آئین و قانون کا تقاضا ہے جوڈیشل کمیشن اجلاس مؤخر کیا جائے، بیرسٹر علی ظفر
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ آئین و قانون کا تقاضا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس مؤخر کیا جائے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ کے ججز کی سکیورٹی کا فیصلہ نہ ہو جائے ، آئین و قانون کا تقاضا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ مؤخر کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا تو ہائی کورٹ کا جج کون ہوگا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ میں یہ سارے نکات اٹھانے جا رہا ہوں ۔ ہم نے میدان نہیں چھوڑنا، آہنی آواز اٹھانی ہے۔ میں جوڈیشل کمیشن اجلاس میں شرکت کروں گا۔ بائیکاٹ کر دیں گے تو انصاف نہیں دلا سکیں گے ۔
یہ خبر بھی پڑھیں: جوڈیشل کمیشن کے ممبر اور پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کا چیف جسٹس کو خط، اہم درخواست کر دی
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بہت سی بار حمایت کر رہی ہیں، بہت سی مخالفت، ہم مخالفت کے ساتھ ہیں اور آواز اٹھاتے رہیں گے۔ سنیارٹی کا فیصلہ کر لیں، پھر کر لیں جو 26 ویں ترمیم کہتی ہے ۔ آپ کسی اور عدالت سے جج لے آتے ہیں ۔شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں، ادارے قائم رہتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ججز پیرنٹ کورٹ میں جائیں تو ان کی سنیارٹی ہوگی۔ اس سب کا فیصلہ تو عدالت نے ہی کرنا ہے۔ وکلا میں بھی تقسیم ہے لیکن ہماری تحریک بڑھتی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بیرسٹر علی ظفر جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ بار کا بھارتی سفارتکاروں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار نے بھارتی سفارتکاروں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کردیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے ساتھ 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے پانی کی تقسیم سے متعلق ہے۔
اس کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کے ساتھ دیگر سفارتی اور سرحدی تعلقات کو بھی سخت کرنے کے متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بھارتی فیصلوں پر سخت رد عمل جاری کیا گیا اور اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیہ میں بھارتی سفارتکاروں کو پاکستان سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بار کی جانب سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ بھارتی سفارتکاروں کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کا کہا جائے اور قومی وقار کے تحفظ کیلئے سخت جواب ناگزیر ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ پہلگام واقعہ فالس فلیگ آپریشن کی کلاسیک مثال ہے۔