Express News:
2025-09-18@11:31:32 GMT

سی ایس ایس اسپیشل کا نتیجہ اور مذہبی اقلیتیں 

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سی ایس ایس خصوصی امتحان 2023 کے تحریری امتحان کے نتائج جاری کردیے ہیں، جن کے مطابق سی ایس ایس (خصوصی امتحان) 2023 کے تحریری امتحان میں 519 امیدوار کام یاب قرار پائے ہیں۔

21 ہزار 947 امیدواروں نے تحریری امتحان کی لیے رجوع کیا، تاہم 15ہزار 245 امیدواروں نے تحریری امتحان میں شرکت کی جب کہ تحریری امتحان میں کام یابی کا تناسب 3.

40 فی صد رہا۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے مطابق حتمی کام یابی کے لیے امیدواروں کا سی ایس ایس امتحان کے پانچوں حصوں یعنی  ایم سی کیو، تحریری، میڈیکل، نفسیاتی اور زبانی ٹیسٹ میں حاضر ہوکر تمام امتحانات پاس کرنا لازم ہے۔ تین چار سال پہلے تک یہ صرف چار مرحلوں پر مشتمل تھا، اب  اس میں سب سے پہلے پانچویں ایم سی کیو کے ٹیسٹ کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سی ایس ایس (سینٹرل سپیریئر سروسز)  ایک اہم مسابقتی امتحان ہے، جس کا انعقاد ہر سال فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے کیا جاتا ہے، سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو 17 گریڈ کے آفیسر کے طور پر سرکاری ملازمت میں بھرتی کیا جاتا ہے، امیدوار سی ایس ایس امتحان میں کام یابی کے بعد سول سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ ان کی جن محکموں میں تعیناتی کی جاتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ 
2۔ پولیس سروسز آف پاکستان 
3۔ کسٹم اینڈ ایکسائز 
4۔  پوسٹل گروپ 
5۔ انکم ٹیکس گروپ 
6۔ انفارمیشن گروپ 
7۔ فارن سروسز آف پاکستان 
8۔ کامرس اینڈ ٹریڈ 
9۔ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمینٹس 
10۔ آفس مینجمنٹ گروپ 
11۔ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس 
12۔ ریلوے (کمرشل اینڈ ٹرانسپورٹیشن گروپ)

سی ایس ایس اسپیشل کے تحریری امتحان میں کام یاب ہونے والے جن امیدواروں کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں اور یقین ہے کہ ان کا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہے، ان کے نام درج ذیل ہیں:

1عروسہ اعظم، 2 انیل کمار، 3 جے کمار، 4 پوجا، 5 ذیشان، 6 اولویر پرویز، 7، سنیل کمار، 8روپا متی، 9 یشوب یوسف کامران سرویا، 10ثمرون افراہیم، 11سنیل یونس،  12 افزا زاہد۔ 519  کی فہرست میں سے یہ صرف 12ہیں۔ شاید ان ناموں میں چند  کا اضافہ بھی ہوجائے۔ کسی کے پاس اور پاس ہونے والے مزید اقلیتی امیدواروں کے  کنفرم نام ہوں تو  ضرور بتائے۔ 12 سے  15بھی ہوجائیں تو بھی یہ تعداد  519 کی فہرست میں بہت کم ہے، جب کہ یہ امتحان منعقد ہی صوبوں اور اقلیتوں کی  کوٹے پر ہر سال بچ جانے والی  اسامیوں کو پر کرنے کے لیے ہی منعقد کیا گیا تھا۔

یہ اقلیتی نشستیں محتاط اندازے کے مطابق 104کے قریب تھیں۔ اقلیتوں کا یہ کوٹا 2010 میں شہباز بھٹی (مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر، جنھیں 2011 میں انتہاپسندوں نے قتل کردیا) کی کوشش سے مختص کیا گیا تھا، لیکن میری تحقیق کے مطابق  اقلیتی امیدواروں کے پاس ہونے کی تعداد اس سے پہلے  ایک  بار ہی تین  ہوئی ہے۔ ہندو کمیونٹی کی کارکردگی اس سال بہت بہتر رہی، کیوںکہ اس سے پہلے 77 سال میں ہندؤوں کی تعداد بہت  ہی کم رہی ہے۔ کوٹے سے پہلے تو یہ نہ ہونے کے برابر تھی، لیکِن  برصغیر میں تعلیم کا استعارہ سمجھی جانے والی کمیونٹی  (مسیحی) جس کے پاس لگ بھگ ملک بھر میں  تین ہزار اسکولوں /تعلیمی اداروں کا نظام ہے، اس کے سماجی، اور خصوصاً مذہبی ورکروں/راہ نماؤں کے لیے مسیحی امیدواروں کی اتنی کم تعداد میں کام یابی لمحہ فکریہ ہے۔

خدارا! کچھ سوچیں۔ تحریک شناخت کے رضاکاروں کے لیے ڈھیروں مبارک باد اور خراج تحسین،  جنہوں نے  2020 سے اس امتحان کی آگاہی مہم چلائی ہوئی تھی۔ تحریک شناخت اپنے اغراض ومقاصد کے ساتھ  معاشرتی بیگانگی کا مرض دور اور دیگر اقدامات کی نشان دہی کرنے کے ساتھ اعلٰی ملازمتوں کے لیے  نوجوانوں کو راغب  کرنے پر پچھلی تین دہائیوں سے زور دے رہی ہے، لیکن 2020 میں اس امتحان کے منعقد ہونے کے اعلان  کے بعد جب تحریک شناخت نے اس امتحان کی آگاہی مہم کو منظم انداز میں شروع کیا تو اکثر مسیحی  زعماء کہا کرتے تھے کہ  لگتا ہے، اس آگاہی مہم کا زیادہ فائدہ ہندو بھائی اٹھائیں گے۔

نتائج یہی بتا رہے ہیں، جو  بہت خوشی کی بات ہے۔ ملک بھر کے کم وسائل والے  اور پسے ہوئے طبقات کے لیے ان نتجائج میں ایک اور امید افزا بات  یہ ہے کہ 6 ہندو امیدواروں میں سے پانچ کا تعلق شیڈول کاسٹ ہندو  کمیونٹی سے ہے۔ یقیناً یہ تحریک شناخت کے رضاکاروں کے لیے خوشی کی خبر ہے، کیوںکہ  1926 سے 2023 تک کے  ریگولر امتحان کے نتائج میں صرف  31 مسیحی ہی اس امتحان کو پاس کرکے  پاکستان کی بیوروکریسی میں شامل ہوئے ہیں۔ 

تحریک شناخت کے رضاکار کوئی سکہ بند سماجی کارکن نہیں اس لیے ان کی آگاہی مہم کے یہ اثرات بھی کافی ہیں۔ گوکہ تحریک شناخت کی آگاہی مہم  کے بعد مسیحیوں کے مذہبی وسماجی راہ نماؤں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا، لیکن  نتائج  بتارہے ہیں کہ یہ ایک الگ استعدادکار  والا شعبہ ہے، جب کہ  مذہبی راہ نماہ اور ان کے زیرانتظام تعلیمی ادارے چلانے والے مسیحی بے چارے  اس استعداد کار کے حامل نہیں ہیں۔

اسی وجہ سے  یہ نتائج  بہت ہی مایوس کن ہیں، جب کہ مسیحیوں کے پاس تین ہزار اسکولوں کا نیٹ ورک  لاکھوں سیاسی، سماجی اور مذہبی   کارکن جو راہ نما کہلانے پر بضد ہیں اور ان کے طفیلی انھیں کہتے بھی ہیں۔ شان دار کیریئر کے حامل افسران کی وراثت پھر بھی  104 اسامیوں میں سے صرف  6 مسیحیوں کے  حصے میں آئی ہے۔ گوکہ اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر تمام اقلیتیں بھی صرف 12 اسامیاں ہی حاصل کرپائی ہیں۔ اگر  مسیحی اپنی تعلیمی اداروں کی اس طاقت کو منظم اور  طویل المیعاد منصوبہ بندی سے  استعمال کریں، تو نتائج یقیناً بہت اچھے نکل سکتے ہیں، لیکن یہ اور اس طرح کے دیگر  کام  بڑی عرق ریزی اور منصوبہ بندی   سے کرنے ہوتے ہیں، جس کے لیے اہلیت کے ساتھ  نیک نیتی اور خلوص کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

خدا کرے کہ مسیحیوں کے حقیقی محسنوں (تحریک شناخت کے رضاکاروں) جیسے  دیگر لوگ بھی میدان میں آئیں۔ ملک میں اس طرح کی ایک آدھ مثالیں ہیں بھی لیکن وہ راویتی ہیں، جب کہ یہ جنگی بنیادوں پر کرنے والا کام ہے، جسے  روایتی طریقوں سے ہٹ کر کرنا پڑے گا، جس کے لیے  بے لوث  جذبے سے  اس سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ 2017 کی ن لیگی حکومت کے بنائے ہوئے سرکاری کاغذات کے مطابق  یہ 33 لاکھ 7 سو 88 اور 2017 کے سے پہلے کی مردم شماریوں کے اعدادوشمار کے مطابق یہ 5687996 مسیحی  سارے کہ سارے ہی نہ تو اپنا روز گار محرومیوں کی سوداگری، جمہوری غلامی یا شعبدے بازی سے منسلک کرسکتے ہیں، نہ ہجرت کرسکتے ہیں۔ نہ ہی ہر وقت معاشرتی بیگانگی کے مرض میں مبتلا ہوکر فرار کی ذہنی کیفیت  میں زندگی گزار سکتے ہیں۔

 خدا کرے کہ اس فکر کا اثر ان شخصیات پر بھی ہو، جن کے زیرانتظام ہمارے تعلیمی ادارے اور گرجے کا نظام ہے، اور وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان اداروں کے دروازے بھی ان نوجوانوں کے لیے کھول دیں جن کے پاس ایسے کاموں کو کرنے کی اہلیت ہے۔ تاہم دنیا بھر کی تاریخ گواہ ہے کہ  کسی بھی غیرروایتی، نئی سوچ کو  مذہبی اداروں کی طرف سے  ہمشیہ رکاوٹوں کا  سامنا رہا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ پاکستانی مسیحی سماج کی ساخت ایسی ہے کہ اسے گرجے کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے۔  ایسا کیوں ہے؟؟ یہ پورا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جسے مختصر ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے مسیحیوں کے پاس جو کچھ ہے وہ کسی نہ کسی طرح گرجے اور اس کے ذیلی اداروں کی وجہ سے ہے۔

اور جو بہت کچھ ہوسکتا ہے، تھا اور نہیں ہے۔۔۔اس کی وجہ بھی  گرجا اور اس کے ذیلی ادارے ہی ہیں، جس کی ایک وجہ برصغیر میں مسیحیت اور ان اداروں کے عظیم بانیوں  کے کم اہلیت کے خودغرض جانشین ہیں، جن کے قبضے میں تاریخ اور معاشرے کے جبر اور معروضی حالات کی بدولت یہ ادارے آگئے ہیں۔

ہندو جاتی اور شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی بیوروکریسی یا ایسے دیگر شعبوں میں میں  کم  تعداد  ہونے کی وجہ بالترتیب  پہلی قسم کے بیوپار/ دوکان داری میں زیادہ دل چسپی جب کہ دوسری قسم  کے گروہ کی  روایتی تاریخی پس ماندگی ہے، جب کہ مسیحیوں کے کیس میں عام مسیحی کی اس تاریخی پس ماندگی کے دیگر عوامل سے جنم لیتی معاشرتی بیگانگی کے ساتھ ان کے سماجی سیاسی اور مذہبی راہ نماؤں کی شعوری پس ماندگی ایک بڑی وجہ ہے۔

 تھوڑا سا غیرروایتی سوچنے کی ضرورت ہے۔ پھر جب ایک مسیحی  سیاسی راہ نماہ شہباز بھٹی نے یہ راستہ 2010 سے پہلے کے مقابلے میں بہت آسان  بھی کر دیا ہے، تو قابل احترام ممسر (مسیحی مذہبی، سیاسی، سماجی راہنماؤں) خواتین و حضرات آپ تھوڑی سی محنت کرلیں تو اس کام سے نیک نامی اور دولتِ بھی بہت  کما سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے چندے بھی بہت مل سکتے ہیں۔ بس بقول اقبال طرزکہن پر اَڑنے اور آئین نو سے ڈرنے کی عادتیں ترک کرنی پڑیں گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک شناخت کے کی ا گاہی مہم مسیحیوں کے سی ایس ایس امتحان کے کے مطابق سکتے ہیں کام یابی میں کام کے ساتھ سے پہلے کے پاس کے لیے

پڑھیں:

وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء

متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک دفاعی معاہدہ بہترین سفارتکاری کا نتیجہ اور تاریخی کامیابی ہے۔ خواجہ رمیض حسن
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ، ارشد ندیم کا بڑا امتحان آج
  • لاہوربورڈ ، انٹرمیڈیٹ سالانہ امتحان 2025 پارٹ ٹو کے نتائج کا اعلان،کامیابی کا تناسب 60.86 فیصد رہا
  • ٹنڈو الہ یار : ایمان دستر خون کی ٹیم کی جانب سے اسپیشل بچوں کے اسکول میں برگر کی فراہمی کا اہتمام کیاگیا
  • بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • ابوظبی کے سر بنی یاس جزیرے پر 1400 سال پرانی صلیب کی حیرت انگیز دریافت
  • کراچی بورڈ کا شفاف نتیجہ میرٹ کی فتح، دباؤ کی شکست
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟علی امین گنڈاپور
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟