WE News:
2025-07-26@07:11:57 GMT

ریڈیو چھوٹی سی دنیا، کبھی گھر بھر کا لاڈلہ ہوتا تھا

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

ریڈیو چھوٹی سی دنیا، کبھی گھر بھر کا لاڈلہ ہوتا تھا

ریڈیو کی قدر و منزلت کوئی اُن سے پوچھے جن کے لیے کسی زمانے میں یہ ’کُل کائنات‘ رہی ہے۔ دورِحاضر میں تو گاڑیوں میں لگے ایف ایم کو سرفنگ کرتے ہوئے نوجوان نسل یہ جان نہیں پائے گی کہ کسی دور میں یہ ریڈیو گھر بھر کا ’لاڈلہ‘ ہوتا تھا۔ جس کے ناز نخرے اٹھانے کے لیے ہر کوئی تیار رہتا۔ مہمان خانے میں انتہائی احترام کے ساتھ ریڈیو کی آرام گاہ ہوتی۔

سلیقہ مند خواتین ریڈیو کے لیے خصوصی طور پر خوبصورت اور حسین کپڑے کا کور تیار کرتیں جس پر کشیدہ کاری بھی ایسی ہوتی جو ریڈیوکی ظاہری شکل وصورت کو اور متاثر کن بناتی۔ اگر ریڈیو سننا مقصود نہ ہوتا تو وہ چلمن میں چھپا ہی رہتا۔ ہم جیسوں کے لیے ایک وقت تک ریڈیو کے صرف 2 ہی میڈیم شارٹ ویو اور میڈیم ویو ہوتے لیکن پھر ریڈیو کے خاندانی رکن ایف ایم سے بھی نشریات شروع ہوئیں۔

ریڈیو باکس کے 2بڑے سے لٹو نما پلگ ہوتے جن میں سے ایک سے آواز تیز ہوتی تو دوسرے سے چینل کا انتخاب، اب ان لٹوؤں کو گھمانے کا بھی اپنا ہی الگ مزہ اور لطف تھا۔ نشریات واضح نہ ہوتی تو انٹینا کی لمبائی میں کمی بیشی کی جاتی رہی  یا پھر سوئی کو لٹو سے آگے پیچھے زحمت دی جاتی۔

اب پاکستان ہو یا بھارت اسی ریڈیو کے سامنے ہیرو یا ہیرؤئن لہک لہک کر گنگنانے کا بھی کام بھی انجام دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ کئی فلموں میں اسی ریڈیو سے ہیرؤئن کا محبوب براہ راست ان کے دل کے آنگن میں اپنی محبت کے پھول کھلا رہا ہوتا۔

ایک زمانہ  وہ بھی تھا جب ریڈیو ٹی وی سیٹ کے برابر ہوتے پھر ان کے سائز میں تبدیلی آتی رہی۔ ٹیپ ریکارڈرکے بھی ہم سفر بنے، اور ایسا بھی ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے بڑے سائز کے ریڈیوعام ہونے لگے۔ بالخصوص ٹرانسیٹر کے سائز کی کوئی حد نہ ہوتی۔ تصور کریں کہ کیسا خوش کن اور حسین لمحہ ہوتا جب ریڈیو کو آن کیا جاتا تو سماعت پر یہ دلکش آواز ٹکراتی ’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے پہلے یہ ریڈیو ہی تھا جو تفریح طبع کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ محدود ہونے اور پی ٹی وی پر سرکاری اثرو رسوخ کے باعث جب خبر کی تلاش ہوتی تو بیشتر سامعین کا مستند اور قابل اعتماد ذرائع بی بی سی اردو کی نشریات ہوتی جس کے پروگرام ’سیربین‘ کے ذریعے ملکی حالات کے بارے میں علم ہوتا ورنہ پی ٹی وی تو گوشت کے  ناغے والے دن  کی فوٹیج چلا کر یہی دعویٰ کرتا کہ  کاروبار کھلے رہے اور اپوزیشن کی ہڑتال ناکام ہوگئی۔

بی بی سی کے  شفیع نقی جامعی اور علی رضا عابدی ’ہاؤس ہولڈ نیم‘ رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ریڈیو پاکستان نے اس عرصے میں اپنا مقام نہ بنایا ہو اس کے مختلف اور متنوع پروگرام ہر ایک کے پسندیدہ ہوتے۔ ان میں بزم طلبہ ہو، یا پھر حامد میاں کے ہاں یا پھر منی باجی یہ بالکل ایسے ہی مشہور تھے جیسے آج کل مختلف ٹی وی چینلز کے ڈرامے یا پروگرام۔

ریڈیو کی افادیت ان دنوں اور زیادہ بڑھ جاتی جب کوئی کرکٹ یا ہاکی کا مقابلہ ہوتا۔ جو ٹی وی پر میچ نہیں دیکھ پاتے یا پھر ٹی وی کی جن ممالک میں نشریات دکھانے کی پہنچ نہ ہوتی تو ایسے میں اکلوتا سہارہ ریڈیو ہی ہوتا۔ منیر حسین، حسن جلیل، عمر قریشی، افتخار احمد یا چشتی مجاہد یا محمد ادریس  کرکٹ کی صورتحال پر ایسی منظر کشی کرتے کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کےسامنے ہورہا ہے۔

ان کمنٹیٹرز کی انگلش اور اردو میں کمنٹری ایسی شاندار ہوتی کہ دل چاہتا کہ بس یہ لوگ خاموش نہ ہوں، خیر آج کل تو ٹی وی پر اردو کی کمنٹری سن کر سر پیٹنےکو دل چاہتا ہے کہ شور شرابا زیادہ اور کچھ نہیں۔ دلچسپ صورتحال اس وقت ہوتی جب راہ چلتے کوئی بھی رک کر یہ ضرور پوچھتا کہ اسکور کیا ہوا ہے؟ اور یہ سوال تواتر کے ساتھ دریافت کیا جاتا رہتا لیکن آفرین ہے کمنٹری سننے والے پر جوکسی کے سوال پر ناک بھنویں نہ چڑھاتا بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ  ہر ایک کے لیے اُس وقت ’کرک انفو‘ کی خدمات انجام دیتا۔

جس کے بعد اسکور پوچھنے والا اپنا ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا۔ کرکٹ کی طرح ہاکی کے کمنٹیٹرز بھی اپنی خوبصورت اور شائستہ  کمنٹری کی وجہ سے منفرد اور اچھوتی پہچان رکھتے۔ چاہے وہ ایس ایم نقی ہوں یا پھرذاکر حسین سید، اقبال ہاشمی، مظاہر باری یا پھر فاروق مظہر۔

کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے روز رات 10بجے کے قریب نشر ہونے والے ’عالمی اسپورٹس راؤنڈ‘ میں خصوصی دلچسپی ہوتی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی کھیل ہو اس شو کے ذریعے بھرپور معلومات مل جاتی۔ اس شو کبھی عظیم سرور تو کبھی سید محمد نقی پیش کرتے۔ درحقیقت اسی شو میں مختلف رپورٹس پیش کرنے والی بیشتر شخصیات، دورحاضر کے کامیاب اسپورٹس رپورٹرز اور کچھ پروگرام اینکرز بھی بن چکے ہیں۔

پھر کیسے بھول سکتے ہیں آپ ریڈیو پروگرام کا  ’یہ بچہ کس کا‘؟ کو جس کے ذریعے والدین اور اپنوں سے بچھڑے بچوں کی معلومات اور پھر ان کی گفتگو نشر کی جاتی جس کا مقصد اس بچے کو اس کے گھر تک پہچانا ہوتا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں ریڈیو کے صداکاروں کو خاص اہمیت دی جاتی کیونکہ انہیں جہاں تلفظ کی آگہی ہوتی وہیں انہیں مکالمات کی ادائیگی کے لیے جذبات اور احساسات کے اظہار کا ہنر آتا۔

ہماری اردو کی ٹیچر تو بطور خاص یہ ہدایت دیتیں کہ تلفظ اور ادائیگی کو بہتر بنانا ہے تو ریڈیو ضرور سنا کریں۔ زمانہ  تو وہ بھی تھا جب پاکستان میں آل انڈیا ریڈیو کی نشریات ’کیچ‘ ہوتی اور دن کے 3اوقات میں فرمائشی گیت نشر ہوتے۔ ایک گانے کو سننے کے لیے پتا نہیں کہاں کہاں سے فرمائش آتی۔ لتا، آشا، کشور، رفیع یا پھر محمد عزیز کے گانے سنائے جاتے۔

کیونکہ ذرائع انتہائی محدود تھے تو پاکستانی پرستاروں کے لیے یہ گانے خاصی کشش رکھتے۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی آل انڈیا ریڈیوسروس  سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا بھی کیا جاتا جس کا بھرپور اور  منہ توڑ جواب ریڈیو پاکستان کمال خوبی سے دیتا۔

اور پھر ٹیکنالوجی نے کروٹ بدلی تو 90کی دہائی کے کچھ سال بعد پاکستان میں ایف ایم چینل کا آغاز ہوا۔ ریڈیو کے ان آر جےز کا ماڈرن اور بے تکلف انداز سننے والوں کے کانوں کو بھلا لگا۔ ایسے میں ان کی مدھر، مترنم اور دل کش آواز کو سن سن کر ہر سامع نے مختلف آر جے کا تصوراتی خاکہ بھی بنالیا۔

جب پاکستان کے پہلے ایف ایم چینل نے اپنا جریدہ نکال کراپنے آر جے کے انٹرویوز شائع کیے تو کئی سامعین نے ان میں سے کئی کو دیکھ کر اپنے تصوراتی خاکے پر مایوسی ظاہر کی۔ اس وقت درجنوں ایف ایم چینلز ہیں ہر زبان اور ہر انداز کے، جنہیں پسند کرنے والوں کا الگ الگ اپنا حلقہ ہے۔ کہاں کسی زمانے میں جب ریڈیو سے مخصوص اوقات میں نشریات آتی تھی اب 24 گھنٹے ایف ایم ریڈیو کام کررہے ہیں۔

ہمیں تو یاد نہیں کہ ہم نے کب شارٹ ویو یا میڈیم ویو پر کچھ سناہو۔ خیر اب گاؤں دیہات میں کوئی چارپائیاں ڈال کر ریڈیو تو نہیں سن رہا ہوتا کیونکہ اسمارٹ فون کے ذریعے تو اب بصری سہولت جو مل رہی ہے۔ بہرحال آنکھیں اور  کان بس ترس ہی گئے ہیں یہ منظر دیکھنے اور سننے کو جب کوئی کانوں پر چھوٹا سا ٹرانسیٹر لگا کر جارہا ہو اور راہ گیر روک کر پوچھے ’ہاں بھئی اسکور کیا ہوا ہے؟‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریڈیو کے ریڈیو کی کے ذریعے ایف ایم ہوتی تو نہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

ہیپاٹائٹس سے بچاؤ

(کراچی)

صحت اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جس کی حفاظت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ یہ ایک امانت ہے جس میں خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے ( بخاری )۔ مزید فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں (جن کی ناقدری کر کے ) اکثر لوگ نقصان میں رہتے ہیں صحت اور فراغت (بخاری )۔ یوں توانسانی جسم کو لاتعداد بیماریاں لاحق ہوتی ہیں لیکن اسی تناظر میں ہیپاٹائٹس جیسی خاموش مگر مہلک بیماری سے آگاہی اور بچاؤ نہایت ضروری ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس بی یا سی کا شکار ہیں اور ہر سال تقریباً ڈیڑھ لاکھ نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ زیادہ تر افراد میں یہ بیماری دوران علاج بے خبری میں منتقل ہوتی ہے۔ اسے خاموش قاتل اس لیے کہا جاتا ہے کہ بیشتر مریض برسوں تک تشخیص اور علاج کے بنا رہتے ہیں اور آخرکار پیچیدگیوں کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس بیماری کا 80 فیصد بوجھ پاکستان اور مصر پر ہے۔

ہیپاٹائٹس، جگرکی سوزش کو کہا جاتا ہے۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ عام طور پر ہیپاٹائٹس اے، ای، کھانے کے ذریعے اور ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی، جلد، خون اور رطوبتوں کے ذریعے لاحق ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ دوسرے عوامل بھی ہیپاٹائٹس یا جگر کی سوزش کی وجہ بن سکتے ہیں جن میں کچھ دوسرے وائرس CMV,EBV ، دیگر جرثومے اور کیڑے، الکوحل، کیمیکلز ، دواؤں میں بہت زیادہ مقدار میں پیراسٹامول، ٹی بی اور مرگی کی کچھ دوائیں، ایڈز کی دوا، منع حمل دوائیں، کچھ اینٹی بائیوٹکس، جگر پر چکنائی، autoimmune اور metabolic جینیاتی وجوہات، جگر کی نالیوں کی پیدائشی خرابی اور خون کی فراہمی اچانک کم ہونا شامل ہے۔

کم مدتی ہیپاٹائٹس (Acute Hepatitis) کیسے ہوتا ہے؟

کم مدتی ہیپا ٹائٹس عموما ہیپاٹائٹس اے سے ہوتا ہے۔ مریض کو پیٹ میں اوپر درد ہوتا ہے، الٹی یا متلی رہتی ہے۔ تھکن بہت زیادہ ہوتی ہے، آنکھیں پیلی ہو جاتی ہیں ، پیشاب پیلا آتا ہے، بخار بھی ہو سکتا ہے۔

l تقریباً ایک مہینے میں مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔

l کم مدتی یرقان ہیپا ٹائٹس بی اور سی میں بھی ہو سکتا ہے اور تین چار مہینے میں ٹھیک ہو سکتا ہے۔

l  ہیپاٹائٹس بی کے تقریباً ۹۵ فیصد کیسز میں (جن میں زچگی کے سواخون یا جلد سے ہوا ہو )

l  ہیپا ٹائٹس سی کے ۱۰ فیصد کیسز میں۔

کیا کم مدتی ہیپاٹائٹس بگڑ سکتا ہے؟

عموماً یہ چند ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھار، بہت کم ایسا بھی ہوتا ہے کہ fulminant hepatitis ہو جاتا ہے۔ اس میں جگر کا کام شدید متاثر ہونے سے

l  مریض کے خون کے جمنے میں مسئلہ ہو جاتا ہے اور کہیں سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے،

l  یا غنودگی طاری ہو کر مریض بیہوش ہو جاتا ہے۔

Fulminate Hepatitis کا امکان اس وقت ہوتا ہے جب:

l  ہیپا ٹائٹس بی کے ساتھ ہیپاٹائٹس ڈی ہو جائے،

l   حمل کے دوران ہیپا ٹائٹس ای ہو جائے

l  دواؤں سے ہیپا ٹائٹس ہو،

l  یا autoimmune hepatitis ہو۔

l  حمل کے دوران ہیپاٹائٹس ای ہونے سے ماں کی زندگی کو خطرہ، اسقاط حمل ، وقت سے پہلے ولادت، یا بچے کا کم وزن ہو سکتا ہے۔

طویل مدتی یا chronic

 ہیپا ٹائٹس کیسے

ہوتا ہے؟

یرقان چھ مہینے سے زیادہ رہے تو اسے chronic hepatitis کہتے ہیں۔ یا اس مریض کو حامل مرض (carrier) کہتے ہیں۔ یہ بغیر علامت کے بھی ہو سکتا ہے، پیچیدہ بھی ہو سکتا ہے اور دوسروں کو منتقل بھی ہو سکتا ہے۔

l  ہیپاٹائٹس بی اور سی سے جو جگر کی سوزش ہوتی ہے، وہ چھ مہینے سے زیادہ رہ سکتی ہے۔

l  عرف عام میں اسے کالا یرقان کہتے ہیں۔

l  ہیپا ٹائٹس ڈی ان لوگوں کو ہوتا ہے جنہیں پیپاٹائٹس بی ہوتا ہے۔

طویل مدتی ہیپا ٹائٹس کیوں زیادہ خطرناک ہے؟ اس سے کیا پیچیدگی ہوسکتی ہے؟

اس میں جگر سکڑ جاتا ہے (cirrhosis)

Cirrhosis یا جگر سکڑنے میں کیا ہوتا ہے؟ یہ کتنے مریضوں کو اور کب ہوتا ہے؟

Cirrhosis یا جگر سکڑنے میں جگر کا کام ختم ہونے لگتا ہے۔ یہ ہیپا ٹائٹس سی کے کرونک کیسز کے ۳۰ فیصد مریضوں میں ہو جاتا ہے۔ اور یہ ہونے میں بیس سے تیس سال کا عرصہ لگتا ہے۔ اس عمل کو بدلا نہیں جا سکتا۔ لیکن اسی حد پر روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

جگر سکڑنے یا cirrhosis

سے جگر کا کام متاثر ہونے

کی علامات کیا ہیں؟

خواتین میں ایام بے قاعدہ ہونا اور چہرے پہ بال آنا ،مردو خواتین میں تلی بڑھنا، پیٹ میں پانی بھرنا، خون کی الٹی ہونا، قبض کے ساتھ کالا خون آنا، یرقان والی علامات ہونا، گردے متاثر ہونا جسم پر سوجن آنا ، سانس سے بو آنا، ہتھیلی کا سرخ ہونا، ہاتھوں میں کپکپی اور غنودگی ہونا۔ ایسے مریضوں کو جگر کا سرطان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

Cirrhosis کے مریض کو کیا احتیاطیں کرنا چاہئیں؟

قبض نہ ہونے دیں اور ہو تو اس کی دوا لے لیں۔ جو علامات اوپر دی ہیں، ان میں سے کوئی شروع ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر سے تفصیلی معائنہ کرا کے ضروری چیز یں مثلاً انڈوسکوپی وغیرہ کرالیں۔ سگریٹ نوشی سے بچیں۔ اس سے جگر کے کینسر کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔

پیلیا یا یرقان

پیلیا یا یرقان ایک علامت ہے جس میں آنکھیں اور پیشاب پیلے ہو جاتے ہیں۔ یہ ہیپا ٹائٹس یعنی جگر کی بیماری میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خون کی کچھ حالتوں اور جگر کی رطوبت میں رکاوٹ کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً پیدائشی پیلیا ہیپا ٹائٹس کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ یہ متعدی بیماری نہیں ہے اور کچھ دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔

کیا وائرل ہیپاٹائٹس

کے لیے حفاظتی ٹیکوں

کا فائدہ ہے؟

l  ہیپاٹائٹس اے، بی کے حفاظتی ٹیکے یا ویکسین موجود ہے۔

l  ہیپاٹائٹس بی کے ٹیکوں کا کورس کر لیں تو زندگی بھر کے لیے بچاؤ کا امکان ہے۔

ہیپا ٹائٹس اے اور

ای سے کیسے بچیں؟

ہیپا ٹائٹس اے اور ای کھانے کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اس لیے :

l  صاف پانی پییں۔

l  سبزیاں، پھل دھو کر استعمال کریں۔

l  ٹھیلے والوں کی کٹی ہوئی چیزوں کو دھوکر خود مسالہ لگا لیں۔ یا اپنے سامنے دھلوائیں۔

l  کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئیں اور پھر کھانے کے سوا کسی چیز کو نہ لگائیں۔

l  رفع حاجت کے بعد ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ اور بچوں کو عادت ڈلوائیں۔

ہیپا ٹائٹس بی، سی

سے کیسے بچیں؟

یہ وائرس خون ، رطوبتوں، جنسی عمل کے ذریعے اور حمل و زچگی کے دوران ماں سے بچے میں داخل ہوتے ہیں۔ اس لیے :

l  انجکشن لگوانے سے پہلے اطمینان کرلیں کہ سرنج پہلے سے استعمال شدہ نہیں۔

l  صرف بہت ضروری انجکشن یا ڈرپ لگوائیں اورطبی عملہ سے بات کر کے جہاں انجکشن یا ڈرپ کے بغیر علاج ہوسکتا ہو ، وہ کروائیں۔

l  شیو خواہ خود کریں یا حجام سے کروائیں، بلیڈ یاریز رنیا ہونا چاہیے۔

l  ڈاکٹر یا کسی سے دانتوں کی صفائی کروائیں تو اوزاروں کی صفائی کا اطمینان کر لیں۔ اسی طرح ختنہ اور دیگر سرجری کے لیے مستند عملہ سے رجوع کریں اور اوزار کے متعلق اپنا اطمینان بھی کریں۔

l  زچگی، ڈائلسز ، انڈوسکوپی، حجامہ اور آکوپنکچر کے آلات کی صفائی کے متعلق بھی طبی عملے سے اطمینان کرلیں۔

l  مینی کیور، پیڈی کیور، جلد پر استعمال ہونے والے بیوٹی پارلرز اور سیلونز کے دیگر آلات، ناک کان چھیدنے اور الیکٹرولس (Electrolysis) والے آلات کے متعلق بھی معلوم کریں کہ وہ جراثیم سے پاک ہوں۔

l  خون لگوانے کی ضرورت پیش آئے تو بلڈ بینک سے تصدیق شدہ خون کو یقینی بنائیں۔

l  جن افراد کو یہ بیماری ہے، ان کا کنگھا اور ناخن تراش نہ استعمال کریں۔

l  ہیروئن اور دیگر نشے سوئی کے ذریعے لیے جاتے ہیں۔ نشہ باز ایک ہی سوئی استعمال کرتے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے (مسلم ) اس لیے نشوں سے ویسے بھی بچنا چاہیے اور اس طرح سے ہیپا ٹائٹس بی اورسی اور دیگر بیماریوں کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

l  جسم کے کسی حصے پر نام یانقش نہ کھدوائیں یا Tattoos نہ بنوائیں۔ نبی کریم ﷺ نے جسم پر گودنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری ) اور اللہ تعالیٰ نے گدوانے والے پر لعنت کی ہے ( بخاری )۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت سے بچنے کے لیے اس عمل سے رکیں۔ اس سے ہیپا ٹائٹس بی اور سی سے بچاؤ بھی ہوتا ہے۔

l  شریک حیات میں سے کسی کو ہیپاٹائٹس بی یاسی ہے تو معالج سے مشورے لے لیں۔ اپنے آپ کو عقد نکاح کے اندر تعلق تک محدود رکھیں۔ یہ گناہ سے بچاؤ کے ساتھ صحت کے لیے بھی بہترین ہے۔

l  ہم جنس پرستی، متعدد افراد سے جنسی تعلقات اور سیکس ورک ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ جنسی بے راہ روی سے بچیں۔ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو (سورہ بنی اسرائیل ۳۲) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عقد نکاح کے اندر رہنے، ہم جنسیت سے بچنے ،عورتوں کے ساتھ بھی غیر فطری عمل اور ماہواری کے دوران جنسی عمل سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ان سارے افعال سے ہیپا ٹائٹس اور ایڈز کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ ناجائز، غیر فطری اور گندے طریقوں کے بجائے فطری اور طیب طریقے اختیار کریں۔

l  اپنا ٹوتھ برش الگ رکھیں۔

l  کوئی کٹ یا زخم ہو جائے تو اس کی صفائی کا اہتمام کریں اور اسے ڈھک کر رکھیں۔ خصوصا اگر کسی چیز سے انفیکشن لگنے کا امکان ہو۔

l  جن افراد کے ساتھ ان میں سے کوئی بے احتیاطی ہوئی ہے یا خطرے کا امکان ہے، انہیں ڈاکٹر سے پوچھ کر اپنے ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹ کرانا چاہئیں۔ خصوصاً دوران حمل کسی جراحت سے پہلے، جن مریضوں کا ڈائلسز ہوتا ہو، یا بار بارخون چڑھتا ہو، طبی اور نیم طبی عملہ کے افراد کو ٹیسٹ کرانا چاہئیں۔

l  گھر کے کسی فرد کو یہ بیماری ہے تو باقی افراد اپنے ٹیسٹ کرا کے اسکریننگ کروائیں اور پھر ڈاکٹر کے مشورے سے حفاظتی ٹیکے یا علاج کا اہتمام کریں۔

اگر ہیپا ٹائٹس بی یا سی ٹیسٹ میں مثبت

آجائے تو کیا کریں؟

l  مستند ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ان کے علاج موجود ہیں۔

l  پاکستان میں ضلع اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹ اور علاج کی سہولت موجود ہے۔

l  اس کے علاوہ بھی ایسے ادارے موجود ہیں جو ہیپا ٹائٹس کا مفت علاج کرتے ہیں۔

جن افراد کو وائرل

ہیپا ٹائٹس بی اور سی ہے، وہ کیا احتیاطیں کریں؟

l  وہ خون نہ دیں۔ کہیں زخم لگ جائے یا خون نکلے توکسی کو لگنے نہ دیں اور صاف کرلیں۔

l  اپناریزر، بلیڈ ، بالیاں، برش ، تولیہ دوسروں کو نہ دیں۔

l  اپنے تمام ڈاکٹرز، خصوصا سرجن، دانتوں کے یا جلد کے ڈاکٹر کو اپنے مرض سے آگاہ کریں۔

l  اپنی بیماری کا کارڈ اپنے ساتھ رکھیں۔

l  ہیپا ٹائٹس سی والی ماں تشخیص کے بعد علاج کے چھ ماہ مکمل ہونے تک حمل مؤخر کر دے۔

l  ہیپا ٹائٹس اے والے مریض یرقان ظاہر ہونے کے 3 ہفتے بعد تک دوسروں کے لیے کھانا نہ بنائیں۔

وائرل ہیپا ٹائٹس کے ساتھ رہنے والے کیا رویہ رکھیں؟

کیا ایسے مریضوں سے دور رہیں؟

l  مریض سے نفرت نہ کریں۔ ان کو الگ نہ کریں۔

l  عام انسانوں کی طرح میل جول رکھیں۔

l  ان کے ساتھ رہنے اور کھانے پینے میں ہرج نہیں ہے۔

l  ہیپا ٹائٹس والی ماں اپنے بچے کو دودھ پلاسکتی ہے۔ لیکن نپل پر زخم کا خیال رکھیں۔

الکوحل یا شراب سے ہیپا ٹائٹس کا کتنا خطرہ ہے؟

الکوحل بھی ہیپا ٹائٹس کی بہت بڑی وجہ ہے۔ جن ممالک میں ان وائرس کو روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، ان میں ہیپاٹائٹس کی اہم وجہ الکوحل ہے۔ ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور خمر حرام ہے (حدیث نبوی۔ مسلم ) ایک مومن کو اپنی جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور ان دونوں وجوہات سے الکوحل سے بچنا چاہیے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق اس کا ایک قطرہ بھی نہیں لینا چاہیے۔

جگر پر چکنائی کی وجہ سے جو ہیپاٹائٹس ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

l  رسول اللہ ﷺکی ہدایت کے مطابق بسیار خوری سے بچیں۔ معدے کے صرف ایک تہائی کو کھانے سے بھریں۔

l  دن میں بار بار نہ کھائیں۔

l  بہت مرغن اور تلی ہوئی چیزیں کم کر دیں۔

l  اسلام کومحنتی اور جفاکش لوگ پسند ہیں جو مشکل برداشت کر سکیں۔ تن آسانی اور عیش کوشی سے بچیں۔ جسمانی محنت والے کام کریں۔

l  اپنے وزن کو معیار پر لانے کے لیے ڈیڈ لائن بنا ئیں۔ اور قوت ارادی کو مضبوط رکھیں۔

حجام، بیوٹی پارلرز، سیلونز والوں ، جلد پر کوئی کام کرنے والوں ختنہ یا چھوٹی جراحت کرنے والوں کے لیے پیغام

l  اپنے اوزارو آلات کی صفائی کا خیال رکھیں۔

l  انہیں جراثیم سے پاک رکھیں۔

l  جہاں نئے آلات استعمال کرنا ہوں، وہ کریں۔

l  دوسروں کو نقصان پہنچانے کے گناہ سے بچیں۔ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق دوسروں کے لیے وہ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔   n

متعلقہ مضامین

  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • حکومت کو پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا کوئی خوف نہیں، سینیٹر عرفان صدیقی
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے: عطا تارڑ
  • کونسے اہم کردار اب ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘ ڈرامے میں نظر نہیں آئیں گے؟
  • دہشتگردی صرف پاکستان کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے، عطا تارڑ
  • سیاسی رہنما  غلام مرتضیٰ کاظم نے 50سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرلیا
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ہیپاٹائٹس سے بچاؤ
  • چین میں 32 ویں بین الاقوامی ریڈیو، فلم اور ٹیلی ویژن نمائش بی آئی آر ٹی وی 2025 کا آغاز