Express News:
2025-09-18@23:24:05 GMT

کیا ایک مضبوط نظام جمہوریت کے بغیر ممکن ہے ؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

کیا پاکستان کا گورننس سسٹم ایک مضبوط جمہوریت کے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے ؟یاآئین، قانون کے تابع انتظامی ڈھانچے کے بغیر ہم جمہوری ساکھ کو قائم کر سکتے ہیں۔تواس کا جواب نفی میں ملے گا۔کیونکہ آج کے جدید جمہوری تصورات میں جو دنیا بھر میں موجود ہیںاس میں ایک مضبوط ملک مضبوط اداروں کی بنا پر ہوتا ہے۔اگر ادارے مضبوط اور فعال نہیں تو جمہوریت کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے اور اس کا ایک نتیجہ ہمیں اداروں کے درمیان ایک ٹکراؤ کے ماحول کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے ۔جو بداعتمادی کی فضا کو پیدا کرتا ہے اور ایک کو دوسرے کے مقابلے پہ کھڑا کر دیتا ہے۔

آج جب دنیا بھر میں ریاستوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے یا ان کی کارکردگی صلاحیتوں کو جانچا جاتا ہے تو اس میں وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق یا آزادی اظہار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جب عالمی ادارے پسماندہ ممالک کے اداروں کی درجہ بندی کرتے ہیں تو وہ سماجی،انتظامی قانونی،معاشی اور انسانی وسائل کے معاملات میں بہت پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر ماضی میں بھی غیرممالک کی تنظیمیںکافی تنقید کرتی رہی ہیں اور یہ صورتحال اب بھی ہورہی ہے۔حکومت نے پیکا ایکٹ پاس کیا ہے، اس پر بھی صحافتی تنظیمیں احتجاج کررہی ہیں اور معاملہ عدالت میں جاچکا ہے۔ یہ کام ماضی میں بھی حکمران طبقات کرتے رہے ہیں اور آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو ماضی کے حکمران کرتے رہے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہم اپنے ریاستی اور حکمرانی کے نظام میں اپنے سیاسی مخالفین یا متبادل آوازوں کو سننے کے لیے تیار نہیں۔ایک جمہوری نظام میں ہر ادارے کا کردار واضح اور شفاف ہوتا ہے۔سب ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو جواب دہ بھی ہوتے ہیں۔آزاد عدلیہ کا تصور انتظامیہ کو قانون کے تابع بناتا ہے۔ریاستی اور حکمرانی کے نظام کے ٹکراؤ نے ایک بڑی سیاسی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اس سیاسی تقسیم نے بلا وجہ ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے ہی مقابلے پر بھی کھڑا کر دیا ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جس بنیاد پر ہم ریاستی نظام کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں یہ دنیا کے لیے قابل قبول نہیں۔دنیا میں اس ریاستی عمل یا نظام پر نہ صرف تنقید ہوگی بلکہ کئی سوالات بھی اٹھائے جائیں گے۔یہ سوالات صرف باہر کی دنیا سے نہیں اٹھیں گے بلکہ خود داخلی محاذ پر بھی لوگ سوال کریں گے کیونکہ لوگوں کواب یہ طبقاتی نظام قبول نہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہی ہے کہ ہم سیاسی اداروں کی مضبوطی کو پس پشت نہ ڈالیں اور سیاسی اداروں کو مضبوط کریں ۔

یہ جو ہمیں ملکی سطح پر سیاست،جمہوریت،آئین اور قانون کی حکمرانی یا گورننس یا سیکیورٹی یا دہشت گردی کے مسائل کا سامنا ہے تو اس کی وجہ بھی ریاست کے نظام میں موجود بہت سی خامیاں اور فکری سطح پر موجود بہت سے مغالطہ ہیں۔ اس وقت پاکستان میں عدلیہ، سیاست، جمہوریت، آئین،سول سوسائٹی اور میڈیا ایک جمہوری و قانونی راستہ کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ،لیکن ان کو کئی محاذوں پر مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔اس میں ان کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں لیکن پسماندہ سوچ نے راستے محدودکیے ہوئے ہیں۔

اس کا علاج اداروں کی سطح پر باہمی ٹکراؤ سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم سے جڑا ہونا چاہیے۔ سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ماضی اور حال میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیںاور اب ان غلطیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ اور سیاسی اداروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر ہم نے پارلیمنٹ کو محض ایک رسمی یا کاغذی کارروائی کی بنیاد پہ چلانا ہے تو پھر سیاسی نظام کسی بھی صورت میں ہم آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔پاکستان میں جمہوریت اور آئین و قانون کی حکمرانی یا عوامی مفادات کی جنگ کسی ایک مخصوص طبقہ نے نہیں لڑنی بلکہ یہ معاشرے میں موجود تمام انفرادی اوراجتماعی طبقہ کی جنگ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اداروں کی ہیں اور رہے ہیں

پڑھیں:

قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت

مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔

دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔

جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔

 سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔

 آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔

آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔

اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔

 ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔

قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects  یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور  'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔

ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اداریے کے بغیر اخبار؟
  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • کیمو تھراپی کے بغیر علاج، مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری
  • ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا پاک سعودی دفاعی معاہدے کا خیر مقدم
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر سینیٹ کمیٹیوں سے استعفے دے رہے ہیں، بیرسٹر علی ظفر