حزب اللہ لبنان کے پارلیمانی اتحاد نے بیروت میں جاری ہونیوالے امریکی ایلچی کے بیانات کو لبنانی خودمختاری میں واضح مداخلت اور تمام سفارتی آداب کے منافی قرار دیا ہے اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے ساتھ وابستہ پارلیمانی اتحاد الوفاء للمقاومۃ کے سربراہ محمد رعد نے مشرق وسطی کے لئے امریکی نائب ایلچی مورگن اورٹاگس کے بیانات کو نفرت، بغض اور غیر ذمہ داری کا پلندہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں محمد رعد نے تاکید کی کہ مورگن اورٹاگس کے بیانات لبنانی قومی اتفاق رائے پر مبنی ایک قومی تحریک کے خلاف جارحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیان کے ذریعے امریکی ایلچی نے لبنانی خود مختاری میں واضح طور پر مداخلت کرتے ہوئے تمام سفارتی آداب کو پائمال کیا ہے۔

الوفاء للمقاومۃ کے سربراہ نے کہا کہ غزہ و لبنان کے خلاف اسرائیلی جنگ نے جو بھیانک اور نفرت انگیز مناظر پیدا کئے ہیں وہ ان تمام لوگوں کے لئے کافی ہیں جو "دہشتگردی کے اسپانسر" کے بارے رائے قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مزاحمت میں اصرار پر مبنی اپنے عوام کے عزم بالجزم پر یقین رکھتے ہیں جو ایک ایسا آپشن ہے کہ جو فوج، عوام اور مزاحمت کی شکل میں ملک کا اصلی حامی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی ایلچی مورگن اورٹاگس نے لبنانی صدر جوزف عون کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا تھا کہ حزب اللہ لبنان، اسرائیل کے خلاف جنگ میں ​​ہار چکی ہے۔ اسی طرح سے اپنے مداخلت آمیز بیان میں اورٹاگس کا مزید کہنا تھا کہ حزب اللہ لبنان کو آئندہ حکومت میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بعد ازاں لبنانی صدارتی دفتر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ مورگن اورٹاگس کی جانب سے جاری ہونے والا بیان صرف اس کی اپنی ذاتی رائے پر مشتمل تھا جس کا لبنانی صدر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں!

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مورگن اورٹاگس کے بیانات حزب اللہ

پڑھیں:

صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار

پاکستان کے مسلسل بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں صدر آصف علی زرداری ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے جمہوری استحکام، صوبائی خودمختاری اور قومی مفاہمت میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی 2024 میں ایوان صدر میں واپسی صرف ایک سیاسی تقرری نہیں، بلکہ اس عزم کی تجدید ہے جو وہ ہمیشہ جمہوریت، آئین اور وفاقی نظام کے لیے رکھتے آئے ہیں۔

صدر زرداری کا سیاسی سفر سہولت پر مبنی نہیں بلکہ قربانی اور استقامت سے بھرا ہوا ہے، انہوں نے گیارہ سال سے زائد سیاسی انتقام پر مبنی بغیر کسی سزا کے قید کاٹی لیکن کبھی تلخی کو اپنی پہچان نہیں بننے دیا، وہ ہمیشہ بردباری، مفاہمت اور آئینی اداروں کے احترام کے حامی رہے۔

2007 میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد جب پورا ملک سوگوار تھا تو آصف زرداری نے نہ صرف پارٹی بلکہ پورے پاکستان کو متحد رکھا، ان کے تاریخی الفاظ ’’پاکستان کھپے‘‘ نے جذبات کے بجائے وطن کی سالمیت کو ترجیح دی۔ 

یہ وہی وژن تھا جسے بینظیر بھٹو نے مفاہمت کی سیاست کے ذریعے فروغ دیا، جس کا عملی مظاہرہ چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاقِ جمہوریت) کی صورت میں 2006 میں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا۔

جب صدر زرداری 2008 میں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے اسی وژن کو عملی جامہ پہنایا، ان کی قیادت میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم محض ایک قانونی اصلاح نہیں تھی بلکہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کی بحالی تھی۔ 

اس ترمیم کے ذریعے انہوں نے صدارت کے اختیارات رضاکارانہ طور پر پارلیمان کو واپس دیے اور آمریت کے دور کی آئینی بگاڑ کو درست کیا۔

اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خودمختار کیا، نہ صرف قانون سازی کے حوالے سے بلکہ ترقیاتی اور مالیاتی منصوبہ بندی کے لحاظ سے بھی پہلی بار، صوبے اپنے وسائل اور ضروریات کے مطابق فیصلہ سازی کے قابل ہوئے، یہ صرف آئینی تقاضا نہیں تھا بلکہ حقیقی وفاقیت کی طرف عملی قدم تھا۔

صدر زرداری کا وژن صرف سیاسی نہیں معاشی میدان میں بھی انقلابی ثابت ہوا، ان کی قیادت میں زرعی شعبے کو خصوصی ترجیح دی گئی۔ 

کسان دوست پالیسیوں، بروقت بیجوں اور کھاد کی فراہمی، منصفانہ نرخوں، اور زرعی قرضوں کی فراہمی نے ملک بھر میں زرعی پیداوار میں تاریخی اضافہ کیا۔ 

ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں صرف ایک سال کے اندر پاکستان گندم درآمد کرنے والے ملک سے گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا، یہ صرف ایک معیشتی کامیابی نہیں بلکہ کاشتکاروں کے اعتماد کی بحالی اور قومی غذائی سلامتی کی ضمانت تھی۔

2010 اور 2011 کے تباہ کن سیلابوں کے دوران صدر زرداری کی قیادت، نگرانی اور قومی رابطے کی صلاحیت نے ثابت کیا کہ وہ آزمائش میں بھی قوم کے ساتھ کھڑے رہنے والے لیڈر ہیں۔ 

ان سیلابوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، فصلیں اور بنیادی ڈھانچے تباہ ہوئے لیکن زرداری صاحب نے ریلیف کیمپوں، طبی امداد اور بحالی کے عمل کو ذاتی طور پر مانیٹر کیا۔ 

انہوں نے قومی اداروں، صوبائی حکومتوں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر ریلیف کے کاموں کو مؤثر اور منظم رکھا۔

اسی دوران انہوں نے معاشرے کے محروم طبقے کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا منصوبہ تھا۔ 

یہ پروگرام خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے تھا، جن میں سے لاکھوں کو پہلی بار شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹ اور مالی خودمختاری حاصل ہوئی، اس پروگرام نے صرف غربت کم نہیں کی بلکہ خواتین کی حیثیت کو بدلا اور پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔

صدر زرداری کا طرزِ سیاست ہمیشہ بردباری، مکالمے اور جمہوری تسلسل پر مبنی رہا ہے، ان کی قیادت ٹکراؤ پر نہیں بلکہ مشترکہ قومی مفاد پر استوار ہے۔ 

انہوں نے شہید بینظیر بھٹو کی مفاہمتی سیاست کو جاری رکھا اور مخالفین کو دشمن کے بجائے مکالمہ کرنے والا فریق سمجھا۔

ان کے پہلے دورِ صدارت میں ہی پاکستان نے اپنی تاریخ کا پہلا پُرامن جمہوری انتقالِ اقتدار دیکھا، جب ایک منتخب حکومت نے اپنی مدت مکمل کر کے اگلی منتخب حکومت کو اقتدار سونپا جو صرف جمہوریت پر یقین اور آئینی عملداری کی بدولت ممکن ہوا۔

آج 2025 میں جب وہ دوبارہ ایوانِ صدر میں موجود ہیں تو ان کا وژن وہی ہے۔ وفاق کو مضبوط کرنا، صوبوں کو بااختیار بنانا، غریب اور محروم طبقات کی فلاح اور آئینی نظام کا استحکام۔ 

انہوں نے حالیہ دنوں میں بھی سیاسی قوتوں کو مکالمے کی دعوت دی ہے، تاکہ ملک کو محاذ آرائی سے بچا کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

ان کی مسکراہٹ جو ہر کٹھن وقت میں برقرار رہتی ہے! صرف ذاتی مزاج کی عکاس نہیں بلکہ سیاسی بصیرت، برداشت اور یقین کی علامت ہے۔ 

وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو اقتدار کو ذاتی اختیار کے لیے نہیں، بلکہ آئینی اداروں، پارلیمان اور عوام کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آج جب ہم 26 جولائی کو صدر آصف علی زرداری کی سالگرہ مناتے ہیں تو ہم صرف ایک سیاستدان کو نہیں بلکہ ایک دوراندیش رہنما کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو وفاقی ہم آہنگی، جمہوری اقدار اور عوامی خدمت کے استعارے بن چکے ہیں۔

سالگرہ مبارک ہو، جنابِ صدر! آپ کا وژن پاکستان کو آئینی، بااختیار اور خوشحال بنانے کی راہ پر قائم رکھے۔

تحریر: شازیہ مری، مرکزی اطلاعات سیکریٹری پی پی پی-پی، ممبر قومی اسمبلی

متعلقہ مضامین

  • صدر آصف علی زرداری اتحاد، خودمختاری اور جمہوری استحکام کے علمبردار
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • امریکی ایلچی نے جنگ بندی معاہدہ ناکام ہونے کا ذمہ دارحماس کو قرار دیدیا
  • لبنانی عسکریت پسند چالیس سال بعد فرانسیسی جیل سے رہا
  • گنڈا پور مولا جٹ کی طرح بیانات دیتے ہیں کے پی میں تو آپریشن چل رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر خیبرپختونخوا
  • بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
  • اوباما نے 2016 امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق جعلی انٹیلیجنس تیار کی، ٹولسی گیبارڈ کا دعویٰ
  • پریس کانفرنس کرنے والوں کو9مئی مقدمات میں معاف کرنا انصاف کے دوہرے معیار کی واضح مثال ہے
  • ٹرمپ کے پاک بھارت سیز فائر کے مسلسل بیانات، راہول گاندھی مودی پر برس پڑے
  • کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ