکستان کے تحفظات کو کسی بھی طور پر سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو ایسے میں کیا حتمی نتیجہ جنگ کی صورت ہی میں نکالنا لازم ہے۔ ہمیں مذاکرات کی ترتیب میں نئی حکمت عملی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔افغان حکومت کے پاس ترکیہ اور قطر میں مفاہمت کو پاکستان کے ساتھ آگے بڑھانے کا اچھا موقع تھا مگر افغان حکومت فائدہ نہیں اٹھا سکی اور آج دونوں ممالک جو کل تک برادر اسلامی ملک تھے اب جنگ کی حالت میں ہیں۔
افغانستان کو بھارت سے خبردار رہنا چاہیے جو اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان نیا سیاسی رومانس بھی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے ۔اس لیے خود افغان طالبان حکومت کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود کو پاکستان دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے تعلقات کی بہتری کو ہی اپنا ایجنڈا بنانا چاہیے۔
اس وقت جو منظرنامہ سامنے آیا ہے اس میں یقیناً یہ عمل ضروری نہ ہو کہ ہمیں جارحانہ راستہ اختیار کرنا ہے لیکن یہ امکان موجود ہے کہ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کشیدگی اور دہشت گردی کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے ، ٹی ٹی پی پاکستان میں جنگ کا دائرہ کار مزید پھیلا سکتی ہے۔ طالبان افغان حکومت کا حالیہ طرز عمل بھارتی ایما پر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔