شوگر ملوں کے ہاتھوں گنے کے کسان کا استحصال جاری
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
شوگر ملوں کے ہاتھوں گنے کے کسان کا استحصال جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 9 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: شوگرملز نے گنے کے کسانوں کا استحصال شروع کردیا، سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے شوگر ملزمالکان نے ملک میں چینی کے سرپلس اسٹاک کے باجود شارٹیج پیدا کردی ہے۔
ادھر آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے حکومت نے گنے کی امدادی قیمت کا بھی اعلان نہیں کیا، جس کی وجہ سے ابتداء میں گنے کی قیمت 350 روپے فی من تھی، جو بڑھ کر صرف 400 سے 450 روپے تک پہنچی ہے۔
پنجاب کی شوگرمل کے حکام نے بتایا کہ سندھ میں گنے کی کم پیداوار کی وجہ سے سندھ میں گنے کی قیمت زیادہ ہے، کیوں کہ طلب کو پورا کرنے کیلیے سندھ کی شوگرملز پنجاب سے خریداری کر رہی ہیں، تاہم شوگرملز کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر نے کاشتکاروں کو پریشان کر رکھا ہے، جس سے مڈل مین فائدہ اٹھا رہا ہے۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک کسان فاروق عزیز نے کہا کہ ہمارے لیے بہتر قیمت حاصل کرنا بہت مشکل ہے، ہم کتنی تکلیفوں سے گزر کر فصل تیار کرتے ہیں، لیکن مل مالکان ہمارا استحصال کرتے ہیں۔
دوسری طرف ایسے کسان جو طویل عرصے تک اپنی فصل کو محفوظ رکھتے ہیں، مل مالکان کے رویے سے وہ بھی نالاں ہیں، جو کسان اپنی فصل کو طویل عرصے تک محفوظ نہیں رکھ سکتے، وہ اپنی فصلیں مڈل مین کے حوالے کردیتے ہیں اور مڈل مین کی جانب سے استحصال کا شکار بنتے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سیزن میں چینی کی پیداوار 6.
ایک مڈل مین راجا طارق نے کہا کہ ہم ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، ناکوں پر رشوت دیتے ہیں، فصلوں کی نقل و حمل کے دوران ہر طرح کا رسک لیتے ہیں، لہذا، ہمارا منافع جائز ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی
پنجاب حکومت نے گندم کے معاملے پر کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرادی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران اپوزیشن رکن رانا شہباز نے ایوان میں کسانوں کے گھر چھاپوں کا معاملہ اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے کسانوں کی گندم نہیں خریدی جس سے کسان کا نقصان ہوا، پھر حکومت نے کہا اپنی گندم اسٹور کر لیں اور اب جب کسان نے گندم جمع کرلی تو کسانوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
اس پر اسپیکر اسمبلی ملک احمد خان نے معاملے کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک کسان نے کسی جگہ گندم رکھی ہے وہاں ظاہر ہے کئی کسانوں نے رکھی ہوگی، اب اسی جگہ کو ذخیرہ اندوزی کہا جائے تو یہ مسئلہ ہے۔
اسپیکر اسمبلی نے سوال کیا کہ ایسی صورت حال میں کسان کہاں جائیں؟ انہوں نے ہدایت کی کہ پنجاب حکومت کسانوں کے مسائل کو حل کرے اور صوبائی وزیر ذیشان رفیق معاملے کو دیکھیں کیونکہ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ کسان سے بائیس سو میں گندم خریدی گئی اور آج قیمت چار ہزار پر چلی گئی ہے، اس کو حکومت کو دیکھنا چاہیے اور گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہیں پڑنے چاہیں۔
اس پر پارلیمانی سیکرٹری خالد محمود رانجھا نے کسانوں کے گھروں پر گندم جمع کرنے کے معاملے پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرائی۔