Juraat:
2025-04-25@10:36:40 GMT

نمازِ تہجد ۔۔ تشکر وعبودِیت کا مظہر

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

نمازِ تہجد ۔۔ تشکر وعبودِیت کا مظہر

مولانا طارق نعمان

٭رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دِن کے کناروں میں بھی، تاکہ تم خوش ہو جاؤ’’۔ (سورۂ طہ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نمازِ تہجد کے لیے حاضری دینا یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا میں بڑے بڑے مرتبے حاصل کر لیتا ہے۔

رات کی تنہائی میں بندہ راحت اور آرام کو چھوڑ کر سردی اور گرمی کی شدت برداشت کر کے وضو کرکے جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں حاضرہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو اپنے قرب ولطف سے مالامال فرمادیتا ہے۔ فرائض کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نمازِ تہجد ہے ۔

نمازِ تہجد کی فضیلت قرآنِ مجید کی روشنی میں

قرآن پاک میں کئی مقامات پر اس نماز کی اہمیت و فضلیت بیان ہوئی ہے ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
1۔ترجمہ:اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جو راتیں اِس طرح گزارتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے آگے (کبھی) سجدے میں ہوتے ہیں اور (کبھی)قیام میں’’۔ (سورۃ الفرقان:۶۴)

2 ۔‘‘بھلا (کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے ) جو رات کی گھڑیوں میں عبادت کرتا ہے ، کبھی سجدے میں، کبھی قیام میں، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار سے رحمت کا امید وار ہے ؟ کہوکہ:کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے ، سب برابر ہیں’’؟ (سورۃالزمر: ۹)

3 ۔‘‘اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دِن کے کناروں میں بھی، تاکہ تم خوش ہو جاؤ’’۔ (سورۂ طہ:۱۳۰)

4۔‘‘بے شک رات کے وقت اٹھنا ہی ایسا عمل ہے جو جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتا ہے اور بات بھی بہتر طریقے پر کہی جاتی ہے ’’۔ (سورۃ المزمل:۶)

5۔‘‘اے پیغمبر! تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دوتہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے ) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے )’’۔ (سورۃ المزمل:۲۰)

6 ۔‘‘اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو، جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے ، اُمید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں مقامِ محمود تک پہنچائے گا’’۔ ( بنی اسرائیل: ۷۹)

نمازِ تہجد کی فضیلت احادیثِ نبویہ کی روشنی میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامینِ مبارکہ میں بھی تہجد کی نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل اور مختلف قسم کی ترغیبات وارد ہوئی ہیں، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

1۔‘‘جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑنے لگے اور کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا، تاکہ دیکھوں (کہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں یا نہیں؟) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھ کر کہا کہ:یہ چہرہ جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔ وہاں پہنچ کر جو سب سے پہلا ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنا، وہ یہ تھا کہ لوگو! آپس میں سلام کا رواج ڈالو اور (غرباء کو) کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب سب لوگ سوتے ہوں (تہجد کی) نماز پڑھا کرو، تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے ’’۔(قیام اللیل)

2 ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والا روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات (تہجد) کی نماز ہے’’ ۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم)

3۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘جب رات کے وقت آدمی اپنی بیوی کو جگائے اور دونوں دور کعتیں پڑھیں یا ایک دو رکعت پڑھے تو وہ اللہ کا ذکر کرنے والوں اور ذکر کرنے والیوں میں سے لکھ دیئے جاتے ہیں’’۔ (سنن ابوداؤد، کتاب التطوع، باب قیام اللیل، وصححہ الالبانی فی صحیح سنن ا بی داؤد: ۱۳۰۹)

4۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘تم میں سے ہر ایک کی گدی پر جب وہ سوتا ہے تو شیطان تین گرہیں لگا دیتا ہے ، ہر گرہ پر یہ کہتا ہے کہ تیرے لیے رات بہت لمبی ہے ، پس خوب سو۔ اگر وہ بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ، پھر اگر وہ وضو بھی کر لیتا ہے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے ، پھر اگروہ نماز بھی پڑھ لیتا ہے تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ صبح اس حال میں کرتا ہے کہ وہ ہشاش بشاش اور پاکیزہ نفس ہوتا ہے ، ورنہ اس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ خبیث النفس اورسست ہوتا ہے ’’۔ (صحیح البخاری، کتاب التہجد، باب عقد الشیطان علی قافیۃ الرأس إذا لم یصل باللیل، صحیح مسلم، کتاب صلا ۃالمسافرین وقصرہا)

5 ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:‘‘جنت میں ایسے بالا خانے ہیں (جو آبگینوں کے بنے ہوئے معلوم ہوتے ہیں) ان کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یارسول اللہ! یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اچھی طرح سے بات کریں، اور (غرباء) کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزے رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوں’’۔ (ترمذی، ابن ابی شیبہ)

6 ۔حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:‘‘تم رات کے جاگنے کو لازم پکڑو، کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور رات کا قیام اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب کا ذریعہ ہے اور گناہوں کے لیے کفارہ ہے ، اور گناہوں سے روکنے اور حسد سے دور کرنے والی چیز ہے ’’۔(قیام اللیل)

7 ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ:‘‘تین قسم کے آدمیوں سے حق تعالیٰ شانہ بہت خوش ہوتے ہیں: ایک اس آدمی سے جو رات کو (تہجد کی نماز کے لیے ) کھڑا ہو، دوسرے اس قوم سے جو نماز میں صف بندی کرے ، اور تیسرے اس قوم سے جو جہاد میں صف بنائے (تاکہ کفار سے مقابلہ کرے )’’۔(قیام اللیل)

8 ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے ، جبکہ رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے ، تو وہ فرماتا ہے :کون ہے مجھ سے دعا کرنے والا، تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اسے عطا کروں؟ کون ہے مجھ سے استغفار کرنے والا، تاکہ میں اس کی مغفرت کروں، (یہ وقت نمازِ تہجد کا ہی ہوتا ہے جس وقت باری تعالیٰ یہ صدا لگاتاہے )۔

نمازِ تہجد کی نیت کا طریقہ

نمازِ تہجد کی ہو یا کوئی بھی، اس کی نیت کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری نہیں ہے ، بس دل میں یہ نیت کافی ہے کہ میں تہجد کی نماز ادا کر رہاہوں، اور الفاظ ادا کرنے ہوں تو تہجد کی نیت اس طرح کرے : ’’نویت أن أصلیی رکعتی صلاِۃ التہجدِ سنۃ النبِیِ ﷺ‘‘ یا اپنی زبان میں یوں نیت کرے کہ:‘‘میں دو رکعت تہجد کی نماز پڑھ رہا ہوں’’۔ اللہ اکبر! نیز اگر رات کو صرف نفل نماز کی نیت سے نماز پڑھے گا، تب بھی تہجد کی نماز ہوجائے گی۔

نمازِتہجد کا وقت

تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے ، بہتر یہ ہے کہ آدھی رات گزرنے کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے ، باقی عشا ء کی نماز کے بعد سے صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تہجد کی نماز پڑھنے سے تہجد کی نماز ہو جائے گی، نیز تہجد کے لیے سونا شرط نہیں ہے ، البتہ رات کے آخری پہر میں پڑھنا افضل ہے ۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمۃ اللہ علیہ ‘‘معارف القرآن’’ میں لکھتے ہیں:
لفظ تہجد ‘‘ہجود’’ سے مشتق ہے ، اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے ، اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدار ہونے کے بھی۔ اسی رات کی نماز کو اصطلاحِ شرع میں نمازِ تہجد کہا جاتا ہے ، اور عموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیر سوکر اُٹھنے کے بعد جو نمازپڑھی جائے ، وہ نمازِ تہجدہے ، لیکن تفسیرِمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت ’’ومن اللیل فتہجد بہٖ‘‘ کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نماز کے لیے سونے کو ترک کردو، اور یہ مفہوم جس طرح کچھ دیر سونے کے بعد جاگ کر نماز پڑھنے پر صادق آتا ہے ، اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیند کو مؤخر کرکے نماز پڑھنے پر بھی صادق ہے ، اس لیے نمازِ تہجد کے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں، پھر بعض روایاتِ حدیث سے بھی تہجد کے اسی عام معنی پر استدلال کیا ہے ۔ امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازِ تہجد کی جوتعریف نقل کی ہے ، وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں:‘‘حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ نمازِتہجد ہر اس نماز پر صادق ہے جو عشا ء کے بعد پڑھی جائے ، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کو کچھ نیندکے بعد پر محمول کیا جائے گا’’۔
اس کا حاصل یہ ہے کہ نمازِ تہجد کے اصل مفہوم میں ‘‘بعدالنوم’’ ہونا شرط نہیں، اور الفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں، لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا یہی رہا ہے کہ نمازِ آخر رات میں بیدار ہوکر پڑھتے تھے ، اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔

نمازِ تہجد کی رکعات

اکثر وبیشتر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ تہجد آٹھ رکعات تھیں، اسی وجہ سے فقہاء حنفیہ نے فرمایا ہے کہ تہجدمیں افضل آٹھ رکعات ہیں؛ تاہم اگر کوئی شخص محض دو یا چاررکعات تہجد ادا کرتا ہے تو یہ بھی درست ہے اور ایسا شخص تہجد پڑھنے والا شمار ہوگا۔
باقی تہجد نفل نماز ہے ، اور نفل نماز دو دو رکعت ہے ، یعنی جفت عدد میں ہی ادا کی جاتی ہے ، نفل نماز طاق عدد میں اد انہیں کی جاتی، بعض احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے ، ہاں! جس شخص کا معمول تہجد کی نماز ادا کرنے کا ہو، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ نمازِ وتر عشاء کے متصل بعد نہ پڑھے ، بلکہ تہجد کے آخر میں نمازِ وتر ادا کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا کہ نمازِ تہجد کے آخر میں وتر ادا فرماتے تھے ، اس لیے بہت سی روایات میں طاق عدد کا ذکر ملتا ہے ، در حقیقت وہ طاق عدد نمازِ تہجد کا نہیں، بلکہ تہجد مع وتر کا ہے ۔

اہتمامِ نمازِ تہجد کے لیے تدابیر

جو شخص اس سعادت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد، دیگر مشاغل میں اپنے آپ کو مصروف نہ رکھے ۔ عشاء کے بعد کوئی میٹنگ نہ رکھے ، کسی سے ملنے نہ جائے ، دیر تک مطالعہ نہ کرے ، کسی کو رات دیر گئے مدعو نہ کرے (الا یہ کہ کوئی شدید حاجت اور ضرورت ہو، یا کسی اضطراری صورت حال سے دوچار ہونا پڑے ) عام دنوں اور عام حالات میں، اپنے ان معمولات پر سختی سے عمل کرے ، ورنہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی اس نعمتِ عظمی سے محروم ہو جائے گا۔ نمازِ تہجد کے اہتمام کے لیے ضروری ہے کہ نمازِ تہجد کی اہمیت اور فضیلت کا علم اور احساس ہو۔
اہتمامِ تہجد کی ایک اور اہم تدبیر یہ بھی ہے کہ بندہ اپنی موت کو یاد کرتا رہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ :‘‘جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کر لو تو شام کا انتظار نہ کرو (نہ جانے کب موت آجائے )اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی میں اپنی موت کے لیے کچھ حاصل کر لو’’۔ (صحیح بخاری، حدیث: ۶۴۱۵)

مومن کو چاہیے کہ سونے سے پہلے سونے کے مسنون اذکار پڑھ لے ، بالخصوص آیت الکرسی پڑھ لے ، تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ ہو جائے اور جلد سوکر جلد بیدار ہو جائے ۔

اہتمامِ تہجد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رات میں زیادہ کھا کر نہ سوئے اور دوپہر کے بعد تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ ضرور کرلے ۔ یہ قیلولہ نمازِ تہجد کے لیے اُٹھنے میں نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ مندرجہ بالا تدبیروں کو اختیار کرنے سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ انسان نماز تہجد کا باقاعدگی سے اہتمام کر سکے گا۔ شب بیداری اور سحر خیزی ہمیشہ صالحین کا شعار رہا ہے ۔ علامہ اقبالؒ بطور تحدیثِ نعمت اپنی سحر خیزی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحرخیزی

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازِ تہجد پڑھنے کی توفیق عطا فرماکر مستقل اس پر عمل پیرا فرمادے ۔ (آمین یارب العالمین!)

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: نماز کے بعد تہجد کے لیے نماز پڑھنے اللہ تعالی کی نماز کے نفل نماز بیدار ہو ہے کہ وہ ہیں اور سے پہلے کرتا ہے ہو جائے جاتی ہے کرو اور میں بھی تہجد کا اور رات کہ نماز ہوتا ہے ا ہے کہ کی نیت رات کے ہے اور کہ میں

پڑھیں:

مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری

ڈاکٹر محمد حمید اللہ  دور جدید میں اسلامی قانون کے تصور جہاد پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Muslim Conduct of State میں وہ ’جائز جنگوں‘ کی 5 قسمیں ذکر کرتے ہیں:

پہلے سے جاری جنگ کا تسلسل؛

دفاعی جنگیں؛

ہمدردانہ جنگیں؛

سزا کے طور پر لڑی جانے والی جنگیں؛ اور

نظریے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں۔

ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگیں پہلی قسم میں آتی ہیں کیونکہ جب ایک دفعہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو پھر صلح حدیبیہ تک ان کے درمیان کوئی امن کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق دفاعی جنگیں ہیں اس صورت میں لڑی جاتی ہیں جب یا تو دشمن نے مسلمانوں کے علاقے پر باقاعدہ حملہ کیا ہو یا اس نے ابھی حملہ تو نہ کیا ہو لیکن اس کا رویہ ’ناقابل برداشت‘ ہوچکا ہو۔  گویا ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق ’پیش بندی کا اقدام‘ (Pre-emptive Strike) دفاع میں شامل ہے اور غزوۂ بنی مصطلق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حنین کو اس کی مثال میں ذکر کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان اہل علم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر جنگ مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ، ڈاکٹر حمید اللہ کی ذکر کردہ پہلی 2 قسمیں اکثر اہل علم کے نزدیک ایک ہی قسم یعنی ’دفاع‘ ہے ۔

ریاست کا دفاع یا امت کا دفاع؟

ہمدردانہ جنگوں سے ڈاکٹر حمید اللہ  کی مراد وہ جنگیں ہیں جو مسلمانوں کے علاقے سے باہر مقیم مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بہت سے اہل علم نے ان جنگوں کو بھی دفاع میں شامل سمجھا ہے۔ مثال کے طور پر شام سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ’آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی‘ میں یہ موقف اختیار کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ایسی جنگ کو ’مدافعانہ جہاد‘ کی ایک قسم کے طور پر ذکر کیا ہے۔ دفاع کے تصور پر اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دفاع سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد ’ریاست کا دفاع‘  ہے، جبکہ دیگر اہلِ علم کی مراد ’امت کا دفاع‘ ہے۔ معاصر دنیا میں مسلمان اصحابِ علم کے لیے سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ریاست اور امت کے تصورات کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟

فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا، یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا۔ تاہم معاصر بین الاقوامی نظام چونکہ ’قومی ریاست‘ کے تصور پر قائم ہے، اس لیے امت کا تصور اس نظام کی بنیاد سے ہی متصادم ہے۔ آج جب امت 50 سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے، تو مظلوم مسلمانوں کے دفاع کا دینی فریضہ کیسے ادا کیا جائے؟

مظلوم کی مدد کےلیے جنگ

مظلوم کی مدد کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے جائیں، اس کا انحصار حالات پر ہے۔ بعض اوقات محض اخلاقی مدد (مثلاً حملے کو ناجائز قرار دینا، حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو مظلوم قرار دینا، دفاع کا فریضہ ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا وغیرہ) بھی کافی ہوتا ہے؛ اور بعض اوقات اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی مدد (جیسے بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا، حملہ آوروں پر سیاسی دباؤ ڈالنا، اسے بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنا وغیرہ ) بھی ضروری ہوتا ہے اور اس کے بغیر محض اخلاقی مدد سے کام نہیں چلتا۔ تاہم بعض حالات میں سفارتی اور سیاسی مدد بھی کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی مدد (جیسے مظلوموں تک ادویات کی رسائی، مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوشش کرنا، مزاحمت کرنے والوں کی مالی امداد، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرنا وغیرہ) بھی لازم ہوجاتی ہے؛ اور بعض صورتوں میں باقاعدہ جنگ میں شرکت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ مدد کی حیثیت فرض کفایہ کی ہو جاتی ہے اور  مدد کی مختلف صورتوں کو ضرورت کے مطابق اختیار کیاجائے گا۔

رہنما اصول اس سلسلے میں یہ ہے کہ کسی طور ظالموں کو واپس دھکیلنا اور مظلوموں کو بچانا ہے  اور  اس کے لیے جو اقدام ضروری ہو، وہ اٹھایاجائے گا۔ اگر حملے کا جواب بغیر فوجی مدد کے ممکن نہ ہو، تو محض اخلاقی یا سفارتی بلکہ مالی مدد سے بھی اعانت کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کے الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ مظلوموں کی مدد کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنا بعض اوقات واجب ہوجاتا ہے اور یہ واجب صرف فوجی اعانت سے ہی ادا ہوتا ہے:

وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورۃ النساء ، آیت75)

(تمھیں ہوا کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑرہے جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جانب سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے۔)

’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘

بعض ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں انسانوں کے ایک بڑے گروہ کا قتل عام ہورہا ہو،  یا ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہوں، تو ان کی مدد کے لیے کوئی دوسری ریاست مسلح کاروائی کرسکتی ہے۔ اسے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طو رپر 1998ء میں نیٹو نے سربیا پر جو بمباری کی اس کے لیے ایک جواز یہی ذکر کیا جاتا رہا۔ تاہم اکثر ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کرے، یا اس کی اجازت سے کوئی ریاست یا تنظیم کرے، تو وہ یقیناً جائز ہوگی مگر کوئی ریاست یا تنظیم اپنی جانب سے اس قسم کی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا  ’انسانی ہمدردی‘  کو ہی بنیاد نہیں بنایا، بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی، جیسے نیٹو کے رکن ممالک نے ایک جواز یہ پیش کیا تھا (جو قانوناً غلط تھا) کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے یہ کارروائی کررہے ہیں)۔

مسلمان ریاستوں کے درمیان اجتماعی دفاعی معاہدہ

ایک حل اس مسئلے کا یہ ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور ’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی ’نکاراگوا بنام امریکا‘ مقدمے کے فیصلے میں اس طریق کار کو جائز ٹھہرایا ہے۔ اس اجتماعی حق دفاع کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں قرب و بعد کی بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کوئی سے دو یا زائد ممالک، جو مشترکہ مفاد رکھتے ہوں، آپس میں دفاعی معاہدہ کرکے اجتماعی حق دفاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحر شمالی اوقیانوس حائل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس طریق کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

امت مسلمہ کے اجتماعی حق دفاع کے متعلق یہ بات اہم ہے کہ اس کی بنیاد کسی دفاعی معاہدے پر نہیں، بلکہ امت کے تصور پر ہے اور یہ امت پر اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے۔ اس لیے اگر دو اسلامی ممالک میں دفاعی معاہدہ نہ بھی ہو، تو ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تاہم موجودہ بین الاقوامی نظام اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مسلمان ممالک آپس میں دفاعی معاہدات بھی کرلیں، تو وہ بہت سی پیچیدگیوں سے بچیں گے۔

تاہم ’اجتماعی حق دفاع‘ کے طریق کار کا فائدہ صرف ’ریاستیں‘  ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ریاستوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ریاستوں میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں۔ نیز بعض علاقے ایسے ہیں جن پر طویل مدت سے کسی دوسری ریاست نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقے اس کی مثال ہیں۔ ان علاقوں میں آج جب مسلمان ظلم کا شکار ہیں،  تو ان کے دفاع کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟ کیا ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کے رکن 57 مسلمان ممالک صرف فلسطین کے دفاع کے لیے ایسا معاہدہ نہیں کرسکتے؟ واضح رہے کہ یہ تنظیم وجود میں ہی تب آئی تھی جب القدس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مسجد اقصیٰ کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس تنظیم کے منشور میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کا ہیڈکوراٹر عارضی طور پر جدہ میں ہوگا اور القدس کی آزادی کے بعد وہیں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • کوئی بھی نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا، نصرت بھروچا ٹرولنگ پر پھٹ پڑیں
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • مسلمان ہوں نماز بھی پڑھتی ہوں، بھارتی اداکارہ نشرت بھروچا کا ناقدین کو جواب
  • خوابوں کی تعبیر
  • شکر ہے شیر افضل مروت سے جان چھوٹ گئی، عمران خان کا اظہار تشکر
  • مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • عالمی بینک کے 10 سالہ کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کی منظوری پر وزیر خزانہ کا اظہار تشکر
  • 25 اپریل کو آسمان پر ’مسکراتے چہرے‘ کا حیران کُن نظارہ، کس وقت دیکھا جاسکے گا؟