اسلام آباد:

ضلعی عدلیہ کے ججوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے لیے نامزد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے ساتھ ساتھ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر سمیت دیگر ہائی کورٹس سے آنے والے ججوں کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جبکہ 5 ججوں نے شرکت نہیں کی۔

اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ جانے والے دو ججوں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججوں نے بھی شرکت کی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیارٹی کے مسئلے پر پریزنٹیشن بھجوانے والے 5 جج شریک نہیں ہوئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے عشائیے سے خطاب میں کہا کہ ضلعی عدلیہ انصاف کی فراہمی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ضلعی عدلیہ سے بھی اس مرتبہ ایک جج کو ہائی کورٹ کا جج بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جو ہائی کورٹ کے جج کے لیے نامزد ہوئے لیکن بن نہ سکے ان کے لیے بھی مایوسی کی بات نہیں، اس سال اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے ریکارڈ کیسز نمٹائے، مجھے آپ کے کام پر فخر ہے، جن ججوں کی ترقی ہوئی ان کو مبارک باد اور جن کی ترقی نہیں ہوئی وہ بھی مایوس نہ ہوں، آپ بہترین کام کر رہے ہیں، آپ کا وقت بھی آئے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جج سائلین کو قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے لیے کام کر رہے ہیں، میں اس سفر میں سپریم کورٹ جا رہا ہوں مگر آپ لوگ میرے دل میں ہیں، میں دل کی گہرائیوں سے ضلعی عدلیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میرے دروازے بھی ہمیشہ آپ کے لیے کھلے رہیں گے۔

جسٹس سرفراز ڈوگرنے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے، آپ سبھی کسی بھی مسئلے کے لیے میرے پاس آسکتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹس کے ججوں کے 90 فیصد فیصلے ہائی کورٹ میں برقرار رہے، یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ضلعی عدلیہ کے ججز اچھا کام کر رہے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جیسا کہ جسٹس ڈوگر نے کہا میرے دروازے بھی ہمیشہ آپ کے لیے کھلے رہیں گے۔

تقریب کے اختتام پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا نے چیف جسٹس عامر فاروق اور سینئر ترین جج جسٹس سرفراز ڈوگر کو شیلڈ پیش کی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق ضلعی عدلیہ کے لیے

پڑھیں:

کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کے زیر التوا ہونے کے سبب ازخود چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد رک نہیں جاتا۔ 

اصول سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بھی واضح ہے کہ اپیل دائر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے، البتہ اگر عدالت چاہے تو کچھ شرائط کیساتھ یا حکم امتناع کے ذریعے چیلنج شدہ فیصلے پر عمل درآمد روکا جاسکتا ہے۔

یہ فیصلہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شکیل احمد اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل تین رکنی بنیچ نے چیف لینڈ کمشنر پنجاب بنام ایڈمنسٹریٹو اوقاف ڈیپارٹمنٹ بہاولپور کیس میں دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت یہ درخواستیں ان ریویژن آرڈرز سے متعلق ہیں جو لاہور ہائیکورٹ نے ایک دہائی قبل جاری کیے تھے، جن میں ریونیو حکام کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اس معاملے پر قانون کے مطابق دوبارہ فیصلہ کریں، ان واضح ہدایات کے باوجود، ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے کوئی کارروائی نہیں کی، جس کے نتیجے میں بلا جواز اور بلاوجہ کیس میں تاخیر ہوئی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس بات کی تصدیق کی کہ کسی بھی عدالت کی جانب سے کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا گیا تھا۔ اس اعتراف سے واضح ہوتا ہے کہ عملدرآمد میں ناکامی کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں تھا۔

سپریم کورٹ یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اس تشویشناک طرزعمل کو اجاگر کیا جائے جس میں ریمانڈ آرڈرز کو اختیاری سمجھا جاتا ہے یا انہیں غیر معینہ مدت تک معطل رکھا جاتا ہے،ریمانڈ کا مطلب تاخیر کا جواز فراہم کرنا نہیں ہوتا، جب اعلیٰ عدالتیں ریمانڈ کی ہدایات جاری کرتی ہیں تو ان پر مخلصانہ اور فوری عملدرآمد لازم ہوتا ہے، اس میں ناکامی تمام حکام پر آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

یہ صرف انفرادی غفلت نہیں بلکہ لازمی عدالتی احکامات سے مستقل انتظامی لاپرواہی کی علامت ہے، جو ایک نظامی ناکامی ہے اور جسے فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس معاملے پر غور کرنے کے لیے عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب کی ذاتی پیشی طلب کی تو انھوں نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ صوبائی سطح پر واضح اور جامع پالیسی ہدایات جاری کی جائیں گی، جن کے ذریعے تمام متعلقہ حکام کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ریمانڈ آرڈرز پر فوری اور بلا تاخیر عملدرآمد کریں۔

عملدرآمد کی نگرانی کی جائیگی اور ان کے دائرہ اختیار میں موجود تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی موجودہ صورتحال کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے گی۔ عدالت نے حکم دیا کہ صوبے میں تمام زیر التوا ریویژن مقدمات کی تازہ ترین صورتحال، اس حکم کے اجرا کے تین ماہ کے اندر اندر، اس عدالت کے رجسٹرار کو جمع کروائی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آبادہائیکورٹ نے توہین مذہب کے الزامات پرکمیشن تشکیل دینے کے فیصلے پر عملدرآمد روک دیا
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کی جانب سے قومی ٹیم کے اعزاز میں عشائیہ، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کی شرکت
  • روانڈا کی ہائی کمشنر کی چیئرمین سی ڈی اے سے ملاقات،دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بڑھانے پر تبادلہ خیال
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ: سی ڈی اے کی تحلیل کا حکم برقرار، فوری معطلی کی استدعا مسترد
  • نور مقدم کو قتل کیس: مجرم ظاہر جعفر نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی
  • اسلام آباد میں چینی مہنگی بیچنے والوں کے خلاف ضلعی انتظامیہ کا بھرپور ایکشن
  • روسی سپریم کورٹ کی چیف جسٹس 72 برس کی عمر میں چل بسیں
  • کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
  • افسوس ہے ایک اچھے جج کو رخصت کررہے ہیں: چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ