Express News:
2025-07-26@01:16:16 GMT

فلسطین کی پاسبانی

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران متعدد بار یہ کہا تھا کہ وہ برسر اقتدار آکر دنیا میں جنگوں کے ماحول کو ختم کریں گے، نئی جنگوں کا آغاز نہیں کریں گے، جاری جنگوں کو ختم کرکے امن قائم کریں گے اور امریکا کو ایک عظیم طاقتور اور امن پسند ملک بنائیں گے۔

ٹرمپ کے وعدوں پر یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ 2025 میں صدر بنیں گے تو روس یوکرین جنگ کا خاتمہ ہوگا اور اسرائیل جو ایک سال سے زائد عرصے سے فلسطینیوں پر آگ و آہن کی جو بارش کر رہا ہے اس نے معصوم، نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کو خون میں نہلایا تو اس کے بڑھتے ہوئے قدم رک جائیں گے۔ بعینہ بے گھر فلسطینیوں کو دوبارہ غزہ میں اپنے اجڑے ہوئے ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں دوبارہ آنا، بسنا، رہنا اور ان کی تعمیر کرنے کے مواقعے ملیں گے۔ غزہ امن کا گہوارا بنے گا اور جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے۔

دنیا کی توقع اور فلسطینیوں کی امیدوں کے برخلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے وعدوں کو ایفا کرنے کی بجائے کشیدگی کے نئے محاذ کھول دیے۔ چین، روس، فرانس و دیگر ممالک کی مصنوعات پر ٹیکس پر ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ مالی امداد کی فراہمی پر بھی پابندیاں عائد کردیں۔ معاشی محاذ آرائی کے پہلو بہ پہلو سیاسی و جغرافیائی محاذ آرائی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے اور غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرکے اس کا کنٹرول حاصل کرنے کے واشگاف اعلانات بھی کردیے جس سے پوری دنیا ششدر اور انگشت بدنداں ہوگئی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر کنٹرول کے خلاف نہ صرف عرب دنیا میں شدید احتجاج کیا گیا بلکہ چین، فرانس، ایران، برطانیہ و دیگر ممالک نے بھی صدر ٹرمپ کے اعلان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے غیر حقیقت پسندانہ طرز عمل قرار دیا۔ عالمی برادری کو بخوبی علم ہے کہ یہودی فلسطین پر جبری قابض ہیں فلسطین کی سرزمین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے۔ اس تنازعے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو ریاستی حل کی قراردادوں پر عمل کیا جائے اور فلسطینیوں کو ان کے اپنے علاقے پر مکمل آزادی و خود مختاری کے ساتھ رہنے کا حق دیا جائے اور یہودیوں کو صدر ٹرمپ اپنے ملک میں آبادکاری کے لیے جگہ مختص کریں۔

مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی شاطرانہ چالوں کا شکار ہوگئے ہیں، ورنہ ٹرمپ نے کبھی ایسے عزائم کا اظہار نہیں کیا۔ چند روز پیشتر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے وہائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی جس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے غزہ کی پٹی کی ملکیت حاصل کرنے اور فلسطینیوں کو کسی اور مقام مصر یا اردن میں آباد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے صدر ٹرمپ مختلف مواقعوں پر اپنے بیانات اور انٹرویوز میں غزہ پر کنٹرول اور کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کے موقف کو دہراتے چلے آ رہے ہیں۔

امریکی ٹی وی فاکس نیوز کو اپنے تازہ انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے اور کینیڈا کو اپنی ریاست بنانے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے منصوبے میں فلسطینیوں کو غزہ واپس جانے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ان کے لیے نئی آبادیاں تعمیر کی جائیں گی۔

اس حوالے سے مصر اور اردن سے کوئی ڈیل کی جا سکتی ہے، امریکا ان ملکوں کو اس کے بدلے سالانہ کئی ارب ڈالر دے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے حوالے سے خطرناک عزائم پوری دنیا کے لیے بالعموم اور عرب دنیا اور فلسطینیوں کے لیے بالخصوص لمحہ فکریہ اور سخت پریشانی کا باعث ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی ملی بھگت سے غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا ناپاک منصوبہ دراصل گریٹر اسرائیل کے خواب کو تعبیر دینا ہے جس سے یقینا عرب دنیا کے اندر اشتعال پایا جاتا ہے۔

یہ مشرق وسطیٰ کے امن کو تباہ کرنے کی سازش ہے اور نئے جنگی محاذ کھولنے کا شاخسانہ بھی۔ عالمی سطح پر ٹرمپ نیتن یاہو منصوبے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے جو فلسطینی مزاحمت کو مہمیز کرنے کا موجب بنے گا۔ مسلم امہ کو جلد او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلا کر نہ صرف ٹرمپ نیتن یاہو منصوبے کے خلاف سخت ردعمل دینا چاہیے بلکہ اسرائیل امریکا کے فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی روکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اس مرحلے پر خاموشی یا صرف زبانی کلامی بیانات اور اعلامیوں سے ٹرمپ نیتن یاہو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

 پوری عالمی برادری اور عرب دنیا کو فلسطینیوں کی سرزمین کی پاسبانی کے لیے ایک آواز ہو کر ٹھوس عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے، ورنہ دنیا کو ایک نئی محاذ آرائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فلسطینیوں فلسطینیوں کو امریکی صدر نیتن یاہو عرب دنیا ٹرمپ کے کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا

امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) سے ایک بار پھر علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ 31 دسمبر 2026 سے مؤثر ہوگا، اور اس کی وجہ فلسطین کی یونیسکو میں رکنیت اور امریکی خارجہ پالیسی کے ساتھ تنازعات کو قرار دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے فلسطینیوں کی نسل کشی میں کونسی کمپنیاں ملوث ہیں؟ اقوام متحدہ نے فہرست جاری کردی

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان، ٹیمی بروس نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ یونیسکو کی پالیسیز اور سرگرمیاں امریکا کے قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ یونیسکو تقسیم پیدا کرنے والے سماجی اور ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دے رہا ہے اور اس کا جھکاؤ اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کی جانب ہے، جنہیں انہوں نے ’عالمی ایجنڈا‘ اور ’سب سے پہلے امریکا پالیسی سے متصادم‘ قرار دیا۔

فلسطین کی رکنیت پر اعتراض

ٹیمی بروس نے 2011 میں یونیسکو کی جانب سے فلسطین کو مکمل رکنیت دیے جانے کو ’انتہائی مسئلہ انگیز‘ اور امریکی پالیسی کے خلاف قرار دیا، اور کہا کہ یہ اقدام تنظیم میں ’اسرائیل مخالف بیانیے‘ کو تقویت دیتا ہے۔

ٹیمی بروس

 

پہلے بھی 2 بار علیحدگی

یہ تیسری مرتبہ ہے جب امریکا نے یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ اس سے پہلے 1984 میں صدر رونالڈ ریگن کے دور میں یونیسکو پر سیاسی رنگ غالب ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر علیحدگی اختیار کی گئی۔

2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تنظیم پر ’اسرائیل مخالف تعصب’ اور ناقص انتظام کا الزام لگا کر علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

2023 میں صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں امریکا دوبارہ رکن بنا، مگر اب موجودہ حکومت نے ایک بار پھر علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔

یونیسکو کی سربراہ کا ردعمل

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے ازولے نے امریکی فیصلے پر ’ شدید افسوس‘ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ’ کثیرالجہتی کے اصولوں کے منافی‘ ہے۔ انہوں نے امریکا کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے یونیسکو کی جانب سے ہولوکاسٹ کی تعلیم اور یہود دشمنی کے خلاف اقدامات کا حوالہ دیا۔

آڈرے ازولے، یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل

ازولے نے واضح کیا کہ تنظیم نے 2018 کے بعد اصلاحات کی ہیں، مالیاتی نظام کو متنوع بنایا ہے اور اب امریکی تعاون یونیسکو کے کل بجٹ کا صرف 8 فیصد ہے، جب کہ تنظیم کی رضاکارانہ مالی امداد دوگنی ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے اقوام متحدہ کی ماہر فرانچیسکا البانیز کو امریکی پابندیوں کا سامنا، اسرائیلی مظالم کی نشاندہی ’جرم‘ ٹھہری

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی ملازمتیں ختم نہیں کی جائیں گی اور یونیسکو امریکی نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا فلسطین یونیسکو

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان کو مسترد کر دیا
  • ہمارے حکمرانوں نے غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کرنیوالے ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا، حافظ نعیم
  • ٹرمپ غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ حکمرانوں نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا ہے، حافظ نعیم
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے
  • نسل کشی کا جنون
  • مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل
  • اسرائیلی فوج نے غزہ میں امداد لینے والے 1000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، اقوامِ متحدہ کا انکشاف
  • جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
  • فلسطین کو رکنیت کیوں دی؟ امریکا نے تیسری بار یونیسکو سے علیحدگی کا اعلان کر دیا