UrduPoint:
2025-09-18@13:14:29 GMT

آئی ایم ایف کی تجویز پر پاکستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

آئی ایم ایف کی تجویز پر پاکستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے گورننس اور کرپشن ڈائیگنوسٹک اسیسمنٹ کے تکنیکی مشن نے پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کہا ہے کہ ملک میں پایا جانے والا کرپشن، غیر ضروری بیورو کریسی، کمزور کاروباری ڈھانچہ اور مختلف مفادات رکھنے والے گروپوں کی حکومتی معاملات میں مداخلت دراصل اس ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

آئی ایم ایف نے اسلام آباد حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساختیاتی معیارات (اسٹرکچرل بینچ مارک کے تقاضے ) کی تعمیل کرے۔ اس کے لیے پاکستان کو سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی، جس کے تحت گریڈ سترہ سے اوپر کے تمام سرکاری ملازمین کے لیے سالانہ اثاثہ جات کی تفصیلات ظاہر کرنا لازمی ہوگا۔

(جاری ہے)

کون سا ملک سب سے زیادہ اور کون سب سے کم بدعنوان ہے؟

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے اتفاق کیا ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد اعلیٰ سطحی سرکاری عہدے دار نہ صرف اپنے اثاثے بلکہ وہ اثاثے بھی جو ان کے خاندان کے افراد بالواسطہ طور پر رکھتے ہیں انہیں ظاہر کریں اور ان کی وضاحت پیش کی جائے۔

یہ معلومات عوامی طور پر قابلِ رسائی ہوں گی، تاہم نجی معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریعے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔

نئے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہیں، پاکستان

پاکستان میں کافی عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ سرکاری ملازمین کے اثاثوں کو ظاہر کیا جانا چاہیے تاکہ اگر ان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے پائے جائیں تو انہیں جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔

پاکستان میں سیاستدان پہلے ہی سالانہ بنیادوں پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں، لیکن قانون سازوں کی طرح سرکاری ملازمین کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا جو انہیں ہر سال اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند بناتا۔

پاکستان، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بدعنوانی انڈکس کی 140 ویں پوزیشن پر قائم

قانون ساز اور معاشی ماہرین اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بعض اہم معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں، جن میں عملدرآمد کا طریقہ کار، تحقیقات کی صلاحیت، اور قوانین و طریقہ کار میں موجود وہ خامیاں شامل ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے ناجائز اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

اصلاحات آئی ایم ایف کے حکم پر ہی کیوں؟

قانون سازوں نے خاص طور پر ایک اور اہم سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو ہر اچھا کام آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہی کیوں کرنا پڑتا ہے، اور وہ خود سے ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتا، حالانکہ یہ اقدامات ملک سے بتدریج بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہیں۔

سینیٹر پلواشہ بہرام، جو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن بھی ہیں، کہتی ہیں،''سرکاری ملازمین کے لیے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنا ایک اچھا قدم ہے۔

سیاستدان اپنی تفصیلات جمع کراتے ہیں، تو سرکاری ملازمین کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ہر معاملے میں ہمیں آئی ایم ایف ہی کیوں ہدایت دیتا ہے؟ ہم خود ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتے۔‘‘

ٹرانسپیرنسی کا نیا کرپشن انڈکس: حکومت کے خلاف تنقید کا طوفان

پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ ملک میں جڑوں تک پھیلی بدعنوانی کے خاتمے کا مؤثر طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف قوانین بنانے کی ضرورت ہے یا کوئی اور مسئلہ بھی موجود ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے؟ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ صرف قوانین بنا دینے سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ ایک مؤثر عملدرآمد اور تحقیقات کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بدعنوانی پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا ہے، ''بدعنوانی پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے، اسے صرف قوانین بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اعتقادات میں اصلاح ضروری ہے اور ایک مؤثر تحقیقات کا نظام بھی درکار ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتوں نے نیب کو ایک متنازع ادارہ بنا دیا، حالانکہ یہ کسی حد تک کرپشن کی تحقیقات کی صلاحیت رکھتا تھا۔

‘‘ کامران مرتضی بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو یہ کام خود کرنے چاہییں نہ کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر۔سیاست خدمت خلق یا طاقت اور دولت کا منافع بخش کاروبار؟

جب ایکشن نہیں لینا تو اثاثے ڈکلیئر کرنے سے کیا ہو گا؟

چند ماہرین کا ماننا ہے کہ جب آمدن سے زائد اثاثے رکھنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو قانون کیا کر سکتا ہے؟ اس کی ایک اہم مثال جنرل باجوہ کے اثاثے ہیں، جن کی مالیت وسیع پیمانے پر شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق دس ارب سے زائد بتائی جاتی ہے۔

تاہم، حکومت نے یہ تحقیقات کرنے کی بجائے کہ انہوں نے اتنے بڑے اثاثے کیسے بنائے، اُن ایف بی آر حکام کے خلاف کارروائی کی جو ان کے اثاثوں کی معلومات لیک کرنے میں ملوث پائے گئے۔

آئی ایم ایف اضافی بیل آوٹ پیکج اسی ماہ ممکن، پاکستانی وزیر

ایف بی آر کے سابق سینئر رکن شاہد اسد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قوانین صرف کمزور طبقے کے لیے بنائے جاتے ہیں، جبکہ یہ بااثر افراد کو چھوتے تک نہیں۔

انہوں نے کہا،''جو لوگ اربوں لوٹتے ہیں، وہ کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ کیا کسی نے جنرل باجوہ سے یہ پوچھا کہ ایک سادہ پس منظر رکھنے کے باوجود انہوں نے اتنی بڑی جائیداد کیسے بنائی؟‘‘

کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نظام میں اتنی خامیاں ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں،''لوگ اپنے اثاثے آسانی سے جائز ثابت کر لیتے ہیں، چاہے وہ کرپشن سے ہی بنے ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بیرون ملک مقیم بھائی کا تحفہ ہے یا کسی اور بہانے کا سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جنرل مشرف کا فارم ہاؤس بھی ایک تحفہ قرار دیا گیا تھا۔ آخر طاقتور لوگوں کو اتنے تحفے کیوں ملتے ہیں؟‘‘

نیا پاکستانی بجٹ: جون 2025 تک 13 ٹریلین روپے آمدنی کا ہدف

انہوں نے مزید کہا کہ بدعنوانی روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونا چاہیے، کیونکہ لوگ ناجائز کمائی کو بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کرنے چاہییں کہ اگر کوئی شخص کسی بھی ملک میں ایک مخصوص حد سے زیادہ رقم منتقل کرے تو وہ ملک اس سے ٹیکس کی تفصیلات اور دولت کے قانونی ذرائع کی وضاحت طلب کرے۔‘‘

اگرچہ بہت سے لوگ قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، لیکن کچھ اسے ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر اثاثے ظاہر کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں ہوگا تو اس پر عملدرآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینیٹر پلواشہ بہرام کہتی ہیں، ''کارروائی اپنی جگہ، مگر کم از کم قانون تو بن رہا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے۔ آہستہ آہستہ نظام مزید بہتر ہوگا اور ناجائز دولت رکھنے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے گا۔‘‘.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرکاری ملازمین کے ئی ایم ایف کے پاکستان میں ا ئی ایم ایف آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے اثاثے انہوں نے کے لیے ا کرنے کا

پڑھیں:

کرکٹ: مصافحہ نہ کرنے کا تنازعے پر پاکستانی موقف کی جیت؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) ایک اہم پیش رفت میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے کے تحت ایشیا کپ 2025 کے میچ ریفری اینڈی پائکرافٹ کو ہٹا کر اب ان کی جگہ رچی رچرڈسن کو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بھارتی خبر رساں ایجنسیوں (پی ٹی آئی اور اے این آئی) نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ایک ذریعے کے حوالے سے اس بات کی تصدیق کی ہے، جبکہ گزشتہ روز انہیں ایجنسیوں نے یہ اطلاع دی تھی کہ پاکستان کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

بدھ کے روز این ڈی ٹی اور ہندوستان ٹائژز جیسے بھارتی میڈیا اداروں نے بھارتی خبر رساں ایجنسیوں کے حوالے سے اطلاع دی کہ یہ تازہ پیش رفت پاکستان کے لیے کافی حوصلہ بخش ہے کیونکہ اب اینڈی پائکرافٹ پاکستان کے بقیہ مقابلوں کے دوران میچ ریفری نہیں ہوں گے اور ان کی جگہ یہ ذمہ داری ویسٹ انڈیز کے کرکٹر رچی رچرڈسن انجام دیں گے۔

(جاری ہے)

تاہم بعض میڈیا اداروں نے یہ خبریں بھی شائع کی ہیں کہ ابھی تک اس متنازعہ معاملے پرحتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

مصافحہ نہ کرنے کا تنازعہ کیا ہے؟

بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے اتوار کے روز ہونے والے میچ کے آغاز اور اختتام پر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ٹاس کے وقت بھی بھارتی ٹیم کے کپتان سوریہ کمار یادو نے پاکستان کے کپتان سلمان آغا سے ہاتھ تک نہیں ملایا۔

اس معاملے میں پاکستانی ٹیم نے میچ ریفری اینڈی پائکرافٹ کے خلاف بھی شکایت درج کرائی تھی کہ انہوں نے مبینہ طور پر سلمان آغا کو سوریہ کمار یادو سے مصافحہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس طرح کی اطلاعات تھیں کہ پاکستان نے میچ ریفری کو نہ ہٹانے کی صورت میں اس ٹورنامنٹ سے دستبردار ہونے پر غور کرنے کی بات کہہ دی تھی۔

اگر ایسا ہوتا تو یہ ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہوتا، تاہم تمام قیاس آرائیوں اور نجی ملاقاتوں کے بعد اس بات پر اتفاق کر لیا گیا کہ اینڈی پائکرافٹ متحدہ عرب امارات کے خلاف پاکستان کے اگلے میچ اورگروپ مرحلے کے پاکستان کے دیگر میچوں میں بطور ریفری ذمہ داری نہیں نبھائیں گے۔

یہ فیصلہ بھارت کے خلاف اتوار کے ہائی پروفائل میچ کے بعد پی سی بی اور آئی سی سی کے درمیان کشیدہ تعطل کے تناظر میں آیا ہے۔

اتوار کے کھیل کے بعد دونوں ٹیموں کے جذبات اس وقت بلند ہو گئے جب بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے پہلگام حملے کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کیا۔

بھارت پاکستان کشیدگی کا اثر کرکٹ پر

پہلگام حملے کے بعد مئی کے اوائل میں دونوں ملکوں کے درمیان مختصر جنگ ہوئی تھی، جس کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی تناؤ بہت زیادہ ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ کرکٹ کھیل بھی اب سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔

ایشیا کرکٹ 2025 ٹورنامنٹ کے دوران بھی کھیل سے زیادہ یہی تنازعہ سرخیوں میں ہیں۔ اس بات پر بحث کم ہو رہی ہے کہ ٹیم یا کسی خاص کھلاڑی کی کارکردگی کیسے رہی اور اس کے بر عکس بحث کا مرکزی موضوع بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے کرکٹ پر اثرات ہے۔

بھارتی میڈیا بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے اور وہ بھی پاکستانی کھلاڑیوں یا پھر پی سی بی پر تنقید کرنے والی خبریں جلی حروف میں شائع کر رہا ہے۔

ایک نیا موضوع یہ گردش کر رہا ہے کہ اگر بھارتی ٹیم ٹورنامنٹ جیت جاتی ہے تو کیا وہ ایشیئن کرکٹ ٹیم کے سربراہ محسن نقوی سے ٹرافی حاصل کرے گی، جو پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں۔

ٹورنامنٹ کون جتتا ہے یہ الگ موضوع ہے اور ابھی کسی کو نہیں معلوم ہے، تاہم بھارتی میڈیا نے ابھی سے یہ خبریں شائع کرنا شروع کر دی ہیں، کہ ٹیم نے پہلے ہی آگاہ کر دیا ہے کہ وہ پاکستانی افراد سے ٹرافی نہیں قبول کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کی اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات محدود کرنے اور وزرا پر پابندیوں کی تجویز
  • پابندیوں لگانے کی صورت میں یورپ کو سخت جواب دینگے، تل ابیب
  • کرکٹ: مصافحہ نہ کرنے کا تنازعے پر پاکستانی موقف کی جیت؟
  • سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز
  • اثاثے ہتھیانے والوں کا پیچھا کریں گے، روس کی یورپ کو دھمکی
  • وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
  • اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
  • سی سی ڈی کے قیام کیخلاف درخواست، لاہورہائیکورٹ نے وکیل کو پٹیشن میں ترمیم کی مہلت دیدی
  • کراچی چیمبر کے غیر معمولی اجلاس عام کا انعقاد
  • پاکستان کی اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت