WE News:
2025-04-25@03:01:26 GMT

ریڈیو چھوٹی سی دنیا، کبھی گھر بھر کا لاڈلہ ہوتا تھا

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

ریڈیو چھوٹی سی دنیا، کبھی گھر بھر کا لاڈلہ ہوتا تھا

ریڈیو کی قدر و منزلت کوئی اُن سے پوچھے جن کے لیے کسی زمانے میں یہ ’کُل کائنات‘ رہی ہے۔ دورِحاضر میں تو گاڑیوں میں لگے ایف ایم کو سرفنگ کرتے ہوئے نوجوان نسل یہ جان نہیں پائے گی کہ کسی دور میں یہ ریڈیو گھر بھر کا ’لاڈلہ‘ ہوتا تھا۔ جس کے ناز نخرے اٹھانے کے لیے ہر کوئی تیار رہتا۔ مہمان خانے میں انتہائی احترام کے ساتھ ریڈیو کی آرام گاہ ہوتی۔

سلیقہ مند خواتین ریڈیو کے لیے خصوصی طور پر خوبصورت اور حسین کپڑے کا کور تیار کرتیں جس پر کشیدہ کاری بھی ایسی ہوتی جو ریڈیوکی ظاہری شکل وصورت کو اور متاثر کن بناتی۔ اگر ریڈیو سننا مقصود نہ ہوتا تو وہ چلمن میں چھپا ہی رہتا۔ ہم جیسوں کے لیے ایک وقت تک ریڈیو کے صرف 2 ہی میڈیم شارٹ ویو اور میڈیم ویو ہوتے لیکن پھر ریڈیو کے خاندانی رکن ایف ایم سے بھی نشریات شروع ہوئیں۔

ریڈیو باکس کے 2بڑے سے لٹو نما پلگ ہوتے جن میں سے ایک سے آواز تیز ہوتی تو دوسرے سے چینل کا انتخاب، اب ان لٹوؤں کو گھمانے کا بھی اپنا ہی الگ مزہ اور لطف تھا۔ نشریات واضح نہ ہوتی تو انٹینا کی لمبائی میں کمی بیشی کی جاتی رہی  یا پھر سوئی کو لٹو سے آگے پیچھے زحمت دی جاتی۔

اب پاکستان ہو یا بھارت اسی ریڈیو کے سامنے ہیرو یا ہیرؤئن لہک لہک کر گنگنانے کا بھی کام بھی انجام دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ کئی فلموں میں اسی ریڈیو سے ہیرؤئن کا محبوب براہ راست ان کے دل کے آنگن میں اپنی محبت کے پھول کھلا رہا ہوتا۔

ایک زمانہ  وہ بھی تھا جب ریڈیو ٹی وی سیٹ کے برابر ہوتے پھر ان کے سائز میں تبدیلی آتی رہی۔ ٹیپ ریکارڈرکے بھی ہم سفر بنے، اور ایسا بھی ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے بڑے سائز کے ریڈیوعام ہونے لگے۔ بالخصوص ٹرانسیٹر کے سائز کی کوئی حد نہ ہوتی۔ تصور کریں کہ کیسا خوش کن اور حسین لمحہ ہوتا جب ریڈیو کو آن کیا جاتا تو سماعت پر یہ دلکش آواز ٹکراتی ’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے پہلے یہ ریڈیو ہی تھا جو تفریح طبع کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ محدود ہونے اور پی ٹی وی پر سرکاری اثرو رسوخ کے باعث جب خبر کی تلاش ہوتی تو بیشتر سامعین کا مستند اور قابل اعتماد ذرائع بی بی سی اردو کی نشریات ہوتی جس کے پروگرام ’سیربین‘ کے ذریعے ملکی حالات کے بارے میں علم ہوتا ورنہ پی ٹی وی تو گوشت کے  ناغے والے دن  کی فوٹیج چلا کر یہی دعویٰ کرتا کہ  کاروبار کھلے رہے اور اپوزیشن کی ہڑتال ناکام ہوگئی۔

بی بی سی کے  شفیع نقی جامعی اور علی رضا عابدی ’ہاؤس ہولڈ نیم‘ رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ریڈیو پاکستان نے اس عرصے میں اپنا مقام نہ بنایا ہو اس کے مختلف اور متنوع پروگرام ہر ایک کے پسندیدہ ہوتے۔ ان میں بزم طلبہ ہو، یا پھر حامد میاں کے ہاں یا پھر منی باجی یہ بالکل ایسے ہی مشہور تھے جیسے آج کل مختلف ٹی وی چینلز کے ڈرامے یا پروگرام۔

ریڈیو کی افادیت ان دنوں اور زیادہ بڑھ جاتی جب کوئی کرکٹ یا ہاکی کا مقابلہ ہوتا۔ جو ٹی وی پر میچ نہیں دیکھ پاتے یا پھر ٹی وی کی جن ممالک میں نشریات دکھانے کی پہنچ نہ ہوتی تو ایسے میں اکلوتا سہارہ ریڈیو ہی ہوتا۔ منیر حسین، حسن جلیل، عمر قریشی، افتخار احمد یا چشتی مجاہد یا محمد ادریس  کرکٹ کی صورتحال پر ایسی منظر کشی کرتے کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کےسامنے ہورہا ہے۔

ان کمنٹیٹرز کی انگلش اور اردو میں کمنٹری ایسی شاندار ہوتی کہ دل چاہتا کہ بس یہ لوگ خاموش نہ ہوں، خیر آج کل تو ٹی وی پر اردو کی کمنٹری سن کر سر پیٹنےکو دل چاہتا ہے کہ شور شرابا زیادہ اور کچھ نہیں۔ دلچسپ صورتحال اس وقت ہوتی جب راہ چلتے کوئی بھی رک کر یہ ضرور پوچھتا کہ اسکور کیا ہوا ہے؟ اور یہ سوال تواتر کے ساتھ دریافت کیا جاتا رہتا لیکن آفرین ہے کمنٹری سننے والے پر جوکسی کے سوال پر ناک بھنویں نہ چڑھاتا بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ  ہر ایک کے لیے اُس وقت ’کرک انفو‘ کی خدمات انجام دیتا۔

جس کے بعد اسکور پوچھنے والا اپنا ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا۔ کرکٹ کی طرح ہاکی کے کمنٹیٹرز بھی اپنی خوبصورت اور شائستہ  کمنٹری کی وجہ سے منفرد اور اچھوتی پہچان رکھتے۔ چاہے وہ ایس ایم نقی ہوں یا پھرذاکر حسین سید، اقبال ہاشمی، مظاہر باری یا پھر فاروق مظہر۔

کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے روز رات 10بجے کے قریب نشر ہونے والے ’عالمی اسپورٹس راؤنڈ‘ میں خصوصی دلچسپی ہوتی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی کھیل ہو اس شو کے ذریعے بھرپور معلومات مل جاتی۔ اس شو کبھی عظیم سرور تو کبھی سید محمد نقی پیش کرتے۔ درحقیقت اسی شو میں مختلف رپورٹس پیش کرنے والی بیشتر شخصیات، دورحاضر کے کامیاب اسپورٹس رپورٹرز اور کچھ پروگرام اینکرز بھی بن چکے ہیں۔

پھر کیسے بھول سکتے ہیں آپ ریڈیو پروگرام کا  ’یہ بچہ کس کا‘؟ کو جس کے ذریعے والدین اور اپنوں سے بچھڑے بچوں کی معلومات اور پھر ان کی گفتگو نشر کی جاتی جس کا مقصد اس بچے کو اس کے گھر تک پہچانا ہوتا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں ریڈیو کے صداکاروں کو خاص اہمیت دی جاتی کیونکہ انہیں جہاں تلفظ کی آگہی ہوتی وہیں انہیں مکالمات کی ادائیگی کے لیے جذبات اور احساسات کے اظہار کا ہنر آتا۔

ہماری اردو کی ٹیچر تو بطور خاص یہ ہدایت دیتیں کہ تلفظ اور ادائیگی کو بہتر بنانا ہے تو ریڈیو ضرور سنا کریں۔ زمانہ  تو وہ بھی تھا جب پاکستان میں آل انڈیا ریڈیو کی نشریات ’کیچ‘ ہوتی اور دن کے 3اوقات میں فرمائشی گیت نشر ہوتے۔ ایک گانے کو سننے کے لیے پتا نہیں کہاں کہاں سے فرمائش آتی۔ لتا، آشا، کشور، رفیع یا پھر محمد عزیز کے گانے سنائے جاتے۔

کیونکہ ذرائع انتہائی محدود تھے تو پاکستانی پرستاروں کے لیے یہ گانے خاصی کشش رکھتے۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی آل انڈیا ریڈیوسروس  سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا بھی کیا جاتا جس کا بھرپور اور  منہ توڑ جواب ریڈیو پاکستان کمال خوبی سے دیتا۔

اور پھر ٹیکنالوجی نے کروٹ بدلی تو 90کی دہائی کے کچھ سال بعد پاکستان میں ایف ایم چینل کا آغاز ہوا۔ ریڈیو کے ان آر جےز کا ماڈرن اور بے تکلف انداز سننے والوں کے کانوں کو بھلا لگا۔ ایسے میں ان کی مدھر، مترنم اور دل کش آواز کو سن سن کر ہر سامع نے مختلف آر جے کا تصوراتی خاکہ بھی بنالیا۔

جب پاکستان کے پہلے ایف ایم چینل نے اپنا جریدہ نکال کراپنے آر جے کے انٹرویوز شائع کیے تو کئی سامعین نے ان میں سے کئی کو دیکھ کر اپنے تصوراتی خاکے پر مایوسی ظاہر کی۔ اس وقت درجنوں ایف ایم چینلز ہیں ہر زبان اور ہر انداز کے، جنہیں پسند کرنے والوں کا الگ الگ اپنا حلقہ ہے۔ کہاں کسی زمانے میں جب ریڈیو سے مخصوص اوقات میں نشریات آتی تھی اب 24 گھنٹے ایف ایم ریڈیو کام کررہے ہیں۔

ہمیں تو یاد نہیں کہ ہم نے کب شارٹ ویو یا میڈیم ویو پر کچھ سناہو۔ خیر اب گاؤں دیہات میں کوئی چارپائیاں ڈال کر ریڈیو تو نہیں سن رہا ہوتا کیونکہ اسمارٹ فون کے ذریعے تو اب بصری سہولت جو مل رہی ہے۔ بہرحال آنکھیں اور  کان بس ترس ہی گئے ہیں یہ منظر دیکھنے اور سننے کو جب کوئی کانوں پر چھوٹا سا ٹرانسیٹر لگا کر جارہا ہو اور راہ گیر روک کر پوچھے ’ہاں بھئی اسکور کیا ہوا ہے؟‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریڈیو کے ریڈیو کی کے ذریعے ایف ایم ہوتی تو نہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

مکار ،خون آشام ریاست

دنیا نے دہشت گردی کے بے شمار واقعات دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا کوئی ملک نہیں جو خود اپنے شہریوں کو قتل کرکے الزام دشمن پر تھوپنے کی مہارت رکھتا ہو — سوائے بھارت کے۔ یہ وہ ریاست ہے جو اپنے فالس فلیگ آپریشنز سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کا امن خطرے میں ڈال چکی ہے۔ کشمیر کے پہاڑوں سے لے کر ممبئی کی سڑکوں تک، جہاں کہیں خون بہا، وہاں بھارت کی بزدل، مکار اور منافق حکومت کا ہاتھ نظر آیا۔فالس فلیگ بھارت کی پرانی اور شرمناک روائت ہے ، جو ایک بار پھر 26بے گناہوں کا خون پی گئی ۔ بھارتی درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، ابھی کل کی بات ہے ، جب ابھی نندن کو چپیڑیں پڑی تھیں ، وہ بھی ایک فالس فلیگ ہی کا نتیجہ تھا ، یعنی پلوامہ کا حملہ جب فروری 2019 میںچالیس سے زائد بھارتی فوجی مارے گئے۔ مودی حکومت نے چند گھنٹوں میں الزام پاکستان پر تھوپ دیا۔ بعد ازاں خود بھارتی فوج کے سابق افسران اور ماہرین نے اشارہ دیا کہ یہ “اندرونی سازش” تھی تاکہ انتخابات سے قبل ہمدردی حاصل کی جائے۔ مودی نے اس کا خوب سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اڑی حملہ،ستمبر 2016،خود ہی ایک فوجی کیمپ پر حملہ کیا، الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کیا۔ مگر بعد میں بی بی سی سمیت کئی بین الاقوامی ادارے اس حملے کی مشکوک نوعیت پر سوال اٹھاتے رہے۔بدنام زمانہ ممبئی حملے 26/11 – 2008، بھارت نے اسے بھی پاکستان سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن کئی سوالیہ نشان اٹھتے رہے، بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی؟ حملہ آوروں کے داخلی نیٹ ورکس؟ یہاں تک کہ معروف بھارتی افسر “ہیمنت کرکرے” جو ان حملوں کی آزاد تحقیق کر رہے تھے، انہیں بھی مشکوک انداز میں قتل کر دیا گیا۔ سمجھوتا ایکسپریس آتش زدگی 2007، یہ وہ واقعہ ہے جو بھارت کے لیے سب سے بڑا طمانچہ بنا۔ 68 افراد، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی، کو زندہ جلا دیا گیا۔ ابتدائی الزام پاکستان پر لگا، مگر بعد میں کرنل پروہت، سادھوی پرگیہ اور دیگر انتہاپسند ہندو رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ یعنی یہ خالصتاً اندرونی بھارتی دہشت گردی تھی، جس میں بھارتی عدالتوں نے ثابت کیا کہ بھارتی فوج کے حاضر ڈیوٹی افسران خود ملوث تھے ، ابھی کل کی بات ہے ، خون آشام مودی نے ان تمام دہشت گردوں کو عام معافی دے کر رہا کیا ۔ اسی پر بس نہیں ، ڈانڈلی (کشمیر) میں خودساختہ حملے، بھارتی افواج نے خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروائے تاکہ تحریک آزادی کو بدنام کیا جا سکے۔
بھارت کا سب سے بڑا فالس فلیگ نہ پلوامہ تھا، نہ اڑی، بلکہ سب سے خطرناک فالس فلیگ وہ ہے جو آج بھی مسلسل کشمیر کی گلیوں میں جاری ہے،’’ریاستی دہشت گردی کا نام جمہوریت رکھ کر دنیا کو دھوکہ دینا‘‘۔مقبوضہ کشمیر میں ہر روز بے گناہ نوجوان لاپتہ ہوتے ہیں، ان کے جسم جعلی انکاؤنٹر میں گولیوں سے چھلنی کر دیے جاتے ہیں، اور پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ’’دہشت گرد‘‘ تھے۔ ان کے جنازے بھی گھر والوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی سیکولر ازم ہے؟ کیا یہی وہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ہے جس کے نعرے سے بھارت دنیا کو دھوکہ دیتا ہے؟
سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر مغربی طاقتیں، بھارت کے ان جرائم پر خاموش ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے؟ یا اس لیے کہ بھارت نے تہذیب” کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے؟ لیکن یہ لبادہ خون آلود ہے، اس کے اندر وہ درندہ چھپا ہے جو اپنے فائدے کے لیے اپنے ہی شہریوں کی لاشوں پر سیاست کرتا ہے۔ہر وہ وقت جب کوئی امریکی یا یورپی وفد بھارت آتا ہے، بھارت ایک جعلی دہشت گرد حملہ کروا کر خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے — اور الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کو گمراہ کرتا ہے۔پاکستان نے ہر بار بھارت کی فریب کاریوں کا مؤثر جواب دیا، مگر ہمیشہ اخلاقی دائرے میں رہ کر۔ پاکستان نے کبھی بچوں کی لاشوں پر سیاست نہیں کی، کبھی اپنے لوگوں کو مار کر الزام دوسروں پر نہیں لگایا۔ لیکن بھارت؟ وہ ایک ایسا شیطانی ذہن رکھتا ہے جو اپنے ہی خون سے اپنے چہرے کو دھو کر اسے دشمن کا رنگ دیتا ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ، عسکری قیادت اور سفارتی اداروں کے لئے اب مزید خاموشی کی گنجائش نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ان فالس فلیگ حملوں کی اقوام متحدہ میں باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے۔ ہر جعلی حملے کی بین الاقوامی نگرانی میں انکوائری ہو تاکہ بھارت کی ننگی حقیقت دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔
بھارتی میڈیا، جو کبھی صحافت تھا، اب محض جنگی پروپیگنڈے کا آلہ بن چکا ہے۔ “ریپبلک ٹی وی”، زی نیوز”، اور “ٹائمز ناؤ” جیسے چینلز اپنے سٹوڈیوز میں بیٹھ کر پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتے ہیں۔ ان کے اینکرز صحافی نہیں، غصے سے چیختے سپاہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے جس نے پلوامہ جیسے حملے کو فلمی اسکرپٹ بنا کر پیش کیا، اور بھارتی عوام کو جنگ کے جنون میں مبتلا کر دیا، جواب میں جب پاکستان نے بھارتی وکاس کو دھو کر رکھ دیا تو میڈیا کو چپ لگ گئی ۔ سوال یہ ہے کہ بھارت جو پاکستان کی معاشی بحالی اور اپنی کٹھ پتلیوں کی ناکامی پر انگاروں پر لوٹ رہاہے ، کیا آگے چپ رہے گا ؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے ۔ وہ ایک بار پھر فالس فلیگ سازشوں کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ کشمیر میں حالیہ سیاحوں پر حملہ اسی شیطانی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت اس وقت بلوچستان میں اپنی پراکسیز کے خاتمے، ایران میں نیٹ ورک کی بے نقابی، اور افغانستان میں رسائی ختم ہونے سے سخت بوکھلایا ہوا ہے۔ ان تمام محاذوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی نیا ڈرامائی حملہ” خارج از امکان نہیں۔ حالیہ حملہ جس میں غیر ملکی سیاح مارے گئے، اس بات کا عندیہ ہے کہ بھارت اب عالمی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ یہ ایک سفاک حکومت کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ ہر فالس فلیگ آپریشن کا مکمل فیکٹ فائل تیار کرے، جس میں واقعات، مشکوک پہلو، انٹیلی جنس رپورٹس، میڈیا پراپیگنڈا اور بھارتی بیانات کو جمع کر کے اقوام متحدہ، او آئی سی، ہیومن رائٹس کونسل اور انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے رکھا جائے۔ ہر پاکستانی سفارت خانے کو یہ ہدف دیا جائے کہ وہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر ایک ایک رپورٹ متعلقہ ملک کے دفتر خارجہ، تھنک ٹینکس، اور میڈیا ہاؤسز کو فراہم کرے۔دوسری جانب یہ بھی لازم ہے کہ ہمارے ادارے جو پہلے ہی چوکس ہیں ، ریڈ الرٹ پر آجائیں ، متحرک اور متحد ہو کر بھارت کی ہر ممکنہ چال پر نظر رکھیں، پیشگی وارننگ اور پروف کے ساتھ دنیا کو بتایا جائے کہ بھارت کیا کرنے والا ہے، اور اگر ابھی نندن جیسی کوئی دوسری حماقت کرے تو پھر یہ اس کی آخری حماقت ہونی چاہئے ۔
بھارت ایک بار پھر چالاکی، سازش اور ظلم کا جال بُن رہا ہے — مگر ہم جاگ رہے ہیں۔ ہمیں ایک قوم بن کر، ایک مؤقف کے ساتھ، ایک آواز میں دنیا کو بتانا ہوگا:
ہم خاموش ضرور ہیں، مگر کمزور نہیں۔
ہم امن چاہتے ہیں، مگر بزدل نہیں۔
ہمارے تحمل کو کمزوری نہ سمجھو —
کیونکہ جب پاکستان بولتا ہے، دنیا سنتی ہے۔
اور جب ہم وار کرتے ہیں،
دشمن کی سانسیں بند ہو جاتی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  •  جارحیت گیدڑ بھبکی‘ بھارت کبھی  پانی بند نہیں کرسکتا،شاہد خاقان
  • صیہونی فوج کی وحشیانہ بمباری، فلسطینی صحافی خاندان سمیت شہید
  • مکار ،خون آشام ریاست
  • بھارت اس ریجن کے اندر ایک غنڈے کی طرح برتاؤ کرتا ہے
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بے معنی؛ یہ معاہدہ کبھی جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں ہوا
  • ‘پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے’، بھارتی میڈیا کیسے جنگی ماحول بنارہا ہے؟
  • کیا کبھی ایسا ہوا کہ جیل میں بیٹھا آزاد اور قوم قید میں ہو، عامر ڈوگر
  • ''شکر ہے شیر افضل مروت سے جان چھوٹی،، عمران خان کی وکلا سے ملاقات کی اندرونی کہانی
  • جارحانہ انداز اپنانا کرکٹ کی ایک خوبصورتی ہوتی تھی، بیٹر کو ذہنی طور پر تنگ کرنا پڑتا ہے: محمد عامر
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب