Islam Times:
2025-06-09@20:36:33 GMT

انقلاب اسلامی اور ملت ِایران کی اہل فلسطین کیلئے قربانیاں

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

انقلاب اسلامی اور ملت ِایران کی اہل فلسطین کیلئے قربانیاں

اسلام ٹائمز: آج رہبر معظم انقلاب اسلامی ٹرمپ کی فلسطین دشمنی کیخلاف سب سے موثر آواز ہیں۔ آج اہل فلسطین کو جس سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، وہ رہبر معظم کی شخصیت ہیں۔ آج خطے میں استعماری قوتوں کے سامنے جو چٹان کھڑی ہے، وہ ملت ایران کی چٹان ہے۔ سازشوں، پابندیوں، دھمکیوں اور پرپیگنڈے کے باجود آج بھی منظم اور مستحکم حکومت موجود ہے۔ تمام تر دھونس دھاندلیوں کے باوجود ایک آزاد خارجہ پالیسی کا حامل ایران موجود ہے۔ ملت فلسطین، ملت ایران کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران وہ سایہ دار درخت بن چکا ہے، جو فلسطین کی آزادی کی تحریک کی قربانیاں دیکر بھی پرورش کر رہا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

عصر حاضر میں کسی قوم نے نظریہ کی بنیاد پر اس قدر قربانیاں نہیں دیں، جس قدر قربانیاں ملت ایران نے اہل فلسطین کے لیے دی ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں، غور کریں اور پھر ایمانداری سے بتائیں، اگر آج پوری پاکستانی قوم کو اہل فلسطین کی عملی حمایت کے جرم میں پابندیوں کا نشانہ بنا دیا جائے، ہر طرح کی درآمدات و برآمدات پر پابندیاں عائد کر دی جائیں اور تو ہم میں سے کتنے ہیں، جو اہل فلسطین کی حمایت پر باقی رہیں گے۔؟ جب بجلی ہزار روپے یونٹ ہو جائے، جب آٹا پانچ سو روپے کلو ہو جائے، جب پاکستان کی محنت کی پیداوار کھیتوں کھلیانوں میں ضایع ہو جائے تو ہمارے نطریات کیا ہوں گے۔؟ آج بھی کچھ نام نہاد دانشور یہ بھاشن دیتے ہیں کہ نظریات بھرے پیٹ کی کہانیاں ہیں جناب، خالی پیٹ ہر چیز روٹی نظر آتی ہے۔ایسے میں ملت ایران کو  دیکھ کر رشک آتا ہے اور انسان قیادت کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس مادہ پرستی کے دور میں وہ اپنا سب کچھ اہل فلسطین کے لیے داو پر لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے بہترین دماغ صرف اس لیے شہید کر دیئے گئے کہ وہ فلسطین دشمنوں کی نیندیں تباہ کیے ہوئے تھے۔

میں سوچ رہا تھا کہ یہ سب کیسے ممکن ہے۔؟ دیکھا جائے تو یہ سب تربیت کا نتیجہ ہے اور کربلا سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیئے۔حق کی خاطر قربانی دینی چاہیئے۔ انسان کا حق کی خاطر جتنا نقصان ہو جائے، وہ قابل قبول ہے۔ انسان اسی تربیت کے نتیجے میں اس مقام پر پہنچتا ہے کہ سب کچھ قربان کرنے کے باوجود جب جان قربان کرنے لگتا ہے تو زبان حال کہہ رہا ہوتا ہے:
جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جابر، ظالم اور طاقتور کے سامنے کلمہ حق کہنے کو ہی جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیا ہے اور جب کوئی قوم و ملت جابر اور غاصب کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ جہاد اکبر کی کر رہی ہوتی ہے۔ آج ظالم و مظلوم کی تمیز مٹ چکی ہے، ہر کوئی ذاتی مفاد کے لیے نظریات قربان کر رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں معاشرے بہت بار ایسے ہوئے، جہاں سب کچھ باطل کے اختیار میں چلا گیا اور اہل حق کے گروہ جنگلوں اور غاروں میں پناہ گزیں ہوئے۔ اصحاب کہف کی داستان ہمیں یہی بتاتی ہے، مگر ان کے رب نے انہیں نیند سے جگا کر دنیا میں یکتا پرستوں کی کثرت بھی دکھا دی۔ یہ ماہ و سال خدا کے لیے بس لمحات کی طرح ہیں، جس میں اہل باطل یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ فتح کر لیا، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

آج فلسطین کی تحریک آزادی نئے موڑ پر آچکی ہے، پتھر سے شروع ہونے والا سفر آج میزائل تک پہنچ چکا ہے، قابض قوتیں تمام تر طاقتوں کے باوجود اس قابل نہیں کہ طاقت سے مسائل کو حل کر لیں۔ انہیں انہی زمین زادوں سے مذاکرات کرنے پڑے، جنہیں وہ خس و خاشاک سمجھتے تھے۔ دنیا بھر کے کیمروں کی چکا چوند دنیا نے دیکھا کہ جو پورے سال نظر نہیں آرہے تھے، وہ زمین سے اگ آئے یا آسمان سے نازل ہوگئے۔ جن کو تباہ و برباد کرنے کے لیے دنیا کے سب سے بڑے بم استعمال کیے گئے، اتنی بمباری کی گئی، جتنی امریکہ نے بیس سال میں افغانستان میں نہیں کی تھی، مگر دنیا نے دیکھا کہ اہل فلسطین پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ انہوں نے ظالموں اور قابضوں کے تمام پلان نیست و نبو د کر دیئے ہیں۔

بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینیؒ باکمال شخصیت تھے، جہاں وہ فقہ و تفسیر میں مجتہد و مفسر تھے، وہیں زمانہ شناس تھے۔ انہوں نے اہل فلسطین کی حمایت کے لیے وقتی اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے فلسطین کی قیادت کو یہ بات سمجھائی کہ یہ مسئلہ عرب ممالک کی قیادت کے ہاتھ میں رہا تو جلد تمہارا سودا کر دیا جائے گا اور فلسطین کو مٹا دیا جائے گا۔ ہر کوئی اپنی مرضی کی قیمت وصول کرکے پیچھے ہٹ جائے گا۔ آج امام خمینی کی پیشگوئی حرف بحرف پوری ہو رہی ہے۔ اہل فلسطین نے اپنی طاقت جمع نہ کی ہوتی تو عرب ممالک کے نام نہاد حکمران اہل فلسطین کا ابراہم اکارڈ کے نام پر سودا کرچکے ہوتے۔ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو فکری بنیادیں فراہم کیں، اسے فلسطین اسرائیل، عرب اور اسرائیل اور مسلمان یہود کی بجائے انسانی مسئلے کے طور پر پیش کیا۔ یہ انقلاب کی برکت ہے اور ملت ایران کا جذبہ کہ آج جمعۃ الوداع پوری دنیا میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

اس سے پوری امت اور انسانیت کو یہ پیغام جاتا ہے کہ مسئلہ فلسطین موجود ہے اور اہل فلسطین پر غاصبوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان یہودی ہے، مسیحی ہے یا مسلمان ہے، اصل بات یہ ہے کہ ظالم سے اظہار نفرت ہونا چاہیئے اور قابض کے تسلط کے خلاف مسلسل جدوجہد ہونی چاہیئے۔ آج رہبر معظم انقلاب اسلامی ٹرمپ کی فلسطین دشمنی کے خلاف سب سے موثر آواز ہیں۔ آج اہل فلسطین کو جس سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ ہیں، وہ رہبر معظم کی شخصیت ہیں۔ آج خطے میں استعماری قوتوں کے سامنے جو چٹان کھڑی ہے، وہ ملت ایران کی چٹان ہے۔ سازشوں، پابندیوں، دھمکیوں اور پرپیگنڈے کے باجود آج بھی منظم اور مستحکم حکومت موجود ہے۔ تمام تر دھونس دھاندلیوں کے باوجود ایک آزاد خارجہ پالیسی کا حامل ایران موجود ہے۔ ملت فلسطین، ملت ایران کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران وہ سایہ دار درخت بن چکا ہے، جو فلسطین کی آزادی کی تحریک کی قربانیاں دے کر بھی پرورش کر رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی اہل فلسطین کی ملت ایران کی کے باوجود فلسطین کو موجود ہے کے سامنے ہو جائے ہے اور کے لیے سب کچھ

پڑھیں:

ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟

اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
 
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
 
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
 
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
 
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
 
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
 
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان نے مغرب نواز شہریوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا
  • ایک لاکھ جرمانہ ؟؟ گاڑی مالکان کیلئے پریشان کن خبر آ گئی
  • ایران امریکا مذاکرات، حکومتوں کا وجود امریکی خوشنودی پر منحصر 
  • جوانوں کی قربانیاں اور ثابت قدمی وطن کے تحفظ کی ضمانت اور پاکستان کی اصل طاقت ہے، وزیر داخلہ
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • سالوں تک غریب طبقے نے قربانیاں دیں، اب اشرافیہ کی باری ہے، فاروق ستار
  • امام خمینی کا نام مظلوموں کے دفاع، استقامت کی علامت ہے، مولانا ہدایت الرحمٰن
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • عیدلاضحیٰ پر صحیح جانور چُننا بچوں کا کھیل نہیں ہے: جرمن سفیر
  • ملتان، خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ کے زیراہتمام امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی برسی کا انعقاد