Express News:
2025-06-09@15:56:18 GMT

دو سال بعد سویابین کا پہلا کنسائنمنٹ کراچی میں لنگر انداز

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

کراچی:

دو سال کے وقفے کے بعد سویا بین کا پہلا کنسائنمنٹ ایف اے پی ٹرمینل پر لنگر انداز ہو گیا۔ یہ کنسائنمنٹ 65 ہزار میٹرک ٹن سویا بین پر مشتمل ہے، جو امریکا سے پہنچا ہے۔

ترجمان یو ایس سویابین ایکسپورٹ کونسل نے بتایا کہ اکتوبر 2022 میں جی ایم امپورٹ بند ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں پولٹری کی نمو 40 فیصد کم ہو گئی تھی اور چکن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ اس درآمدی کنسائنمنٹ سے نہ صرف پولٹری کی صنعت کو فائدہ ہوگا بلکہ کوکنگ آئل انڈسٹری اور ماہی گیری کے شعبے میں بھی سویا بین کے فوائد حاصل ہوں گے۔

اس موقع پر یو ایس سویابین ایکسپورٹ کونسل کے ریجنل ڈائریکٹر کیون روئپکے نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان باہمی تجارت میں 1 ارب ڈالر کا خسارہ ہے، جسے سویابین کی تجارت سے نصف کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا پام آئل درآمد کنندہ ملک ہے اور سویا بین کے ذریعے خوردنی تیل کے درآمدی بل میں کمی کی جا سکتی ہے۔

امریکی قونصل جنرل اسکاٹ اربوم نے سویابین کے پہلے کنسائنمنٹ کی آمد پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر 2022 کے بعد یہ پہلا کنسائنمنٹ ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یو ایس مشن اور پاکستانی ساتھیوں نے اس اہم قدم کے لیے بھرپور کوشش کی، اور اس اقدام سے پاکستان اور امریکا دونوں ممالک میں خوشحالی آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہر سال امریکا سے 300 ملین ڈالر سے زائد مالیت کا سویابین درآمد کرتا ہے اور یہ سویابین کپاس کے بعد پاکستان کو امریکی برآمدات میں دوسری بڑی برآمدات ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سویا بین پر پابندی کے نتیجے میں پاکستان میں مرغی کے گوشت اور انڈوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا تھا، جو کہ عوام کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس کے علاوہ، اسکاٹ اربوم نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ کی وسیع گنجائش موجود ہے، جو دونوں ممالک کی معیشتوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کہا کہ پاکستان سویا بین

پڑھیں:

کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔

بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔

طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔

ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا میں پاکستانی تاجر کو منشیات اسمگلنگ پر 16 سال قید کی سزا
  • کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
  • امریکا کا دورہ مکمل، پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • عیدالاضحیٰ کا پہلا دن مذہبی جوش و جذبے سے منایا گیا ، دوسرے دن بھی قربانی جاری
  • امریکا کا دورہ مکمل: پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • امریکا کا دورہ مکمل: پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا
  • عیدالاضحیٰ کا پہلا دن مذہبی جوش و جذبے سے منایا گیا
  • امریکا بزورِ قوت بھارت کو مذاکرات کے لیے قائل کر سکتا ہے، بلاول بھٹو
  • عید الاضحیٰ پر بابر اعظم کا دلکش انداز، تصاویر نے مداحوں کے دل موہ لیے
  • آئی پی پیز کو ٹیکس سے استثنیٰ، عوام پر ٹیکس کا بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم