شرکا ہم رہبر کے فدائی ہیں کا ترانہ گاتے، ایرانی پرچم لہرا تے، امام خمینی، رہبر معظم انقلاب، دفاع مقدس کے شہداء اور شہدائے پولیس کی تصویریں اٹھائے جوش و خروش کیساتھ لاکھوں کی تعداد میں ریلی میں شریک تھے۔ اس تقریب میں بچوں کی نمایاں اور غیر معمولی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شہید حاج قاسم سلیمانی میزائل کا ماڈل عوام کی توجہ کا مرکز رہا۔ اسلام ٹائمز۔ یوم اللہ کے عنوان سے امام حسین اسکوائر تہران سےریلی کا آغاز ہوا اور لاکھوں شرکا آزادی اسکوائر  تک مارچ میں شریک ہوئے۔ ایرانی سال کے بہمن ماہ کی 22 تاریخ (11 فروری) کو انقلاب اسلامی کیا کامیابی کی سالگرہ پر جشن کے حوالے سے یوم اللہ کے عنوان سے تہران میں منعقد ہونیوالے مارچ کا آغاز صبح 10 بجے آزادی اسکوائر میں تلاوت قرآن اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ترانے کیساتھ ہوا۔ تقریب میں فوجی اور سول حکام کے علاوہ غیر ملکی مہمان بھی شریک تھے۔ اس موقع پر برج آزادی سے غبارے چھوڑے گئے، مسلح افواج کے چھاتہ بردار دستوں، آرمی بینڈز اور طلبہ کی طرف سے قومی نغمے بھی خصوصی پروگراموں میں شامل تھے۔ ملک بھر میں 7200 سے زیادہ رپورٹرز اور فوٹوگرافرز نے تقریب کی کوریج کی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ جیسے المیادین، الجزیرہ، اور رشیا ٹوڈے نے بھی تقاریب کو رپورٹ کیا۔ شدید ردی کے باوجود صبح سویرے سے ہی لوگوں کا بڑا ہجوم آزادی اسکوائر کی طرف مارچ میں شریک ہوا، مارچ کے راستے میں ثقافتی پروگراموں کے لیے اسٹال لگائے گئے تھے۔ مارچ کے شرکا نے ایرانی پرچم اور مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، اور لاوڈ اسپیکروں پر مرگ بر امریکہ، مردہ باد اسرائیل اور ہم شہیدوں کی قوم ہیں، جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ریلی کے شرکا ہم رہبر کے فدائی ہیں کا ترانہ گاتے، ایرانی پرچم لہرا تے، امام خمینی، رہبر معظم انقلاب، دفاع مقدس کے شہداء اور شہدائے پولیس کی تصویریں اٹھائے جوش و خروش کیساتھ لاکھوں کی تعداد میں ریلی میں شریک تھے۔ اس تقریب میں بچوں کی نمایاں اور غیر معمولی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شہید حاج قاسم سلیمانی میزائل کا ماڈل عوام کی توجہ کا مرکز رہا۔ ایران طاقتور ہے اور دھمکیوں کی پروا نہیں کرتے، سردار حاجی زادہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے آج صبح 22 بہمن مارچ میں شرکت کی۔ ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ میں اتنی ہمت نہیں ہے، ایران طاقتور ہے دھمکی آمیز الفاظ کا اثر نہیں لیتے۔ ٹرمپ کی تقریر 22 بہمن  کے مارچ میں لوگوں کی زیادہ شرکت میں اضافہ کا باعث بنی، میجر جنرل موسوی
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے 22 بہمن مارچ کے موقع پر کہا کہ ٹرمپ کے دعووں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جشنِ انقلاب میں شرکت کرنے میں مدد دی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ 22 بہمن کے مارچ میں زیادہ سنجیدگی سے شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام لوگ مارچ میں ٹرمپ کے منہ پر مکے مارنے کے لیے اپنی بند مٹھیوں کے ساتھ شریک ہیں۔

صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی ریلی موجودگی:
 تقریب شروع ہونے کے چند منٹ بعد صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے موقع پر مارچ میں شرکت کی۔ وزیر دفاع کی عوام میں موجودگی
امیر ناصر زادہ، وزیر دفاع اور مسلح افواج کی عسکری لیڈرشپ نے  انقلاب اسلامی کے جشن کے موقع پر ہونیوالے مارچ میں شرکت کی۔

محسن رضائی کی مارچ میں شرکت
 محسن رضائی، قومی اقتصادی رابطہ کاری کی سپریم کونسل کے سیکرٹری نے  22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی۔ سابق صدر حسن روحانی کی ریلی میں شرکت
11ویں اور 12ویں حکومتوں کے صدر حسن روحانی نے بھی آج کے مارچ میں شرکت کی۔ عدلیہ کے سربراہ کی عوام میں موجودگی
 عدلیہ کے سربراہ محسنی ایجی نے بھی 22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی اور لوگوں کیساتھ گفتگو کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف، وزیر داخلہ اتابک، وزیر خزانہ  ہمتی،  جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ اسلامی، اسٹریٹجک امور کے لئے نائب صدر ظریف،  ماحولیاتی تنظیم کے سربراہ انصاری، سردار رادان، رہبر انقلاب اسلامی کے معاون اور مشیر شمخانی،  کونسل برائے اقوام و ادیان کے سربراہ علوی،حکومت کی انفارمیشن کونسل کے سربراہ حضرتی سمیت متعدد سرکاری اور قومی شخصیات نے ریلی میں شرکت کی۔

دفاعی صنعت کی کامیابیوں کی نمائش:
وزارت دفاع اور مسلح افواج نے 22 بہمن  کی پریڈ میں وزارت کی دفاعی کامیابیوں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ بکتر بند گاڑی طوفان -4، 8 میٹر گشتی کشتی (گالف)، 11 میٹر گشتی کشتی (رِب)؛ خرمشہر-4 میزائل، صفیر امید سیٹلائٹ کیریئر، حج قاسم میزائل، اور سکس بیرل لانچر فتح 360 میزائل لانچر ایرو اسپیس انڈسٹری کے شعبے کی کامیابیوں میں شامل ہیں جن کی نمائش کی گئی ہے۔

تہران کی سڑکوں پر اسرائیلی تابوت: تہران کے عوام نے تابوت اٹھا رکھے تھے جن پر یروشلم پر قابض حکومت کا جعلی پرچم اور صیہونی رہنماؤں کے نشانات لگے تھے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مارچ میں شرکت کی انقلاب اسلامی کے مارچ میں مسلح افواج کے سربراہ میں شریک ریلی میں

پڑھیں:

رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر

اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔

ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔

اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔

اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔

ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ

نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔

اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔

’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔

’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔ 

اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔

غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔

ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔

رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:

نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم

ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم

ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن

یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم

’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔

’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔

آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • نتن یاہو کے ساتھ اسرائیل میں اچھا برتاؤ نہیں ہو رہا وہاں مداخلت کرونگا، ٹرمپ
  • مصر کے عظیم الشان عجائب خانے نے دنیا کیلئے اپنے دروازے کھول دیے
  • غزہ معاہدہ: اسحاق ڈار اسلامی وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کیلئے آج استنبول جائینگے
  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ
  • جماعتِ اسلامی کے ’بد ل دو نظام’اجتماعِ عام میں بلوچستان سے لوگ شرکت کرینگے: مولانا ہدایت الرحمٰن
  • غزہ کی جنگ بندی اور انسانی بحران پر استنبول میں اعلیٰ سطح اجلاس، مسلم وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
  • امانت و دیانت، عوامی خدمت اور شہر کی تعمیر و ترقی جماعت اسلامی کا وژن ہے، منعم ظفر