KBC میں 5 کروڑ جیتنے والا کنگال کیسے ہوگیا؟ دودھ بیچ کر زندگی گزارنے لگا
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
انڈین شو کون بنے گا کروڑ پتی (KBC) سے شہرت پانے والے بہار کے سشیل کمار کو کون نہیں جانتا؟ 2011 میں KBC 5 میں 5 کروڑ جیتنے والے پہلے کنٹیسٹنٹ بننے کے بعد وہ ہر گھر میں مشہور ہو گئے تھے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دولت کی چمک دمک میں انہوں نے سب کچھ کھو دیا، نشے کی لت میں پڑ گئے، اور آخر کار دودھ بیچ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
KBC میں جیت کے بعد سشیل کمار کو ایک نئی پہچان ملی، وہ مہینے میں تقریباً 50 ہزار روپے کے مختلف پروگرامز میں شرکت کرتے، لیکن لوگوں نے انہیں دھوکہ دیا اور ان کی دولت کا بڑا حصہ ضائع ہو گیا۔
2020 میں سشیل کمار نے ایک فیس بک پوسٹ میں انکشاف کیا کہ دھوکہ دہی، شراب نوشی اور سگریٹ نوشی کی لت کی وجہ سے ان کی زندگی خراب ہو گئی۔
انہوں نے لکھا، "KBC کے بعد مجھے صحیح اور غلط لوگوں میں فرق کرنا نہیں آیا۔ میری بیوی مجھ سے لڑنے لگی، دوستوں نے پیٹھ دکھا دی، اور میں نشے میں پڑ گیا۔ یہاں تک کہ میرے مالی حالات بگڑنے لگے اور میں نے گائے پال کر دودھ بیچنا شروع کر دیا۔”
یہ خبر میڈیا میں آگ کی طرح پھیل گئی، اور یہ مشہور ہو گیا کہ سشیل کمار کروڑ پتی سے فقیر بن گئے ہیں۔ اس کے بعد انہیں تقریبات میں بلانا بھی بند کر دیا گیا، اور ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آ گیا۔
حقیقت میں KBC میں جیتنے کے بعد ٹیکس کٹنے کے بعد انہیں صرف 3.                
      
				
KBC میں سشیل کمار سے آخری سوال یہ پوچھا گیا تھا: "18 اکتوبر 1868 کو برطانیہ نے نکو بار جزائر کے حقوق خرید کر بھارت میں کس نوآبادیاتی طاقت کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کیا؟”
آپشنز:
 A. بیلجیم
 B. اٹلی
 C. ڈنمارک
 D. فرانس
سشیل کمار نے سوچ سمجھ کر "C – ڈنمارک” کا جواب دیا، جو درست نکلا۔ ان کے ذہانت بھرے انداز کو دیکھ کر امیتابھ بچن نے انہیں "حقیقی سلم ڈاگ ملینیئر” قرار دیا۔
TagsShowbiz News Urdu
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل سشیل کمار کے بعد
پڑھیں:
تلاش
’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔
غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔
انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔
دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔
دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔
مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔
ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔
کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔
انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔
خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔
تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔
انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔
تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔