زندہ دفن کی جانے والی نومولود کی زندگی کیسے بچائی گئی؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں ہنگامی سروس ریسکیو 1122 کے حکام مقامی قبرستان سے نومولود کو قبر سے زندگی نکالنے میں کامیاب ہو گئے جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ کسی نے اس کی پیدائش کے فوراً بعد اسے دفن کیا اور فرار ہوگیا۔
ریسیکو کے مطابق واقعہ چند دن پہلے نوشہرہ سٹی کے ایک قبرستان میں پیش آیا تھا جس کی اطلاع والد کی قبر پر دعا کے لیے جانے والے ایک نوجوان نے دی تھی۔
پیدائش کے فوراً بعد بچی کو دفنایا گیا تھا
نوشہرہ میں ریسکیو کے اسٹیشن آفیسر مالک عمر اپنی ٹیم کے ساتھ جائے وقوع پر پہنچنے والے پہلے لوگوں میں سے ہیں، انہوں نے بچی کو ریسکیو کرکے اسپتال پہنچایا۔ مالک عمر نے وی نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ انہیں ان کے ذاتی موبائل نمبر پر ان کے ایک جاننے والے نے قبرستان میں ایک چھوٹی تازہ قبر کے بارے میں بتایا جس سے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ وہ اس اطلاع کے فوراً بعد ریسیکو ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔
‘قبرستان میں قبروں کے درمیان مٹی کی ڈھیری تھی جس کے نیچے سے آواز آرہی تھی اور مٹی ہٹانے پر بچی نکل آئی۔’
انہوں نے بتایا کہ بچی کو پیدائش کے فوراً بعد بغیر کسی کپڑے کے دفنا دیا گیا تھا۔ تاہم بچی کی سانسیں باقی تھی، اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
‘بچی کی حالت سے لگ رہا تھا پیدائش کے فورا بعد ہی دفنا دیا گیا ہو۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بچی سردی کی وجہ سے بیمار تھی، اسے کئی روز تک اسپتال میں رکھا گیا، طبی امداد دی گئی اور وہ صحت یاب ہو گئی۔
بچی کا خرچہ خود برداشت کیا
ریسکیو آفیسر مالک عمر نے بتایا کہ بچی کو قبر سے نکالنے کے بعد اسپتال منتقل کیا گیا۔ والدین کی غیر موجودگی کے سبب علاج کا مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے انہوں نے بچی کو اپنا نام دیا اور علاج شروع کروا دیا۔
‘جتنے دن بچی اسپتال میں رہی ،میں اس کے ساتھ ہی رہا۔ علاج سے لے کر کپڑے وغیرہ سمیت دیگر تمام اخراجات خود اپنی جیب سے برداشت کیے۔’
انہوں نے بتایا کہ بچی بہت پیاری تھی۔ اس کے والدین کے نہ ہونے پر وہ قانونی تقاضے پورے کرکے اسے گود لینا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ہی تمام قانونی تقاضے بھی پورے کیے تھے۔
والدین کے نہ ہونے پر بچی کو بے اولاد جوڑے کے حوالے کر دیا گیا
نومولود کو دفن کیے جانے کی ابتدائی رپورٹ تھانہ نوشہرہ کلاں پولیس اسٹیشن نے درج کی ہے جس کے مطابق ریسکیو ٹیم نے بچی کو قبرستان سے، مٹی میں سے نکال کر قاضی میڈیکل کمپیلکس منتقل کیا جبکہ اس کے والدین نامعلوم ہیں۔ ریسکیو آفیسر نے بتایا کہ والدین کے نامعلوم ہونے کی وجہ سے بچی کی حوالگی کا کیس عدالت میں لے جایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ بچی کی حوالگی کے لیے ایک سرکاری افسر بھی عدالت پہنچ گیا جو بچی کو گود لینا چاہتا تھا جبکہ وہ خود بھی گود لے کر بچی کی پرورش کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بچی کو گود لینے کا حق ریسکیو آفیسر کا بنتا ہے تاہم اب یہ حق دوسرے سرکاری افسر کو دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اولاد سے محروم ہے اور حافظ قرآن بھی ہے۔
چنانچہ عدالتی حکم پر بچی کو نئے والدین کے حوالے کر دیا گیا۔ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک والدین کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خیبر پختونخوا نوشہرہ نومولود بچی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبر پختونخوا نومولود بچی پیدائش کے فورا والدین کے دیا گیا بچی کی بچی کو ا فیسر
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)