سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک: پاکستان سمیت دنیا بھر میں سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے۔
ہر سال 11 فروری کو عالمی سطح پر سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے، اس دن سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی حصے داری کا عالمی سطح پر جائزہ لیا جاتا ہے اور اس میدان مزید خواتین کو راغب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ وہی دن ہے جسے ادارہ اقوام متحدہ نے خواتین کے حقوق اور سائنسی میدان میں ان کی مکمل رسائی اور شراکت کو یقینی بنانے اور جنسی برابری اور نیز خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کی غرض اپنی عمومی مجلس (جنرل اسمبلی) میں قرارداد اے آر ای ایس 70/212 منظور کی جس کی رو سے 11 فروری کو سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کا بین الاقوامی دن قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان اڑان بھرنے کیلئے تیار، پالیسیوں کا تسلسل ناگزیر ہے: احسن اقبال
اس دن سائنس کے شعبے سے منسلک عورتوں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے اور ان کے بارے میں آگہی پھیلائی جاتی ہے، خواتین دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں مگر سائنسی میدان میں ابھی بھی خواتین کی تعداد کم ہے اسی لیے اقوام متحدہ نے ہر سال 11 فروری کو انٹرنیشنل ڈے آف ویمن اینڈ گرلز ان سائنس منانے کا فیصلہ کیا تا کہ خواتین اور لڑکیاں سائنس کے میدان میں ترقی کرسکیں۔
انسٹیٹیوٹ آف سٹیٹکس 2015 کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں37 فیصد خواتین ریسرچرز کا تعلق میڈیکل سائنس سے ہے، 33.
نواز شریف نے آج مسلم لیگ ن لاہور کا اجلاس بلا لیا
ریسرچ کے مطابق 11 فیصد خواتین کا شعبہ زرعی سائنس ہے جبکہ 39.9 فیصد خواتین سماجی اور انسانی علوم سے وابستہ ہیں، یہ امر قابل ستائش ہے کہ پاکستان کی کل خواتین سائنسدانوں کی 25.6 فیصد تعداد نیچرل سائنس سے منسلک ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق خواتین اور بھی دلچسپی لیں تو اس شرح کو مردوں کے برابر لایا جا سکتا ہے اور ان کے مطابق 2030 میں یہ فرق ختم ہو جائے گا۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کا فیصد خواتین کے مطابق
پڑھیں:
ایتھوپیا میں فاقہ کشی بدترین مرحلے میں داخل، عالمی ادارے بے بس
ایتھوپیا میں اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے لیے امدادی وسائل کی قلت کے نتیجے میں غذائی کمی کا شکار ساڑھے 6 لاکھ خواتین اور بچوں کو ضروری غذائیت و علاج کی فراہمی بند ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان ایتھوپیا سے کیا سیکھ سکتا ہے؟
ملک میں ادارے کے ڈائریکٹر زلاٹن میلیسک کا کہنا ہے کہ اس کے پاس باقی ماندہ وسائل سے ان لوگوں کو رواں ماہ کے آخر تک ہی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ہنگامی بنیاد پر مدد نہ آئی تو ملک میں مجموعی طور پر 36 لاکھ لوگ ڈبلیو ایف پی کی جانب سے مہیا کردہ خوراک اور غذائیت سے محروم ہو جائیں گے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ ان میں جنگ اور موسمی شدت کے باعث بے گھر ہونے والے 30 لاکھ لوگ بھی شامل ہیں۔
40 لاکھ خواتین اور چھوٹے بچے علاج کے منتظرایتھوپیا میں 40 لاکھ سے زیادہ حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین اور چھوٹے بچوں کو غذائی قلت کا علاج درکار ہے۔
ملک میں بہت سی جگہوں پر بچوں میں بڑھوتری کے مسائل 15 فیصد کی ہنگامی حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔
مزید پڑھیے: ایتھوپیا سے مکہ مکرمہ تک دنیا کی پہلی “کافی شاپ” کی حیرت انگیز کہانی
ڈبلیو ایف پی نے رواں سال 20 لاکھ خواتین اور بچوں کو ضروری غذائی مدد پہنچانے کی منصوبہ بندی کی ہے لیکن اسے گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف سے بھی کم مقدار میں امدادی وسائل موصول ہوئے ہیں۔
زلاٹن میلیسک نے کہا ہے کہ ادارے کے پاس مقوی غذا کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں اسی لیے جب تک مدد نہیں پہنچتی اس وقت تک یہ پروگرام بند کرنا پڑے گا۔
ڈبلیو ایف پی نے رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غذائیت فراہم کی ہے۔ ان میں شدید غذائی قلت کا شکار 7 لاکھ 40 ہزار بچے اور حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔
وسائل کی قلت کے باعث ادارے کی جانب سے لوگوں کو امدادی خوراک کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں 8 لاکھ لوگوں کو فراہم کی جانے والی خوراک کی مقدار کم ہو کر 60 فیصد پر آ گئی ہے جبکہ بے گھر اور غذائی قلت کا سامنا کرنے والوں کی مدد میں 20 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔
شمالی علاقے امہارا میں مسلح گروہوں کے مابین لڑائی کی اطلاعات ہیں جہاں لوٹ مار اور تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں ادارے کے عملے کو لاحق تحفظ کے مسائل کی وجہ سے ضروری امداد کی فراہمی میں خلل آیا ہے۔
22 کروڑ ڈالر کی ضرورتاطلاعات کے مطابق اورومیا میں بھی لڑائی جاری ہے جبکہ ٹیگرے میں تناؤ دوبارہ بڑھ رہا ہے جہاں سنہ 2020 سے سنہ 2022 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں تقریباً 5 لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: دنیا میں کتنی خواتین جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار، المناک حقائق
ڈبلیو ایف پی امدادی وسائل کی کمی اور سلامتی کے مسائل کے باوجود ہر ماہ اسکول کے 7 لاکھ 70 ہزار بچوں کو کھانا فراہم کر رہا ہے۔ ان میں 70 ہزار پناہ گزین بچے بھی شامل ہیں۔
ادارے نے خشک سالی سے متواتر متاثر ہونے والے علاقے اورومیا میں لوگوں کے روزگار کو تحفظ دینے کے اقدامات بھی کیے ہیں۔
ادارے کو ملک میں 72 لاکھ لوگوں کے لیے ستمبر تک اپنی امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی غرض سے 22 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ ایتھوپیا ایتھوپیا قحط ایتھوپیا میں فاقہ کشی ڈبلیو ایف پی