Juraat:
2025-06-16@12:59:47 GMT

سندھ بلڈ نگ ،کراچی کا ڈھانچہ تبدیل متعلقہ ادارے خاموش

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

سندھ بلڈ نگ ،کراچی کا ڈھانچہ تبدیل متعلقہ ادارے خاموش

٭اے ڈی عاصم صدیقی اور بلڈنگ انسپکٹراورنگزیب ناجائز تعمیرات کی رکھوالی پر مامور
٭بلاک 2 Cپلاٹ 9/8پرمنہدم کی جانے والی خطرناک عمارت کی ازسرنو تعمیر شروع

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں رائج سسٹم کے تحت ضلع وسطی کے علاقے ناظم آباد میں بھی دیگر علاقوں کی طرح اے ڈی عاصم صدیقی اور بی آئی اورنگزیب ناجائز تعمیرات کی رکھوالی پر مامور ہیں۔خطیر رقم بٹورنے کے بعد لا قانونیت کا بازار گرم رکھتے ہوئے بیٹر مافیا کو غیر قانونی امور پر چھوٹ دی جا رہی ہے جس کا با آسانی اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ناظم آباد نمبر 2بلاک C پلاٹ نمبر 9/8 پر جاری چھٹی منزل کی تعمیر پر گزشتہ دنوں نمائشی توڑ پھوڑ کرنے کے بعد عدلیہ اور سول سوسائٹی کو گمراہ کیا گیا تھا ۔بعد ازاں فہد نامی بیٹر نے گٹھ جوڑ کرنے کے بعد ازسرنو تعمیر کی آزادی حاصل کر لی ہے جو انسانی جانوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ واضح رہے کہ اورنگزیب کا نام غیر قانونی تعمیرات کی بحفاظت تکمیل کیلئے مضبوط ڈھال سمجھا جاتا ہے اور موصوف کی سرپرستی میں جاری بے ہنگم عمارتوں کی بلا روک ٹوک تعمیرات کے باعث سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا وجود مشکوک دکھائی دیتا ہے ۔دوسری جانب علاقہ مکین مسلسل بڑھنے والے مسائل سے پریشان ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

سندھ کا بجٹ 2025-26

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سندھ پاکستان کا انتظامی لحاظ سے بدترین صوبہ ہے، یہاں سڑکوں سے اسپتالوں اور اسکولوں تک صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ حکومت سندھ کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے لیے پیش کیا گیا 34 کھرب 51 ارب روپے کا بجٹ بظاہر اعداد و شمار کی چمک دمک سے مزین ہے، لیکن حقیقت میں یہ بجٹ عوامی امنگوں سے کوسوں دور، مخصوص طبقات کو خوش کرنے اور دکھاوے پر مبنی ایک روایتی مشق ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح صرف اخباری خبروں تک محدود رہے گا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بجٹ میں تعلیم، صحت، پنشن، ترقیاتی منصوبوں، اور فلاحی اسکیموں کا خوب چرچا کیا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے کے لیے 12.4 فی صد اضافے کا اعلان ضرور کیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری، بچوں کی شرح خواندگی اور انفرا اسٹرکچر کی حالت بہتر ہوئی؟ کیا یہ فنڈز بھی سابقہ ادوار کی طرح کرپشن اور اقربا پروری کی نذر نہیں ہو جائیں گے؟ اسی طرح صحت کے لیے 326 ارب روپے رکھنا بظاہر خوش آئند ہے، مگر جب اسپتالوں میں ایک بستر پر دو مریض لیٹے ہوں، اور دور دراز علاقوں میں بنیادی طبی سہولت تک میسر نہ ہو تو یہ اعلانات محض اعداد وشمار کا کھیل معلوم ہوتے ہیں۔ کراچی، جو ملک کا معاشی دارالحکومت ہے اور سندھ کے بجٹ میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے، ایک بار پھر نظرانداز ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ ’’یہ بجٹ غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے‘‘۔ کراچی کے لیے کوئی بڑا میگا پروجیکٹ شامل نہ کرنا، K-4 جیسے پانی کے منصوبے کو پھر سے نظر انداز کرنا، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا صرف ذکر کرنا، سب حکومتی بے حسی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناانصافی کراچی کے ساتھ برسوں سے جاری ہے، اور پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ن لیگ تینوں اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ پیپلز پارٹی جو پچھلے کئی عشروں سے سندھ میں اقتدار پر قابض ہے، اس نے قبضہ کرکے اور یرغمال بنا کر عوام کو صرف غربت، پسماندگی، بیروزگاری، اور کرپشن کا تحفہ دیا ہے۔ دیہی سندھ میں زرعی معیشت کو تباہ کیا گیا، چھوٹے کسانوں کو کبھی وقت پر پانی ملا، نہ کھاد اور نہ ہی ان کی پیداوار کی قیمت۔ شہری سندھ، بالخصوص کراچی، جس سے حکومت کو سب سے زیادہ ٹیکس ملتا ہے، مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی حالت زار، سیوریج کا نظام، سڑکوں کی تباہی، کچرے کا ڈھیر، اور پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے شہر کو جان بوجھ کر تنہا چھوڑا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی بنیادوں پر ترقیاتی فنڈز کے استعمال نے کراچی کے نوجوانوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے بار بار اقتدار میں آ کر صرف اپنے قریبی حلقے کو نوازا گیا، یہ طرزِ حکمرانی سراسر استحصالی ہے جس کا خمیازہ سندھ کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ بجٹ میں 4400 اساتذہ اور عملے کی بھرتی کا دعویٰ کیا گیا، لیکن اس میں میرٹ اور شفافیت کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور یہاں لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں اس سے قبل کے برسوں کے بجٹ کا کیا ہوا اور کون سی تبدیلی عوام کو دیکھنے کو ملی ہے۔ ترقیاتی منصوبے 520 ارب روپے تک محدود کیے گئے، جو کہ سندھ جیسے پسماندہ صوبے کے لیے نہایت ناکافی ہیں، خاص طور پر جب ہر سال اربوں روپے غیر ترقیاتی اخراجات اور وزراء کی مراعات پر خرچ ہو رہے ہوں۔ حکومت کی جانب سے 5 محصولات ختم کرنے اور کسانوں کو سبسڈی دینے جیسے اقدامات کی تعریف کی جا سکتی ہے، لیکن ان اقدامات کے عملی اطلاق پر شدید سوالات موجود ہیں۔ سابقہ کارکردگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اقدامات بھی نعرے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت پر تنقید کر رہی ہے، وہی وفاقی حکومت میں شامل ہوکر وفاقی بجٹ کا دفاع کرتی ہے جس میں کراچی کو بھی مکمل نظر انداز کیا گیا۔ اس دوغلی سیاست سے عوام بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ یہ بجٹ سندھ کے متوسط اور غریب طبقے کے لیے کسی ریلیف کا باعث نہیں، بلکہ مہنگائی، بیروزگاری اور بدانتظامی کا تسلسل ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انفرا اسٹرکچر جیسے بنیادی مسائل بدستور حل طلب ہیں، اور حکومت ان پر سنجیدہ اقدامات کرنے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ سندھ کے عوام اس بجٹ کے دھوکے کو پہچانیں، اور اپنے حق کے لیے مزاحمت کریں اور اپنی طاقت سے ایسی حکمرانی کو مسترد کریں جو صرف اپنے مفادات کی نگہبان ہو، نہ کہ عوام کی خیرخواہ ہو۔

 

متعلقہ مضامین

  • سندھ بلڈنگ ، کھوڑو سسٹم کے بدعنوان افسران غیرقانونی تعمیرات میںمگن
  • سندھ بجٹ، کراچی کی سڑکوں کی تعمیرات کے لیے مختص فنڈزسامنے آگیا
  • F-35 گرا کر ایران نے جنگی مساوات تبدیل کر دی
  • سندھ کا بجٹ 2025-26
  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی بٹ کوائن کے بانی مائیکل سیلر سے اہم ملاقات
  • لاہور: وزیراعظم شہبازشریف الیکٹرک وہیکلز پالیسی اور اس سے متعلقہ صنعت کی ترقی سے متعلق اجلاس کی صدار ت کررہے ہیں
  • سندھ بجٹ میں کراچی کیلیے نیا منصوبہ شامل نہیں
  • (سندھ بلڈنگ )لیاقت آباد میں ناجائز تعمیرات مافیا کو کھوڑو سسٹم کی سرپرستی
  • ایران کا اسرائیل پر حملے جاری رکھنے کا اعلان
  • وزیراعلیٰ سندھ کا 1400 ملین سے انفارمیشن ٹیکنالوجی پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا اعلان