یہ ایک جھاری نما پودا ہے۔ بہت سے لوگ اِس پودے کے نام سے یہ تاثر لے لیتے ہیں کہ اس کا ذائقہ لیموں کی طرح کھٹا ہو گا۔ لیکن ایسا بلکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ایک بے ذائقہ پودا ہے۔
اِس کو لیمن گراس اِس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ اِس کی خوشبو لیمو کی طرح ہوتی ہے۔ بے ذائقہ پودا ہونے کے باوجود اِس کے بہت سے فوائد اور استعمالات ہیں۔
یہ بہت سے کھانوں کا ایک اہم جز ہے۔ لیمن گراس کو مختلف کھانوں میں لیموں کی خوشبو حاصل کرنے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ اِس کو مختلف ادویات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس کا عرق مختلف صابن اور کریموں میں لیموں کی خوشبو حاصل کرنے کے لیے ڈالا جاتا ہے۔ لیمن گراس کا قہوہ دنیا بھر میں بہت مقبول ہے۔ یہ کھانسی اور بخار کی شدت کو کم کرتا ہے۔ لیمن گراس کا جھاری نما پودا دکھنے میں بہت خوبصورت لگتا ہے۔ اِس لیے اِس کو سجاوٹی پودے کے طور پر بھی گھروں اور باغوں کی ذینت بنایا جاتا ہے۔
لیمن گراس کے پودے کو بیج اور اِس کی شاخ دونوں کی مدد سے اگایا جا سکتا ہے۔ اِس کو بیج کی مدد سے اگا تھوڑا مشکل کام ہے کیوں کہ اگر بیج پُرانا ہو تو اس سے پودے نہیں اُگتے ۔
لیمن گراس کو اِس کی شاخ کی مدد سے اگانا بہت آسان ہے۔ اگر اس کی ایک شاخ اکھارکر کسی دوسری جگہ لگا دی جائے تو وہ ایک نیا پودا بن جاتا ہے۔لیمن گراس کی ہر شاخ کے ساتھ جڑیں ضرور ہوتی ہے۔ آپ ایک شاخ کو جڑوں سمیت اکھاڑ لیں تاکہ اِس سے ایک نیا پودا اگایا جا سکے۔ اگر شاخ کو جھاڑی سے علیحدہ کرتے ہوئے شاخ سے جڑیں ٹوٹ جائیں تو کوئی مسلے کی بات نہیں ہے۔
لیمن گراس lemon grass کو گملے میں لگانے کے لیے لیمن گراس کی شاخ لگا لیں۔ اگر شاخ کے ساتھ جڑیں ہیں تو تمام جڑیں اور اُن سے اوپر تک کا کچھ حصہ مٹی کے اندر ہونا چاہیے۔ اختیاطی تدابیر
لیمن گراس کے پودے پر عموما کوئی بھی کیڑا حملہ آور نہیں ہوتا۔ اگر لیمن گراس کو بہت ذیادہ پانی دے دیا جائے اور گملے میں ہر وقت کیچڑ ہی بنا رہے تو پودے کی جڑیں گل جائیں گی اور آپ کا پودا مرجھا جائے گا۔
لیمن گراس گرمیوں کا پودا ہے اور گرمیوں میں یہ خوب پھلتا پھولتا ہے۔ موسم سرما میں اس کی نشونما رک جاتی ہے۔ لیکن آپ اس کو گملے میں ہی لگا رہنے دیں۔ موسم گرما آنے پر یہ دوبارہ ہرا بھرا ہو جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ایشیا کپ میں ہاتھ نہ ملانے کا تنازعہ، اس حوالے سے کرکٹ قوانین کیا ہیں؟
بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ کے بعد روایتی مصافحہ نہ ہونے پر تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
پاکستان ٹیم کے کھلاڑی بھارتی ڈریسنگ روم کے باہر کھڑے رہے جبکہ بھارتی بلے باز سوریا کمار یادو اور شیوَم دوبے سیدھا اندر چلے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔ یہ صورتحال شائقین اور ماہرین کرکٹ کے لیے حیران کن رہی۔
یہ بھی پڑھیے: اسپورٹس مین شپ نظر انداز: بھارتی کھلاڑیوں کا پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز
کرکٹ کے قوانین مرتب کرنے والے ادارے ایم سی سی کے مطابق احترام، کرکٹ کی روح کا بنیادی حصہ ہے۔ نتیجہ کچھ بھی ہو، مخالف ٹیم کو مبارکباد دینا، اپنی ٹیم کی کامیابیوں کا لطف اٹھانا، امپائرز اور مخالفین کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے۔
ایم سی سی مزید کہتا ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جو قیادت، دوستی اور ٹیم ورک کو فروغ دیتا ہے اور مختلف قومیتوں، ثقافتوں اور مذاہب کے کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میچ کے بعد مصافحہ محض رسم نہیں بلکہ ’کرکٹ کی روح‘ کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر کوئی ٹیم اس روایت کو نظر انداز کرے تو یہ عمل قوانین کی تکنیکی خلاف ورزی نہ سہی مگر ’کرکٹ کی روح‘ کے برعکس ضرور تصور کیا جاتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں