بدین ،حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ ضلع بدین کے انتخابات میں کامیاب امیدواروں کا گروپ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
بدین ،حیدرآباد یونین آف جرنلسٹ ضلع بدین کے انتخابات میں کامیاب امیدواروں کا گروپ.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
انقلاب، جمہور اور انتخابات امام خمینی کی نظر میں
اسلام ٹائمز: امام خمینی رضوان اللہ علیہ امور سلطنت میں عوام کی شرکت کو واجب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ عوام کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے سختی کیساتھ حکم دیتے تھے۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اپنے وطن کو جمہوری اسلامی سمجھتے تھے اور اس انقلاب کو جو کہ اصلاً ایک اسلامی انقلاب تھا، اسکو اسلامی عوامی انقلاب سمجھتے تھے۔ حضرت امام خمینی عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونیوالی پارلیمنٹ کو ایک مقدس ادارہ سمجھتے تھے اور اسکے سامنے جھکنے کو اسلام کے سامنے جھکنا قرار دیتے تھے۔ حضرت امام خمینی جمہور کے ذریعے منتخب کی گئی پارلیمنٹ کو سلطنت کے تمام امور میں سرفہرست قرار دیتے تھے۔ تحریر: محمد اشفاق شاکر
گذشتہ کچھ عرصے سے چند علماء کے کچھ افکار و نظریات کی وجہ سے ملک میں اہل تشیع کے مابین ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا جمہوریت، انتخابات اور پارلیمنٹ اسلام اور ولایت کے مطابق ہے یا یہ کوئی ضدِ انقلاب ہے۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ کچھ علماء نے جمہوریت کو ولایت اور نظام ولایت کی ضد قرار دیا اور اپنے پیروکاروں کو جمہوری سسٹم کا حصہ بننے اور انتخابات میں حصہ لینے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا، جس کی وجہ سے اس طبقہ کے درمیان جو خود کو انقلابی اور ولائی طبقہ قرار دیتا ہے، شدید قسم کی بحث چھڑ گئی، جو کہ اب آہستہ آہستہ نفرت میں بدلتی چلی جا رہی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ آج جب ہم انقلاب کے بانی، امامِ راحل، رہبر کبیر حضرت امام خمینی (رح) کی 36 ویں برسی منا رہے ہیں تو اس موضوع یعنی انقلاب، جمہور اور انتخابات کو خود رہبر کبیر حضرت امام خمینی کے فرامین کی روشنی میں دیکھیں، تاکہ ایک انقلابی، فکری اور ولائی طبقہ کے درمیان تیزی سے پھیلتی ہوئی نفرت کو روکنے میں جس حد تک ممکن ہو، اپنا کردار ادا کرسکیں۔
امام راحل کے فرامین نقل کرنے سے پہلے اپنے قارئین کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد ایک یا دو ماہ کے اندر اندر حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک ریفرنڈم کروایا، جس کے ذریعے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ہم اپنے ملک میں اسلامی جمہوری نظام چاہتے ہیں اور پھر امام نے عوام کی اسی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام کیا اور یہ جمہوری نظام اتنا پائیدار اور پختہ ہے کہ آٹھ سالہ دفاعی جنگ میں بھی کبھی ایرانی انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ البتہ بین الاقوامی سطح پر ایران مخالف قوتیں ان انتخابات کو انتخابات تسلیم نہیں کرتیں اور نہ ہی ایران کی جمہوریت کو جمہوریت تسلیم کرتی ہیں، حالانکہ وہی قوتیں عربوں کی شاہی حکومتوں اور آمریت کو بھی دل و جان سے آئینی اور قانونی حکومتیں تسلیم کرتی ہیں اور ان کی بقا کے لیے سب کچھ کرنے کو بھی تیار رہتی ہیں۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ انقلاب عوام یعنی جمہور اور انتخابات کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ امام خمینی اس انقلاب کو ایک مکمل اسلامی انقلاب کے ساتھ عوامی انقلاب بھی قرار دیتے تھے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اس انقلاب کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ انقلاب حقیقت میں سب سے بڑا اور بہترین انقلاب تھا، ہمہ گیر ہونے کے لحاظ سے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب سیاسی و اجتماعی انقلاب ہونے سے پہلے ایک معنوی اور روحانی انقلاب ہے۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ ہمارے عوامی انقلاب کا دارومدار عوام پر ہے، لہذا عوام کو اپنے انقلاب پر مرتب ہونے والے اثرات کا شکوہ نہیں کرنا چاہیئے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ انقلاب اور نظام کی بقاء اور پائیداری کے لیے جمہور یعنی عوام کی شرکت اور عوام کی رائے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: "ساری قوم کو سیاسی معاملات میں دخیل ہونا چاہیئے، آپ مسلمان عوام کی میدان عمل میں موجودگی ہے، جو تاریخی ستم گروں اور حیلہ بازوں کی سازشوں کو ناکارہ بنا رہی ہے، جو چیز ہم سب پر لازم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو میدان میں حاضر رکھنے کی فکر میں رہیں۔
انقلاب کے نتیجے میں نافذ ہونے والے نظام کی حفاظت اور بقاء کے متعلق ارشاد فرمایا کہ "اس جمہوری اسلامی کی حفاظت سب سے بڑے فرائض میں سے ہے۔ انتخابات کی اہمیت اور عوام کو ان انتخابات میں شرکت سے متعلق حضرت امام خمینی نے بہت واضح اور بہت سخت قسم کے ارشادات فرمائے ہیں اور بعض فرامین سے تو ایسے لگتا ہے، جیسے حضرت امام خمینی عوام کی انتخابات میں شرکت کو واجب سمجھتے تھے، جیسے کہ ارشاد فرمایا کہ "آپ سب حضرات و خواتین اور ہم سب اور ہر مکلف کو جس طرح نماز پڑھنا چاہیئے، اسی طرح اپنی تقدیر معین کرنے میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ آج مسئولیت کا بوجھ ملت کے کاندھوں پر ہے، اگر ملت کنارہ کش ہو جائے، مومن اور باعمل اشخاص گھروں میں بیٹھ جائیں اور جن افراد نے اس ملک کے لیے منصوبہ بنا رکھا ہے، وہ دائیں بائیں سے پارلیمنٹ میں گھس آئیں تو اس کی ذمہ دار ملت ہے۔ اگر لوگ اسلام، استقلال، آزادی اور شرق و غرب کے زیر اثر نہیں رہنا چاہتے تو سب انتخاب میں شرکت کریں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں کہ "اس ملت شریف کو میری وصیت یہ ہے کہ تمام انتخابات میں شرکت کریں، چاہے صدارتی انتخابات ہوں یا پارلیمانی یا شورائی رہبری یا رہبر کے تعین کے لیے خبرگان کے انتخابات ہوں، ہر قسم کے انتخابات میں شرکت کریں۔ ملت اپنے ووٹ کے ذریعے صدر کو منتخب کرتی ہے، جمہوری اسلامی کو ووٹ دیتی ہے اور پارلیمنٹ میں موجود اپنے ووٹ کے ذریعے حکومت کو معین کرتی ہے، گویا تمام امور میں ملت کا ہاتھ ہے۔ عوام کے ذریعے، عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ اور اس کی اہمیت کے متعلق امام راحل حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ "پارلیمنٹ ملت کا حقیقی گھر ہے، پارلیمنٹ کے سامنے جھکنا اسلام کے سامنے جھکنا ہے، پارلیمنٹ تمام امور میں سر فہرست ہے۔"
نقل کیے گئے فرامین پر غور کرنے سے جو نتائج اخذ ہوتے ہیں، ان کے مطابق امام خمینی رضوان اللہ علیہ امور سلطنت میں عوام کی شرکت کو واجب کے قریب تر سمجھتے تھے۔ وہ عوام کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سختی کے ساتھ حکم دیتے تھے۔ امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد اپنے وطن کو جمہوری اسلامی سمجھتے تھے اور اس انقلاب کو جو کہ اصلاً ایک اسلامی انقلاب تھا، اس کو اسلامی عوامی انقلاب سمجھتے تھے۔ حضرت امام خمینی عوام کے ووٹوں کے ذریعے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو ایک مقدس ادارہ سمجھتے تھے اور اس کے سامنے جھکنے کو اسلام کے سامنے جھکنا قرار دیتے تھے۔ حضرت امام خمینی جمہور کے ذریعے منتخب کی گئی پارلیمنٹ کو سلطنت کے تمام امور میں سر فہرست قرار دیتے تھے،
بلکہ جمہوری اسلامی ایران میں ولی فقیہ کا انتخاب بھی بالواسطہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے، بالواسطہ اس لیے کہ پہلے عوام اپنے براہِ راست ووٹوں سے مجلس خبرگان کے نمائندگان کا انتخاب کرتی ہے اور پھر وہی مجلس خبرگان ضرورت پڑنے پر رہبر یا ولی فقیہہ کا انتخاب کرتی ہے باقاعدہ انتخاب کے ذریعے۔
اس سلسلے میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈر یعنی ولی فقیہ کا انتخاب اس کی واضح مثال ہے۔ اس لیے میری رائے میں کسی بھی اسلامی ملک میں جمہوری نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اس نظام کو ایران کے اسلامی و ولائی نظام کی ضد قرار دیتے ہوئے ایران کے نظام کو ولایت اور جمہوری نظام کی ضد قرار دینے کا مطلب یہ ہے آپ دانستہ یا نادانستہ طور پر ان اسلام دشمن قوتوں کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں، جو جمہوری اسلامی ایران کے مثالی جمہوری نظام کو غیر جمہوری یا شخصی نظام اور آمریت کی ہی ایک قسم قرار دیتے ہیں، حالانکہ ایران کے جمہوری نظام جیسا مثالی جمہوری نظام پوری دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں ہے۔