UrduPoint:
2025-04-25@10:33:44 GMT

آئی ایم ایف کی تجویز پر پاکستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

آئی ایم ایف کی تجویز پر پاکستان سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 فروری 2025ء) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے گورننس اور کرپشن ڈائیگنوسٹک اسیسمنٹ کے تکنیکی مشن نے پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے کہا ہے کہ ملک میں پایا جانے والا کرپشن، غیر ضروری بیورو کریسی، کمزور کاروباری ڈھانچہ اور مختلف مفادات رکھنے والے گروپوں کی حکومتی معاملات میں مداخلت دراصل اس ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

آئی ایم ایف نے اسلام آباد حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساختیاتی معیارات (اسٹرکچرل بینچ مارک کے تقاضے ) کی تعمیل کرے۔ اس کے لیے پاکستان کو سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کرنا ہوگی، جس کے تحت گریڈ سترہ سے اوپر کے تمام سرکاری ملازمین کے لیے سالانہ اثاثہ جات کی تفصیلات ظاہر کرنا لازمی ہوگا۔

(جاری ہے)

کون سا ملک سب سے زیادہ اور کون سب سے کم بدعنوان ہے؟

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے اتفاق کیا ہے کہ قانون میں ترمیم کے بعد اعلیٰ سطحی سرکاری عہدے دار نہ صرف اپنے اثاثے بلکہ وہ اثاثے بھی جو ان کے خاندان کے افراد بالواسطہ طور پر رکھتے ہیں انہیں ظاہر کریں اور ان کی وضاحت پیش کی جائے۔

یہ معلومات عوامی طور پر قابلِ رسائی ہوں گی، تاہم نجی معلومات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ریعے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔

نئے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہیں، پاکستان

پاکستان میں کافی عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ سرکاری ملازمین کے اثاثوں کو ظاہر کیا جانا چاہیے تاکہ اگر ان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے پائے جائیں تو انہیں جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔

پاکستان میں سیاستدان پہلے ہی سالانہ بنیادوں پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں، لیکن قانون سازوں کی طرح سرکاری ملازمین کے لیے ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا جو انہیں ہر سال اپنے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند بناتا۔

پاکستان، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بدعنوانی انڈکس کی 140 ویں پوزیشن پر قائم

قانون ساز اور معاشی ماہرین اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بعض اہم معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں، جن میں عملدرآمد کا طریقہ کار، تحقیقات کی صلاحیت، اور قوانین و طریقہ کار میں موجود وہ خامیاں شامل ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے ناجائز اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

اصلاحات آئی ایم ایف کے حکم پر ہی کیوں؟

قانون سازوں نے خاص طور پر ایک اور اہم سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کو ہر اچھا کام آئی ایم ایف کی ہدایت پر ہی کیوں کرنا پڑتا ہے، اور وہ خود سے ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتا، حالانکہ یہ اقدامات ملک سے بتدریج بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہیں۔

سینیٹر پلواشہ بہرام، جو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن بھی ہیں، کہتی ہیں،''سرکاری ملازمین کے لیے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنا ایک اچھا قدم ہے۔

سیاستدان اپنی تفصیلات جمع کراتے ہیں، تو سرکاری ملازمین کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ہر معاملے میں ہمیں آئی ایم ایف ہی کیوں ہدایت دیتا ہے؟ ہم خود ایسے فیصلے کیوں نہیں کرتے۔‘‘

ٹرانسپیرنسی کا نیا کرپشن انڈکس: حکومت کے خلاف تنقید کا طوفان

پاکستان میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ ملک میں جڑوں تک پھیلی بدعنوانی کے خاتمے کا مؤثر طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف قوانین بنانے کی ضرورت ہے یا کوئی اور مسئلہ بھی موجود ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے؟ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ صرف قوانین بنا دینے سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ ایک مؤثر عملدرآمد اور تحقیقات کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے بدعنوانی پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضی کا کہنا ہے، ''بدعنوانی پورے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے، اسے صرف قوانین بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اعتقادات میں اصلاح ضروری ہے اور ایک مؤثر تحقیقات کا نظام بھی درکار ہے۔ مختلف ادوار میں حکومتوں نے نیب کو ایک متنازع ادارہ بنا دیا، حالانکہ یہ کسی حد تک کرپشن کی تحقیقات کی صلاحیت رکھتا تھا۔

‘‘ کامران مرتضی بھی یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو یہ کام خود کرنے چاہییں نہ کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر۔سیاست خدمت خلق یا طاقت اور دولت کا منافع بخش کاروبار؟

جب ایکشن نہیں لینا تو اثاثے ڈکلیئر کرنے سے کیا ہو گا؟

چند ماہرین کا ماننا ہے کہ جب آمدن سے زائد اثاثے رکھنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو قانون کیا کر سکتا ہے؟ اس کی ایک اہم مثال جنرل باجوہ کے اثاثے ہیں، جن کی مالیت وسیع پیمانے پر شائع ہونے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق دس ارب سے زائد بتائی جاتی ہے۔

تاہم، حکومت نے یہ تحقیقات کرنے کی بجائے کہ انہوں نے اتنے بڑے اثاثے کیسے بنائے، اُن ایف بی آر حکام کے خلاف کارروائی کی جو ان کے اثاثوں کی معلومات لیک کرنے میں ملوث پائے گئے۔

آئی ایم ایف اضافی بیل آوٹ پیکج اسی ماہ ممکن، پاکستانی وزیر

ایف بی آر کے سابق سینئر رکن شاہد اسد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قوانین صرف کمزور طبقے کے لیے بنائے جاتے ہیں، جبکہ یہ بااثر افراد کو چھوتے تک نہیں۔

انہوں نے کہا،''جو لوگ اربوں لوٹتے ہیں، وہ کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ کیا کسی نے جنرل باجوہ سے یہ پوچھا کہ ایک سادہ پس منظر رکھنے کے باوجود انہوں نے اتنی بڑی جائیداد کیسے بنائی؟‘‘

کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نظام میں اتنی خامیاں ہیں جو بدعنوان عناصر کو اپنے اثاثے جائز ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ معروف ماہر معاشیات قیصر بنگالی کہتے ہیں،''لوگ اپنے اثاثے آسانی سے جائز ثابت کر لیتے ہیں، چاہے وہ کرپشن سے ہی بنے ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ بیرون ملک مقیم بھائی کا تحفہ ہے یا کسی اور بہانے کا سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جنرل مشرف کا فارم ہاؤس بھی ایک تحفہ قرار دیا گیا تھا۔ آخر طاقتور لوگوں کو اتنے تحفے کیوں ملتے ہیں؟‘‘

نیا پاکستانی بجٹ: جون 2025 تک 13 ٹریلین روپے آمدنی کا ہدف

انہوں نے مزید کہا کہ بدعنوانی روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونا چاہیے، کیونکہ لوگ ناجائز کمائی کو بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کرنے چاہییں کہ اگر کوئی شخص کسی بھی ملک میں ایک مخصوص حد سے زیادہ رقم منتقل کرے تو وہ ملک اس سے ٹیکس کی تفصیلات اور دولت کے قانونی ذرائع کی وضاحت طلب کرے۔‘‘

اگرچہ بہت سے لوگ قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، لیکن کچھ اسے ایک مثبت قدم سمجھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر اثاثے ظاہر کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں ہوگا تو اس پر عملدرآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سینیٹر پلواشہ بہرام کہتی ہیں، ''کارروائی اپنی جگہ، مگر کم از کم قانون تو بن رہا ہے، جو ایک اچھا قدم ہے۔ آہستہ آہستہ نظام مزید بہتر ہوگا اور ناجائز دولت رکھنے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے گا۔‘‘.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرکاری ملازمین کے ئی ایم ایف کے پاکستان میں ا ئی ایم ایف آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے اثاثے انہوں نے کے لیے ا کرنے کا

پڑھیں:

قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور

اسلام آباد:

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل 2024 منظور کر لیا۔

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں بل پر بحث کے دوران وزارت قانون نے کہا کہ چند ممالک میں پاکستانیوں کو شہریت ملتی تھی تو ان کو پاکستان کی شہریت چھوڑنی پڑتی تھی، ایسے افراد کی پاکستانی شہریت بحال کرنے کے لیے ترمیم لا رہے ہیں۔

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال قاضی نے کہا کہ 22 ممالک کے ساتھ پاکستان کے دوہری شہریت کے معاہدے نہیں تھے، ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے معاہدے ہو چکے ہیں جس کے بعد پاکستانی شہریوں کو دہری شہریت میں پاکستانی شہریت چھوڑنی نہیں پڑے گی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس بل میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، پاکستانی شہریوں کو شہریت ملنی چاہیے۔

اسلام آباد میں ترقیاتی کام

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اجلاس کی صدارت رکن قومی اسمبلی راجہ خرم نواز نے کی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اسلام آباد کے حلقوں میں سڑکوں کی تعمیر پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔

چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ بہت سے حلقوں میں سڑکوں کی تعمیر پر کام شروع کر دیا گیا ہے، سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 250 ملین کا فنڈ رکھا گیا۔

رکن قومی اسمبلی انجم عقیل خان نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے صاحب غلط بیانی کر رہے ہیں، کسی بھی حلقے میں کام شروع نہیں ہوا۔

اسلحہ لائسنس پر کمیٹی کو بریفنگ

اسلحہ لائسنس کے معاملے پر وزیر مملکت برائے داخلہ نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ اسلحہ لائسنس تمام صوبے بنا رہے ہیں، پہلے اسلام آباد میں بہت زیادہ لائسنس بنے جن میں کچھ غیر مناسب چیزیں بھی سامنے آئی ہیں۔

طلال چوہدری نے کہا کہ ایم این ایز کو ایک لائسنس وزیراعظم کی منظوری سے دیں گے، ممنوعہ بور کا لائسنس کھولا ہے لیکن وہ ہم بہت ہی کم دیں گے۔ اراکین پارلیمنٹ کے تجویز کردہ لوگوں کو محدود پیمانے پر ممنوعہ بور کے لائسنس دیں گے۔

انسانی اسمگلنگ پر بحث

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے معاملے پر پاکستان کا نام بدنام ہو رہا ہے، پاکستان سے کوئی بھی شخص جعلی پاسپورٹ پر نہیں باہر جا سکتا۔

انہوں نے بتایا ک 200 سے زائد انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایف آئی اے کے کئی لوگوں کو نوکریوں سے بھی برخاست کیا گیا ہے، وزیراعظم نے ایف آئی اے کے افسر کو تین ممالک میں بھی بھیجا۔

سیکریٹری داخلہ آغا خرم علی نے بتایا کہ ہم نے پچھلے چند ماہ میں بڑے انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا ہے۔

پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے کہا کہ کشتیوں پر جو لوگ جاتے ہیں اور سعودیہ میں گینگ بھیک مانگنے کے لیے جاتے ہیں، بہت سے گلف ممالک نے ڈی جی خان کو بین کر دیا ہے، انسانی اسمگلنگ پر ہمیں تفصیلی بریفنگ دیں۔

رکن کمیٹی سیدہ نوشین نے سوال کیا کہ کیا بھیک مانگنے والے جب پاکستان واپس آتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے؟

سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ ہمیں سعودی عرب نے 4300 کی لسٹ دی ہے، ہم ان 4300 لوگوں کو واپس لا چکے ہیں اور ان کے پاسپورٹ بلاک کیے جا چکے ہیں۔

جمشید دستی نے کہا کہ ایف آئی اے کے لوگ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں، ڈی جی بدلںے سے کام نہیں چلے گا۔

طلال چوہدری نے کہا کہ انٹرنیشنل انسانی اسمگلنگ کانفرنس میں پاکستانی ایف آئی اے کے کام کی تعریف کی گئی ہے، اپنے اداروں کو ہی زیادہ بدنام نا کیا جائے۔ سعودی عرب اور یو اے ای نے بھکاریوں کی شکایت کی ہے، ہم ان لوگوں کو واپسی پر سزا دینے کے لیے قانون بھی لا رہے ہیں۔

جمشید دستی نے کہا کہ یہ تو آپ ادارے کو کلین چٹ دے رہے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز نے کہا کہ یہاں سے یہ لوگ ویزا اور پاسپورٹ پر پاکستان سے نکلتے ہیں، کشتی حادثات میں بھی یہ لوگ پاکستان سے قانونی طریقوں سے باہر نکلے۔

رکن کمیٹی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ میں جمشید دستی صاحب کی رائے سے اتفاق نہیں کرتا، ایف آئی اے کے لوگ کتنے دوہری شہریت رکھتے ہیں وہ چیک کیا جائے، چیک کیا جائے کہ یہ ایف آئی اے کے کتنے لوگ ایک ایک سال کی چھٹی لے کر جاتے ہیں۔

سینیٹ ہاوسنگ سوسائٹی کے معاملے پر کمیٹی میں بحث

نبیل گبول نے کہا کہ بتایا جائے سینیٹ ہاوسنگ سوسائٹی پر کس نے اسلحہ کے ساتھ قبضہ کیا ہے؟

چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ میں نے ان دونوں پارٹیوں کو سنا ہے اس پر میں نے فیصلہ دیا، اس پر ایک پارٹی ہائیکورٹ چلی گئی اور ہائیکورٹ نے چیف کمشنر آفس کے فیصلے کو کالعدم کرکے ریکارڈ منگوایا تھا، جو رپورٹ ہم نے عدالت میں جمع کروائی تھی وہ ہمیں بھی دے دیں۔

چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ سینیٹ ہاوسنگ سوسائٹی کا معاملہ آئندہ بتا دوں گا، ہمارے ہوتے ہوئے کوئی بھی قبضہ نہیں کر سکتا۔

چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ جیسے اداروں کی سوسائٹی کی زمین پر قبضہ ہو جائے تو کیا ہوگا؟ ہمیں ان دونوں سوسائٹیوں پر ہونے والی پیشرفت پر بتائیں۔

جمشید دستی نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے اور چیف کمشنر اسلام آباد کے 2عہدے ایک شخص کے پاس ہیں، ان میں سے ایک عہدہ ان کے پاس رہنے دیں۔

پاسپورٹس اتھارٹی کا معاملہ

پی ٹی آئی کی پارلیمانی لیڈر زرتاج گل وزیر نے پاسپورٹس اتھارٹی کا معاملہ کمیٹی میں اٹھا دیا۔

زرتاج گل نے کہا کہ ڈی جی پاسپورٹس بیٹھے ہیں بہت اچھا کام کر رہے ہیں، یہ حکومت پاکستان کو سالانہ بڑی کمائی کر کے دیتے ہیں، جو محکمہ اپنی کمائی خود کرتا ہے تو ان کی اپنی اتھارٹی بنائی جائے، اگر نادرا کی اتھارٹی بن گئی تو پاسپورٹس کی بھی اتھارٹی بننی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: اہم شخصیات کی نازیبا ویڈیو بنانے پر پیکا ایکٹ کے تحت 23 مقدمات درج
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • قومی اسمبلی کمیٹی برائے داخلہ میں پاکستان سیٹیزن شپ ایکٹ ترمیمی بل منظور
  • پیکا ایکٹ میں ترمیم کیخلاف درخواست: حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • پی ٹی آئی گِدھوں کے قبضے میں ہے، اثاثے اور اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں، اکبر ایس بابر
  • پی ٹی آئی گِدھوں کے قبضے میں ہے، اثاثے اور اکاونٹس منجمد کیے جائیں، اکبر ایس بابر
  • پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف ایک اور آئینی درخواست دائر