Nai Baat:
2025-11-19@03:16:48 GMT

ٹیکس کا ظالمانہ نظام

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

ٹیکس کا ظالمانہ نظام

ہمارا شمار ان بدقسمت شہریوں میں ہوتا ہے جو ہر چیز پر اپنی کمائی سے ٹیکس دے رہا ہے،لیکن پریشانی یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ اب بھی سرکار سے خوش نہیں ہے، اسکی تان ہمیشہ ’’ڈو مور‘‘ پر آکرٹوٹتی ہے، ماہرین معیشت نے فائلر اور نان فائلر کی اصطلا حات کا ایسا استعمال بتا یا کہ سوشل میڈیا پر ایک مذاق بن کر رہ گیا،کہنے والے کہتے کہ اگر ٹیکس وصولی کی یہی رفتار رہی تو عین ممکن ہے کہ شادی کرنے کی اجازت صرف فائلر ہی کا مقدر ٹھرے۔
سرکار نے ٹیکس نیٹ روک کو وسعت دینے کے لیے اب زرعی ٹیکس کی بھی منظوری دی ہے، کیونکہ جاگیر دار ہی وہ طبقہ ہے جسکی عیاشیاں سب پر عیاں ہیں، انکی غالب تعداد سرکار میں رہتے ہوئے بہت ہی سہولیات سے مستفید ہوتی رہتی ہے،ایک طرف سرکار کو غم کھائے جاتا ہے کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے دوسری طرف جب بھی سالانہ میزانیہ پیش کیا جاتا ہے تو انداز تفاخر سے کہا جاتا کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ امیر ترین پانچ فیصد طبقہ ٹیکس دینے سے گریزاں ہے، صرف 12فیصد نے دس ارب سے زائد کی دولت ظاہر کی ہے، اصل مزہ تو ان کا ہے جو ٹیکس نیٹ ورک سے باہر ہیں،تاجروں نے بھی سرکار کی کمزوری بھانپ لی ہے ،جب بھی ان سے ٹیکس کی وصولی کا ارادہ کیا جاتا ہے تو یہ ’’ بڑے گھر‘‘ سے رجوع کرلیتے ہیں، سرکار نے آسان حل نکال لیا ہے، وہ ضروریات زندگی پر سیلز ٹیکس عائد کر کے اپنی آمدنی بڑھا لیتی ہے، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے شہری کا سانس لینا محال ہو رہا ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے برملا اعتراف کیا ، کہ کسی سرکار کے پاس ملک بھر کی دوکانوں کا ڈیٹا ہی سرے سے موجود نہیں ہے، ہر عہد کی سرکارحتیٰ کہ باوردی صدر بھی ایسا رسک لینے سے گریزاں رہے، سب کو لاء اینڈ آڈر کا خدشہ نظر آنے لگتا ہے، یہ طبقہ نیٹ ورک سے ہی باہر ہے، اس کا ناجائز فائدہ دیگر شعبہ جات اٹھاتے ہیں جو انھیں بلیک میل کرتے ہوئے پیسے اینٹھ لیتے ہیں شنید ہے کہ بعض اہلکاروں نے اس دھندہ کے لیے ’’جعلی رسیدیں ‘‘ بنا رکھی ہیں۔

بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں جو ملازمین کو آج بھی نقد تنخواہ دیتی ہیں، نہ ملازم ٹیکس دیتا ہے نہ ہی کمپنی ادا کرتی ہے، اس کے مقابلہ میں سرکاری ملازمین ٹیکس وصولی میں ’’گھڑے کی مچھلی‘‘ ہوتے ہیں جن کی تنخواہ سے پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے،اس سرکاری ’’ خدمت ‘‘ کے بدلے کوئی غیر معمولی سہولت انھیں نہیں ملتی۔ دستاویزی معیشت کی عدم موجودگی کا سب سے زیادہ فائدہ منڈی میں کاروبار کرتا وہ آڑھتی اٹھا رہا ہے جن کے کاروبار کی تفصیل سے ایف بی آر قطعی لا علم ہے جس کے افسران ٹیکس وصولی کے لئے بڑی تعداد میں نئی او ر لگژری گاڑیاں خریدنے کے آرزو مند ہیں۔
اس سے قبل سرکار نے نان فائلرز کی بجلی منقطع اور سم بند کرنے کی دھمکی لگا کر بھی دیکھ لیا، اس کے باوجود ٹیکس کی وصولی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ سول، ملٹری بیوروکریسی اور سرکارپر مشتمل نیا قومی ادارہ سرمایہ کاری کی سہولت کے بنایا گیا تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو اور زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آئے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار بھی ٹیکس کے مربوط نظام پر ہے، جس میں شفافیت بنیادی عنصر ہے۔

اسلامی نظام معیشت کے آزمودہ طرز عمل زکوٰۃ اور عشر کے نفاذ سے نجانے حکومت کیوں گریزاں ہے،اگرچہ کچھ تاجر، کسان اسکی ادائیگی انفرادی طور پر تو کرتے ہیں مگر اجتماعی طور ایسا نظام وضع نہیں ہے،اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اسکی وصولی کی ذمہ داری صوبہ جات پر عائد کی گئی ہے،اس مقصد کے لئے زکوٰۃ اور عشرکونسل بھی بنا دی ہے مگر وہ پوری طرح فعال نہیں ہیں، بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی کی شفافیت پر آڈیٹر جنرل اور عدالت عظمیٰ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے،فی الوقت جو طریقہ کار رائج العمل ہے ،اس میں ایک طبقہ اس بنا پر از خود باہر ہے کہ اپنے ہاتھ زکوٰۃ اور عشر ادا کرے گا۔

اسلامی تاریخ میں زکوٰۃ اور عشر کا ایک منظم اور قابل عمل نظام ملتا ہے جس سے ریاست کے مالی معاملات چلائے جاتے ، سرکار کے اہلکار وصولی کر کے بیت المال میں جمع کراتے ، علماء کرام نے زکوٰۃ کی آٹھ مدات اور مصارف کا تذکرہ کیا ہے، سرکار زکوٰۃ اور عشر کی کونسل کو یونین سطح پر منظم اور فعال کرے، تو اسکی وساطت سے بازار کے عام دوکان دار سے بھی وصولی ممکن ہے جس کا لینا سرکار کے لئے درد سر اس لئے بنا ہے کہ دوکان داروں کا ڈیٹا نہیں ہے، امکان غالب ہے کہ دوکان دار مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے ٹیکس کی بجائے زکوٰۃ دینے کو اپنی عاقبت کے لئے لازم خیال کریں گے۔

حال ہی میں زرعی آمدن کے اعتبار سے انکم ٹیکس کے نفاذ کی منظوری ہو چکی ہے، سرکار ملک بھر میں دکانوں کی تعداد کا اگرشمار نہیں کر سکی ہے توزرعی انکم ٹیکس کا حصول ایک بڑا ہدف کیسے ممکن ہے، زیادہ بہتر ہے کہ سرکار عشر کونسل کی وساطت سے وصولی عشر کا ملک بھر نفاذ کرے ،جس کا اطلاق ایک ایکڑ پر بھی ہو گا، مذہبی فریضہ کی بابت کسانوں کو اس وصولی پر آمادہ کرنا بہت آسان ہے۔
ٹیکس کے امتیازی سلوک اور غیر شفافیت کی بدولت محصولیات کی وصولی میں جن مشکلات کا سرکار کو سامنا ہے، اس خلا کو زکوٰۃ، عشر، جذیہ اور دیگر اسلامی مدات سے پورا کیا جاسکتاہے، مختلف محکمہ جات کی زمین، معدنیات بھی لیز پر دے کر سرکار اپنی آمدن میں اضافہ کر سکتی ہے، جن سے عشر کی وصولی ہر صورت ممکن ہے۔ اشرافیہ اگر اپنی مراعات میںکمی پر راضی نہ ہو اس کی تکمیل کے لئے عوام کو ٹیکس کی ادائیگی پرمجبور کرے،تو پھر غربت کا خاتمہ ممکن ہے نہ خوشحالی میسر ہو گی۔

نبی مہربانؐ کی ریاست مدینہ کا ماڈل ہی ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے،طاقت کے زور پر ٹیکس وصولی کے نتائج کبھی مثبت برآمد نہیں ہوں گے،غربت کے خاتمہ کے لئے اسلامی نظام معیشت کو ہی اپنانا ہو گا،اب تو مغربی دنیا بھی سود میں خاطر خواہ کمی لا رہی ہے،کیا یہ بد قسمتی نہیں کہ ایف بی آر زکوٰۃ اور عشر کے نظام کے نفاذ کی بجائے ٹیکس کا ایسا ظالمانہ پروگرام لانے کا خواہاں ہے جس کا فائدہ عوام کے بجائے عالمی مالیاتی فنڈ کو پہنچے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: زکو ۃ اور عشر ٹیکس وصولی کی وصولی ٹیکس کا ممکن ہے ٹیکس کی نہیں ہے جاتا ہے کے لئے

پڑھیں:

ای کامرس کے فروغ کیلیے ورک فورس روڈ میپ کی ضرورت ہے،ماہرین

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کاای کامرس کاشعبہ آئندہ پانچ برس میں ہزاروں روزگارکے مواقع پیداکرنے کی صلاحیت رکھتاہے، تاہم ماہرین نے خبردارکیاہے کہ اگر حکومت نے فوری طور پر انسانی وسائل کی ترقی، اسکلڈورک فورس کی کمی اور تربیتی نظام کی بکھری ساخت کو درست نہ کیا تو یہ صلاحیت عملی شکل اختیار نہیں کرسکے گی۔تیز رفتار ڈیجیٹل اپنایاجانے اور متوقع ای کامرس پالیسی 2.0 کے باوجود، ماہرین نے کہاکہ پاکستان اپنے ہدف حاصل نہیں کر پائے گا،جب تک انسانی سرمائے،جدید اسکلز اور جدید لاجسٹکس و پیمنٹ انفراسٹرکچر میں فوری سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ماہرین نے نشاندہی کی کہ پاکستان کا ای کامرس اور اس سے منسلک شعبے اگلے چندبرسوں میں ہزاروں نئی ملازمتیں پیداکرسکتے ہیں،تاہم اس کیلیے حکومت کو جامع اسکل ڈیولپمنٹ روڈمیپ اور تربیتی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی، حکومت اس وقت ای کامرس پالیسی 2.0 کی منظوری کے مراحل میں ہے،جس میں پانچ اسٹریٹجک ستون شامل ہیں۔ماہرین کے مطابق پالیسی مضبوط ہے،مگر اس میں ورک فورس ڈویلپمنٹ کو مرکزی حیثیت دیناچاہیے،کیونکہ ای کامرس کی مہارتیں روایتی آئی ٹی اسکلزسے مختلف اورزیادہ متنوع ہیں۔ ایس آئی گلوبل سولوشنزکے سی ای او ڈاکٹر نعمان سعید نے کہاکہ روایتی تجارت کو ای کامرس میں تبدیل کرنے کیلیے جدیدلاجسٹکس،ادائیگی کے نظام اور ہنرمندافرادی قوت ناگزیر ہیں،ای کامرس ملٹی ڈسپلنری نظام ہے،جس میں سیلز، مارکیٹنگ، ٹیکنالوجی اور آپریشنزکے امتزاج کی ضرورت ہوتی ہے،لہذاتربیت اہم عنصر ہے۔انہوں نے حکومت کو ای کامرس اور اس کے ذیلی شعبوں کی ضرورت کے مطابق خصوصی تربیتی پروگرام اور کورسز بنانے کی تجویز بھی دی۔

مانیٹرنگ ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • کیا نظام بدل گیا ہے؟
  • کیا موٹر سائیکلز کے لیے ای ٹیگ کی ضرورت نہیں؟
  • استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
  • بھارت سے آنے والے یاتریوں سے 10 لاکھ سے زاید کرایہ وصولی کا انکشاف
  • پی پی نے بلدیاتی نظام پر بات نہ کی تو 18ویں ترمیم ختم ہوگی ‘سندھ میں صوبہ بھی بنے گا‘ایم کیو ایم
  • اجتماع عام آئین سے منحرف ظالمانہ نظام بدلنے کی تحریک کا آغاز ہے‘لیاقت بلوچ
  • ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
  • مودی سرکار کی کینیڈا اور امریکا میں مبینہ مداخلت پر نئے انکشافات
  • ای کامرس کے فروغ کیلیے ورک فورس روڈ میپ کی ضرورت ہے،ماہرین
  • بدل دو نظام: ایک قومی نظریاتی سمت