غزہ: جنگ کے دوبارہ آغاز سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے، یو این چیف
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 فروری 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے حماس سے ہفتے کے روز تک یرغمالیوں کی طے شدہ رہائی یقینی بنانے کی اپیل کرتے ہوئے فریقین سے کہا ہے کہ غزہ میں دوبارہ جنگ سے ہر قیمت پر گریز کرنا ہو گا۔
سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ 15 ماہ تک جاری رہنے والے جنگ میں غزہ کے لوگوں نے ہولناک تباہی اور بے پایاں مشکلات کا سامنا کیا ہے جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے ترجمان رولینڈو گومز کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اپنے وعدے پورے کریں اور اس کے آئندہ مرحلے کے لیے دوحہ میں سنجیدہ بات چیت جاری رکھیں۔
یاد رہے کہ، حماس نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی ہلاکتیں جاری رکھنے اور غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے یرغمالیوں کی رہائی کا عمل معطل کر دیا ہے جنہیں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے دوران اغوا کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
اقوام متحدہ کی امدادی کارروائیاںفلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے بتایا ہے کہ غزہ، مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اس کی کارروائیاں بلارکاوٹ جاری ہیں اور موخرالذکر دونوں علاقوں میں اس کے طبی مراکز بھی حسب معمول کام کر رہے ہیں۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے مطابق، 19 جنوری کو طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں بڑے پیمانے پر امداد کی فراہمی ممکن ہو گئی ہے۔
ادارے کے ترجمان جینز لائرکے نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ 21 یوم میں بڑے پیمانے پر خوراک، طبی سازوسامان اور پناہ کے لیے درکار اشیا غزہ میں پہنچائی ہیں۔تاہم، ان کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیموں کو بعض مخصوص چیزیں غزہ میں لانے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر ان کی ترسیل پر پابندی ختم ہو جائے تو تباہ شدہ طبی مراکز سمیت بہت سی جگہوں کی تعمیر و مرمت آسان ہو جائے گی۔
جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ضامنوں کو تمام معلومات تک آگاہی ہونی چاہیے تاہم ان میں اقوام متحدہ شامل نہیں ہے۔انسانی امداد میں اضافہ'اوچا' نے بتایا ہے کہ جنگ بندی عمل میں آنے کے بعد غزہ کے 15 لاکھ لوگ انسانی امداد وصول کر چکے ہیں۔ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے علاقے میں 860,000 لوگوں میں خوراک کے پیکٹ، تیار کھانا اور نقد امداد تقسیم کی ہے جبکہ شراکتی ادارے بھی اجتماعی باورچی خانوں کے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوں کی غذائی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔
غزہ بھر میں پانی کے کنوؤں کی مرمت کا کام بھی جاری ہے۔ تاہم بڑے پیمانے پر تباہی اور فاضل پرزہ جات، جنریٹر اور شمسی پینل جیسی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث پانی کی فراہمی میں اضافے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔
اس وقت تقریباً 60 طبی شراکت دار غزہ بھر میں ابتدائی اور ثانوی درجے کی طبی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔ جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ (یو این ایف پی اے) آئندہ تین ہفتوں میں 65 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ضروری سہولیات فراہم کرے گا۔
'اوچا' نے بتایا ہے کہ حالیہ طوفان کے نتیجے میں خان یونس اور غزہ کے وسطی علاقوں میں بچوں کی تعلیم و تفریح کے لیے قائم کردہ پانچ جگہیں تباہ ہو گئی ہیں۔ رولینڈو گومز کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنگ بندی عمل میں آ چکی ہے لیکن غزہ کی آبادی کو زندگی بحال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مدد کی فراہمی بہت ضروری ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے بڑے پیمانے پر کی فراہمی کے لیے
پڑھیں:
ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
کانگریس لیڈر نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم ریاستی حالات کو لیکر مسلسل خاموش رہے، نہ کبھی عوام سے مخاطب ہوئے، نہ کسی نمائندہ وفد سے ملے اور نہ ہی منی پور کا دورہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ انڈین نیشنل کانگریس کے سینیئر لیڈر جے رام رمیش نے بھارتی ریاست منی پور میں مسلسل جاری بحران پر بی جے پی کی حکومت اور خاص طور پر نریندر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایکس پر جاری کئے گئے تفصیلی بیان میں انہوں نے کہا کہ ریاست میں تشدد، لاقانونیت اور عوام کی بے بسی کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران امپھال ویسٹ، امپھال ایسٹ، تھوبال، کاکچنگ اور بشنو پور میں دوبارہ تشدد بھڑک اٹھا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست میں صدر راج نافذ کئے جانے کے باوجود زمینی حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
انہوں نے یاد دلایا کہ فروری 2022ء میں بی جے پی کو منی پور اسمبلی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن صرف 15 مہینے بعد 3 مئی 2023ء کو ریاست کو جلنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سینکڑوں بے گناہ مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے، ہزاروں افراد بے گھر ہوئے اور عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا۔ جے رام رمیش نے بتایا کہ اگرچہ 4 جون 2023ء کو بی جے پی حکومت نے ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا لیکن اس کی رپورٹ کی ڈیڈلائن مسلسل ملتوی ہوتی رہی اور اب نئی تاریخ 20 نومبر 2025ء مقرر کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یکم اگست 2023ء کو عدالت نے خود تسلیم کیا تھا کہ ریاست میں آئینی نظام بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
کانگریس لیڈر نے بھارتی وزیراعظم پر الزام لگایا کہ وہ مسلسل خاموش رہے، نہ کبھی عوام سے مخاطب ہوئے، نہ کسی نمائندہ وفد سے ملے اور نہ ہی منی پور کا دورہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ مودی نے پوری ذمہ داری وزیر داخلہ پر ڈال دی، جو مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ کانگریس نے ابتداء ہی سے صدر راج کا مطالبہ کیا تھا لیکن اسے نظرانداز کیا گیا، یہاں تک کہ 10 فروری 2025ء سے شروع ہونے والے اسمبلی اجلاس میں کانگریس کی جانب سے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی دھمکی کے بعد 9 فروری کو بی جے پی نے وزیراعلیٰ سے استعفیٰ لیا اور 13 فروری کو صدر راج نافذ ہوا۔ تاہم صدر راج کے باوجود حالات میں بہتری کے آثار نہیں، یہاں تک کہ ریاستی گورنر کو بھی امپھال ایئرپورٹ سے اپنے گھر جانے کے لئے ہیلی کاپٹر کا سہارا لینا پڑا۔
جے رام رمیش نے طنزیہ انداز میں کہا کہ جن مودی کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یوکرین-روس جنگ رکوا دی تھی، وہ منی پور کے بحران پر بالکل خاموش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی بے حسی پورے ملک کے لئے باعث تکلیف ہے، یہ صرف شمال مشرق کا نہیں، پورے ہندوستان کا درد ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ہفتے کی شب شدت پسند میتئی تنظیم "ارمبائی تنگول" کے ایک رہنما کی مبینہ گرفتاری کے بعد امپھال ویسٹ اور ایسٹ سمیت پانچ اضلاع میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ پُرتشدد احتجاج کے بعد ان اضلاع میں پانچ روز کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا خدمات معطل کر دی گئی ہیں، جب کہ بشنو پور میں مکمل کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ریاستی حکومت نے ان اقدامات کو امن و قانون کی صورتحال قابو میں رکھنے کے لئے ضروری قرار دیا ہے لیکن جے رام رمیش کے مطابق یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ بحران آج بھی جوں کا توں برقرار ہے۔