Jasarat News:
2025-04-25@10:30:06 GMT

2 کروڑ90 لاکھ بچوں کا اسکول سے باہر ہونا قومی المیہ ہے

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

فیصل آباد(وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کے ضلعی امیر پروفیسرمحبوب الزماںبٹ نے کہا ہے کہ تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ دو کروڑ نوے لاکھ بچوں کا سکول تعلیم سے باہر ہونا بڑا قومی المیہ ہے۔ ملکی سطح پر ہمہ گیر ترقی کے لیے ناگزیر ہے کہ غیرطبقاتی یکساں نظامِ تعلیم اور قومی زبان اُردو کے نفاذ پر تمام قومی جماعتیں اتفاق کرلیں۔ تعلیم کو قومی ترجیحِ اول قرار دیا جائے اور اِسی ترجیح کے مطابق وسائل فراہم کیے جائیں۔ پاکستان کی تعلیمی پالیسی قیامِ پاکستان کے مقاصد اور آئینِ پاکستان کے رہنما اصولوں کی پابند کی جائے۔انہوں نے کہاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام اور مخلوط نظامِ تعلیم کے خاتمہ کے ذریعے معیارِ تعلیم کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ خواتین کے لیے میٹرک تک لازمی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنہیں محفوظ ماحول میں حصولِ تعلیم کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی تعلیمی ترجیحات کا لازمی حصہ ہو۔شرح خواندگی میں اضافہ اور علمی، تیکنیکی میدانوں میں نئی منازل تک رسائی کے ذریعے ہم خطے کے دیگر ممالک سے آگے نکل سکتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ جی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ اور اِن شعبہ جات میں تحقیق و ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنے کی غرض سے وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو درکار ضروری مالی، تیکنیکی اور دیگر وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ سرکاری و نجی سطح پر تعلیمی اداروں میں قرآن و سنت کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے، نیز ملک بھر میں تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر طلبہ و طالبات کے لیے 50 نئی یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل کالج قائم کیے جائیں۔طلبہ و طالبات، بالخصوص غریب طبقات کے بچوں پر ناقابلِ برداشت تعلیمی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کے لیے خصوصی رعایتیں اور سہولیات فراہم کی جائیں۔ تعلیمی اداروں کو منشیات سے پاک اور دینی اخلاقی بنیادوں پر مبنی ماحول یقینی بنایا جائے تاکہ مادرِ علمی سے فارغ التحصیل ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے آج کے یہ نوجوان اعلیٰ و ارفع اخلاق کے حامل انسان بن کر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تعلیم کے کے لیے

پڑھیں:

ایتھوپیا: امدادی کٹوتیوں کے باعث لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کا سامنا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ایتھوپیا میں اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے لیے امدادی وسائل کی قلت کے نتیجے میں غذائی کمی کا شکار 650,000 خواتین اور بچوں کو ضروری غذائیت و علاج کی فراہمی بند ہو جائے گی۔

ملک میں ادارے کے ڈائریکٹر زلاٹن میلیسک کا کہنا ہے کہ اس کے پاس باقیماندہ وسائل سے ان لوگوں کو رواں ماہ کے آخر تک ہی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔

اگر ہنگامی بنیاد پر مدد نہ آئی تو ملک میں مجموعی طور پر 36 لاکھ لوگ 'ڈبلیو ایف پی' کی جانب سے مہیا کردہ خوراک اور غذائیت سے محروم ہو جائیں گے۔ Tweet URL

انہوں نے بتایا ہے کہ ملک میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

ان میں جنگ اور موسمی شدت کے باعث بے گھر ہونے والے 30 لاکھ لوگ بھی شامل ہیں۔بچوں میں بڑھوتری کے مسائل

ایتھوپیا میں 40 لاکھ سے زیادہ حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین اور چھوٹے بچوں کو غذائی قلت کا علاج درکار ہے۔ ملک میں بہت سی جگہوں پر بچوں میں بڑھوتری کے مسائل 15 فیصد کی ہنگامی حد سے تجاوز کر گئے ہیں۔ 'ڈبلیو ایف پی' نے رواں سال 20 لاکھ خواتین اور بچوں کو ضروری غذائی مدد پہنچانے کی منصوبہ بندی کی ہے لیکن اسے گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف سے بھی کم مقدار میں امدادی وسائل موصول ہوئے ہیں۔

زلاٹن میلیسک نے کہا ہے کہ ادارے کے پاس مقوی غذا کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں اسی لیے جب تک مدد نہیں پہنچتی اس وقت تک یہ پروگرام بند کرنا پڑے گا۔

امدادی خوراک میں کمی

'ڈبلیو ایف پی' نے رواں سال کے پہلے تین ماہ میں 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو غذائیت فراہم کی ہے۔ ان میں شدید غذائی قلت کا شکار 740,000 بچے اور حاملہ و دودھ پلانے والی خواتین بھی شامل ہیں۔

وسائل کی قلت کے باعث ادارے کی جانب سے لوگوں کو امدادی خوراک کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں 800,000 لوگوں کو فراہم کی جانے والی خوراک کی مقدار کم ہو کر 60 فیصد پر آ گئی ہے جبکہ بے گھر اور غذائی قلت کا سامنا کرنے والوں کی مدد میں 20 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔

شمالی علاقے امہارا میں مسلح گروہوں کے مابین لڑائی کی اطلاعات ہیں جہاں لوٹ مار اور تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔

ان حالات میں ادارے کے عملے کو لاحق تحفظ کے مسائل کی وجہ سے ضروری امداد کی فراہمی میں خلل آیا ہے۔22 کروڑ ڈالر کی ضرورت

اطلاعات کے مطابق، اورومیا میں بھی لڑائی جاری ہے جبکہ ٹیگرے میں تناؤ دوبارہ بڑھ رہا ہے جہاں 2020 سے 2022 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں تقریباً پانچ لاکھ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

'ڈبلیو ایف پی' امدادی وسائل کی کمی اور سلامتی کے مسائل کے باوجود ہر ماہ سکول کے 470,000 بچوں کو کھانا فراہم کر رہا ہے۔

ان میں 70 ہزار پناہ گزین بچے بھی شامل ہیں۔ ادارے نے خشک سالی سے متواتر متاثر ہونے والے علاقے اورومیا میں لوگوں کے روزگار کو تحفظ دینے کے اقدامات بھی کیے ہیں۔

ادارے کو ملک میں 72 لاکھ لوگوں کے لیے ستمبر تک اپنی امدادی کارروائیاں جاری رکھنے کی غرض سے 22 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لازمی لگوائیں: مریم نواز
  • پنجاب: تعلیمی اداروں میں داخلے کیلئے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم
  • تعلیمی اداروں میں داخلے سے قبل طلبہ کا تھیلیسیمیا سمیت جینیٹک امراض کا ٹیسٹ لازمی قرار
  • پنجاب؛ تعلیمی اداروں مع دینی مدارس میں داخلے کے وقت طلبا کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار
  • مدارس سمیت پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیٹک لازمی قرار
  • پی ایس ایل؛ میچ کے دوران اسکول ٹیچر کے پیپرز چیک کرنے کی ویڈیو وائرل
  • فیصل بینک کے اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ حبیب یونیورسٹی
  • غزہ میں 6 لاکھ سے زائد بچوں کو مستقل فالج کا خطرہ
  • ایتھوپیا: امدادی کٹوتیوں کے باعث لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کا سامنا