صوابی، سفاک باپ نے 4 بچوں کو ذبح کرکے خودکشی کرلی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
مقامی ذرائع اور ریسکیو حکام کے مطابق خود کشی کرنے والے شوہر کی رات کو بیوی کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی۔ ریسکیو ون ون ٹو ٹو نے کہا کہ لاشوں کو یارحسین ہسپتال منتقل کردیا گیا، مقتولین میں دو بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں، ملزم کی بیوی میکے میں ناراض بیھٹی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے علاقے یارحسین صوابی میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں درندہ صفت باپ نے چار بچوں کو ذبح کر کے خودکشی کر لی۔ ریسکیو ون نو ٹو کے مطابق یارحسین سڑہ چینہ کے علاقے میں گھر کے اندر باپ نے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو ذبح کر کے بعد زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ مقامی ذرائع اور ریسکیو حکام کے مطابق خود کشی کرنے والے شوہر کی رات کو بیوی کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی۔ ریسکیو ون ون ٹو ٹو نے کہا کہ لاشوں کو یارحسین ہسپتال منتقل کردیا گیا، مقتولین میں دو بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں، ملزم کی بیوی میکے میں ناراض بیھٹی تھی۔
ریسکیو ون ون ٹوٹو نے بتایا کہ ناراض بیوی کو منانے کے لیے کافی جرگے بھی کئے گئے تھے، بیوی راضی نہ ہوئی تو ظالم شوہر نے بچوں کو قتل کرکے اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کیا۔ پولیس کے مطابق لاشوں کو قبضے میں لے کر ہسپتال منتقل کردیا گیا، واقعے میں جاں بحق بچوں میں ضیاء اسلام عمر 12 سال، عبدالرحمان 10 سال، ثناء عمر 8 سال اور ایک 2 سال کی بچی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کرنے والے شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن تھا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریسکیو ون کے مطابق بچوں کو
پڑھیں:
امریکی تحقیق کے مطابق بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم کا ایک ممکنہ کردار
ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ پیراسیٹامول (Acetaminophen) ہر گھر کی سب سے عام دوا ہے۔ بخار ہو، درد ہو یا تھکن ہو، ہمارا پہلا انتخاب یہی دوا ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں ایک نہایت اہم تشویشناک خبر سامنے آئی ہے۔
امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے اپنے باضابطہ نوٹس میں خبردار کیا ہے کہ حمل کے دوران پیراسیٹامول کے مسلسل استعمال سے بچے کی دماغی نشوونما پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اور یہ خدشہ موجود ہے کہ اس کے نتیجے میں Autism اور ADHD جیسے مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
یہ کوئی معمولی افواہ نہیں۔ اس پر امریکی صدر ٹرمپ نے پبلک ہیلتھ اور میڈیکل ہیلتھ کے سرکردہ قائدین کے ہمراہ پریس کانفرنس میں امریکی حکومت میں پھیلی بےچینی و تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایف ڈی اے نے اپنی ہدایات میں ڈاکٹروں اور عوام دونوں کو محتاط رہنے کا کہا ہے۔
یہ خدشہ کئی سال سے مختلف تحقیقی مطالعات (NEJM, JAMA, Lancet Psychiatry) میں اٹھایا جاتا رہا ہے کہ پیراسیٹامول اور بچے کی دماغی صحت کے درمیان ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تعلق ابھی حتمی طور پر ثابت نہیں ہوا، لیکن تعلق اور کچھ شواہد اتنے واضح ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی ریگولیٹری ایجنسی ایف ڈی اے نے احتیاط کا اعلان کر دیا ہے۔
آٹزم صرف ایک بچے کی مشکل ہی نہیں ہوتا بلکہ پورے گھر کی زندگی کو بدل دیتا ہے۔ والدین کے لیے سب سے بڑی اذیت یہ ہے کہ ان کا بچہ ان کی آنکھوں میں دیکھ کر بھی اکثر جواب نہیں دیتا، عام باتوں کو نہیں سمجھتا، اور چھوٹی سی تبدیلی پر شدید بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسکول میں دوسرے بچے آپس میں دوستی کر لیتے ہیں، مل کر کھیل لیتے ہیں، مگر آٹزم والا بچہ اکثر اکیلا رہ جاتا ہے۔ والدین دن رات یہ سوچ کر کوفت میں رہتے ہیں کہ ان کا بچہ کب اور کیسے دنیا کے ساتھ چل پائے گا، وہ کہاں تک خود کفیل ہو سکے گا، اور ان کے بعد اس کا کیا بنے گا۔ یہ وہ کرب ہے جو ہر دن، ہر لمحے ان کے دل کو کاٹتا ہے، اور جسے سمجھنے کے لیے محض کتابی علم کافی نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے احساس ضروری ہے۔
پاکستان کے لیے یہ خبر خاص طور پر اہم ہے۔ ہمارے ملک میں پیراسیٹامول سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوا ہے، اکثر بغیر کسی ڈاکٹر کے مشورے کے۔ عام لوگ اسے بالکل محفوظ سمجھتے ہیں اور حمل کے دوران بھی خواتین روزانہ کئی دن تک استعمال کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہم بھی وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو امریکی حکام اب تسلیم کر رہے ہیں؟
ذمے دارانہ رویہ یہ ہے کہ ہم گھبراہٹ پھیلانے کے بجائے سائنسی حقائق کو سامنے رکھیں۔ پہلی بات یہ کہ پیراسیٹامول اب بھی درد اور بخار کے لیے ایک مؤثر اور نسبتاً محفوظ دوا ہے، مگر حمل کے دوران اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت کے وقت اور ڈاکٹر کے مشورے سے مشروط کریں۔ دوسری بات یہ کہ حکومت، ریگولیٹری اتھارٹی اور میڈیکل کالجز کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر آگاہی مہم چلائیں، تاکہ عوام کو سمجھایا جا سکے کہ ’’محفوظ‘‘ دوا بھی بعض اوقات احتیاط مانگتی ہے۔
یہ وقت ہمارے لیے ایک امتحان ہے۔ اگر دنیا کی بڑی ایجنسی احتیاط برت رہی ہے، تو ہمیں بھی چاہیے کہ پاکستانی مریضوں کے حق میں احتیاط کو اپنائیں۔ دوا ساز کمپنیوں، فارماسسٹوں اور ڈاکٹروں کی ذمے داری ہے کہ وہ مریض کو صحیح مشورہ دیں، اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو حقائق بتائے۔
ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ عوام کا اعتماد صحت کے نظام پر اسی وقت قائم رہتا ہے جب ہم سچائی اور احتیاط کو سامنے رکھتے ہیں۔ پیراسیٹامول کی یہ مثال ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ علاج کے ساتھ ساتھ شفافیت اور ذمے داری بھی اتنی ہی ضروری ہیں۔ یہ ایک اور الارم ہے اگر ہم آج احتیاط اور سچائی کو اپنانے کا حوصلہ نہیں کر پاتے تو کل یہ اور اس طرح کے پر بولتے طوفان بے قابو ہوں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔