بھارتی وزیراعظم کی فرانس آمد پر احتجاجی مظاہرہ؛ مودی دہشت گرد کے نعرے بلند
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پیرس آمد پر کشمیری کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور نام نہاد جمہوریت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا۔
فرانس کی فضا آزادی کشمیر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ پیرس کی سڑکوں پر کشمیریوں نے مودی دہشت گرد، دہشت گرد کے نعرے لگائے۔
احتجاجی مظاہرے کی قیادت ڈیموکریٹک فورم فرانس کے صدر آصف جرال کررہے تھے۔ مظاہرین نے ہاتھوں پاکستانی جھنڈے اور بھارت مخالف کتبے اٹھا رکھے تھے۔
حریت رہنما عبدالحمید لون نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ہے۔ قابض بھارتی فوج کشمیریوں پر مسلسل ظلم ڈھا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کر رہی ہیں اور پُرامن جدوجہد کو روکنے کے لیے بھارت طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
لبنانی عسکریت پسند چالیس سال بعد فرانسیسی جیل سے رہا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق، چھ گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلہ لینمزان جیل سے صبح تقریباً 3 بج کر 40 منٹ پر روانہ ہوا۔ گاڑیوں کی روشنی جل رہی تھی لیکن 74 سالہ سفید داڑھی والے قیدی کی جھلک دیکھنا ممکن نہ ہو سکا۔
عبداللہ کو 1984 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 1987 میں امریکی ملٹری اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارت کار یعقوب برسیمنٹوف کے پیرس میں قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پیرس کی اپیل کورٹ نے ’’25 جولائی سے مؤثر‘‘ رہائی کا حکم جاری کیا، اور شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ فرانس چھوڑ دیں گے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
عبداللہ 1999 سے رہائی کے اہل تھے، لیکن ہر بار ان کی درخواست مسترد کی جاتی رہی کیونکہ امریکہ، جو اس کیس میں فریق ہے، مسلسل ان کی رہائی کی مخالفت کرتا رہا۔
(جاری ہے)
فرانس میں عمر قید پانے والے اکثر قیدی 30 سال سے کم مدت میں رہا ہو جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق رہائی کے بعد، عبداللہ کو تاربیس ایئرپورٹ منتقل کیا جائے گا جہاں سے ایک پولیس طیارہ انہیں روسی ایئرپورٹ (پیرس) لے جائے گا۔ وہاں سے وہ بیروت روانہ ہوں گے۔
عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے جمعرات کو جیل میں ملاقات کی۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''وہ اپنی رہائی پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسے خطے میں لوٹ رہے ہیں، جہاں لبنانی اور فلسطینی عوام انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔
‘‘اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے گزشتہ ہفتے عدالت کے فیصلے کے بعد ایک رکن پارلیمان کے ہمراہ عبداللہ سے جیل میں ملاقات بھی کی۔
جارج ابراہیم عبداللہ کون ہیں؟عبداللہ، جو اب تحلیل شدہ اسرائیل مخالف مارکسی گروپ 'لبنانی انقلابی مسلح دھڑے‘ (ایف اے آر ایل) کے بانی ہیں۔
سن 1984 میں گرفتاری کے وقت فرانسیسی پولیس کو ان کے پیرس کے ایک اپارٹمنٹ سے سب مشین گنیں اور وائرلیس اسٹیشنز بھی ملے تھے۔
فروری میں اپیل عدالت نے یہ نوٹ کیا تھا کہ ایف اے آر ایل نے 1984 کے بعد کوئی پُرتشدد کارروائی نہیں کی اور عبداللہ اب ’’فلسطینی جدوجہد کی ایک ماضی کی علامت‘‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ان کی عمر اور جرم کے تناظر میں ان کی قید کی مدت غیر متناسب رہی ہے۔
عبداللہ کے خاندان نے کہا ہے کہ وہ انہیں بیروت ایئرپورٹ کے ’’آنر لاؤنج‘‘ میں خوش آمدید کہیں گے اور بعد ازاں شمالی لبنان کے شہر کوبیات میں واقع اپنے آبائی گھر لے جائیں گے، جہاں استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین