مولانا صاحب چن چن کر بدلے لے رہے ہیں، فیصل کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
پشاور (آن لائن) گورنرخیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے گھٹنوں میں بیٹھنے والوں کو ان کا مینڈیٹ واپس کرنا چاہیے۔پہلے ہی کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو میر جعفر اور میر صادق کا اندازہ ہوگا تو وزیراعلیٰ نہیں رہے گا۔ پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کہہ رہے ہیں کہ میرے حق پر ڈاکا ڈالا گیا۔ مولانا صاحب ان لوگوں سے چن چن کر بدلے لے رہے ہیں۔ مولانا کے گھٹنوں میں بیٹھنے والوں کو ان کا مینیڈیٹ واپس کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو میر جعفر اور میر صادق کا اندازہ ہوگا تو وزیراعلیٰ نہیں رہے گا۔ وزیراعلیٰ کا مشکور ہوں مجھے دیکھ کر منی آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد میں بلائی۔ جو پارٹی ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے آئی تھی پہلی فرصت میں 20 ہزار لوگوں کو نکال رہی ہے۔سرکاری ملازمین کو بتانا چاہتا ہوں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کشمیر کے سرحدی علاقوں میں زیر زمین بنکر دوبارہ فعال، لوگوں میں خوف
جعفر حسین لون کا کہنا ہے کہ چار برسوں بعد ہمیں دوبارہ بنکروں کی صفائی اور تیاری کرنا پڑی ہے، کیونکہ گولہ باری کا خوف ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پہلگام حملے کے بعد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب واقع کشمیر کے متعدد دیہات میں طویل عرصے کے بعد خوف اور بے چینی کی فضا لوٹ آئی ہے۔ وادی کشمیر میں کپوارہ ضلع کے حاجنار سمیت کئی سرحدی دیہات، جہاں جنگ بندی معاہدے کی وجہ معمولات زندگی بحال ہوچکی تھی، اب ایک بار پھر یہ علاقے خاموشی اور تشویش میں ڈوب گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے 22 اپریل کو وادی کشمیر کے معروف سیاحتی مقام پہلگام میں ہوئے دہشتگرد حملے کے بعد لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کے واقعات نے 2021ء کے جنگ بندی معاہدے سے قائم سکوت کو توڑ دیا۔ یاد رہے کہ پہلگام میں ہوئے حملے میں 25 سیاحوں اور ایک مقامی گھوڑے بان کی ہلاکت کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات محدود کر دئے ہیں، جن میں سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی معطلی، اٹاری-واہگہ سرحد کی بندش اور بھارت میں ویزا پر آئے پاکستانی شہریوں کو واپسی کا حکم شامل ہے۔
کشیدگی کے پیش نظر حاجنار کے جعفر حسین لون سمیت سرحد کے نزدیک رہائش پذیر باشندوں نے پرانے زیر زمین بنکر از سر نو فعال کر لئے ہیں اور اپنی نقل و حرکت محدود کر دی ہے۔ جعفر حسین لون کا کہنا ہے کہ چار برسوں بعد ہمیں دوبارہ بنکروں کی صفائی اور تیاری کرنا پڑی ہے، کیونکہ گولہ باری کا خوف ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ سرحدی علاقوں میں ہزاروں بنکر بھارتی حکومت نے مقامی آبادی کے تحفظ کے لئے تعمیر کئے تھے، جنہیں بعد میں لوگ سامان ذخیرہ کرنے کے لئے استعمال کرنے لگے تھے۔ تاہم اب ایک بار پھر انہیں پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
ایک اور سرحدی علاقہ، کرناہ، کے بٹپورہ گاؤں کے راجا عبد الحمید خان کے مطابق فصلوں کی بوائی اور مویشی چرانے جیسی سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔ جبکہ ضلع بانڈی پورہ کی وادی گریز، جو حالیہ برسوں میں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی، میں بھی خوف اور خاموشی چھا گئی ہے۔ بارنائی نامی ایک گاؤں کے سابق سرپنچ احمد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ہم نے جنگلات میں جانا اور لکڑیاں اکٹھی کرنا بند کر دیا ہے اور اب سیاحتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔