حاکمیت صرف اللہ کی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر سے پاکستان بھر کی مختلف جامعات کے طلبہ نے ملاقات کی ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا کہ پاکستانی عوام، بالخصوص نوجوانوں کا پاک فوج سے ایک انتہائی مضبوط رشتہ ہے، ملک دشمن عناصر کی فوج اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنے کی کوشش ہمیشہ ناکام رہی ہے اور رہے گی، ہمیں اپنے مذہب، تہذیب اور روایات پر فخر ہے، پاکستان کے آئین کا آغاز بھی ’’اِنِ الحکَمُ اِلا للّٰہ‘‘ (حاکمیت صرف اللہ کی ہے) سے ہوتا ہے، یہ فتنہ الخوارج کس شریعت اور دین کی بات کرتے ہیں؟ ہم کبھی فتنہ الخوارج کو اپنی فرسودہ سوچ ملک پر مسلط نہیں کرنے دیں گے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے غیور عوام دہشت گردوں کے خلاف آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ آرمی چیف نے نوجوانوں کی توانائی، تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعی صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کا مستقبل ہیں۔ آرمی چیف نے ملک کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ میں پاک فوج کے کردار کو اجاگر کیا۔ دہشت گردی کی لعنت کے خلاف قوم کی جدوجہد میں پاکستانی عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے لیے ان کی حمایت کو سراہا۔ ’’پاکستانیت‘‘ کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آرمی چیف نے نوجوانوں کی فکری نشو ونما میں پاکستان کی تاریخ، ثقافت اور اقدار کی اہمیت کو نمایاں کیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسلح افواج کے محترم سپہ سالار نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان سے اختلاف کی گنجائش نہیں اس لیے اس بحث میں الجھے بغیر کہ ’فتنہ‘ خوارج کیا ہے، اس کی فرسودہ سوچ کیا ہے جسے ملک پر مسلط نہ کرنے دینے کا پختہ عزم جناب جنرل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں کیا ہے۔ ہمیں اس سے بھی غرض نہیں کہ خوارج کس دین اور شریعت کی بات کرتے ہیں؟ ہم اپنے سپہ سالار کی تائید کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے مذہب، تہذیب اور روایات پر فخر ہے اور بلاشبہ ہمارے آئین کا آغاز بھی ’’اِنِ الحکَمُ اِلا للّٰہ‘‘ حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘۔ سے ہوتا ہے۔ آئین پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو یقینی بنائے جانے پر ہم اللہ کا جتنا شکر ادا کریں، کم ہے ایسے میں ہمارے محترم سپہ سالار کا یہ سوال بھی بہت معقول اور بجا ہے کہ خوارج اب کس دین اور شریعت کی بات کرتے ہیں؟ البتہ ہم محترم سپہ سالارسے بسد ادب یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ آئین پاکستان نے تو بلاشبہ یہ طے کر دیا گیا ہے کہ ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘ مگر کیا صرف آئین کی کتاب میں یہ بات لکھ دینے سے مقصد پورا ہو جاتا ہے؟ یا اس کے کچھ مزید عملی اور لازمی تقاضے بھی ہیں کیا ہمارے محترم سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر دل پر ہاتھ رکھ کر یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں واقعی اللہ کی حاکمیت موجود ہے؟ مملکت خداداد پاکستان کے نام کے ساتھ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کا لاحقہ اس کی شناخت کا آئینہ دار ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان فی الواقع ایک جمہوری ریاست ہے، جہاں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے نمائندوں کا انتخاب عوام اپنی آزادانہ مرضی سے ہی کرتے ہوں؟ آئین میں ان نمائندوں کے لیے دفعات 62 اور 63 کی رو سے صادق اور امین ہونا لازم ہے کیا ہماری مجلس شوریٰ کے ایوان بالا، سینیٹ اور ایوان زیریں، قومی اسمبلی میں موجود نمائندے صادق اور امین کی آئینی شرائط پر پورے اترتے ہیں؟ پھر یہ مملکت نام کے حوالے سے ’’اسلامی‘‘ بھی ہے اور بقول سپہ سالار آ ئین کا آغاز بھی ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘۔ کے الفاظ سے ہوتا ہے مگر سوال پھر وہی ہے کہ کیا واقعی ریاست میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہے؟ کیا یہاں فی الحقیقت قرآن و سنت کو بالادست قانون کی حیثیت حاصل ہے؟ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے لازمی تقاضے کے طور پر آئین میں واضح الفاظ میں درج ہے کہ مملکت کا معاشی نظام اسلامی اصولوں پر استوار ہو گا اور سود کی لعنت کو ایک مقررہ مدت میں ملک کے اقتصادی ڈھانچے سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ اس مقررہ آئینی مدت کو گزرے سال ہا سال بیت چکے ہیں، مگر سود ہے کہ آج بھی پاکستانی معیشت پر مسلط ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ جس کی حاکمیت کا ہم برملا اقرار کرتے ہیں، نے واضح الفاظ میں سود کو اللہ اور اس کے محبوب سے جنگ قرار دیا ہے اور پھر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ مالک کائنات سود کا مٹھ مارتا ہے۔ اس قدر واضح احکام اور سودی معیشت کے ملکی اقتصادیات پر منفی اثرات اور معیشت کی تباہی و بربادی کے باوجود ہم سود کو دیس نکالا دینے پر تیار نہیں حالانکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالتیں بھی ایک سے زائد بار سود کے خاتمہ کے احکام صادر کر چکی ہیں اللہ کی حاکمیت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ریاست ہر شعبہ میں اسلامی قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آزادی کو پون صدی سے زائد گزر جانے کے باوجود آج بھی یہاں انگریز کے دیے ہوئے قوانین رائج ہیں۔ اسلامی سزائوں کی اس تاثیر کو تسلیم کیے جانے کے باوجود کہ ان سے جرائم کی بیخ کنی ہوتی ہے، آج پاکستانی معاشرہ جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے مگر ارباب اقتدار اسلامی سزائیں نافذ کر کے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے پر تیار نہیں مسلم مملکت کے ذرائع ابلاغ کا بنیادی فرض ’’دعوت‘‘ ہے مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ سرکاری ہوں یا نجی، سب کے سب بلا استثنیٰ معاشرے میں بے دینی کو فروغ دینے، فحاشی و عریانی اور بے راہروی کی تشہیر و ترویج میں مگن ہیں مگر ارباب اختیار میں سے کسی کو احساس نہیں کہ ان کو لگام دینا کس قدر ضروری ہے اور ان کے کس قدر منفی اثرات معاشرے اور نئی نسل کے بگاڑ کے ضمن میں مرتب ہو رہے ہیں، ہاں البتہ کسی صاحب اختیار کی شان میں کسی گستاخی کا امکان ہو تو پیمرا بھی حرکت میں آ جاتا ہے ایف آئی اے بھی اور نہ جانے کون کون سے ادارے کس کس، طرح ایسے گستاخوں کی مشکیں کسنے اور انہیں منظر سے غائب کرنے میں دیر نہیں لگاتے اور پہلے سے کئی قوانین کی موجودگی کے باوجود مجلس شوریٰ بھی ’پیکا‘ جیسے نئے قوانین راتوں رات منظور کر کے ان ذرائع ابلاغ کا قبلہ درست کرنے کا فوری اہتمام کرتی ہے تاہم اسلامی احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہمارے سپہ سالار، ماشاء اللہ حافظ قرآن ہیں وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ قرآن حکیم میں خارجہ پالیسی کے ضمن میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ کفار اور یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو یہ کبھی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے مگر اسے کیا کہیے کہ ہماری خارجہ پالیسی الفاظ کی حد تک جو چاہے کہتے رہیے عملاً کفار کی دوستی ہی نہیں غلامی اور تابع فرمانی پر استوار ہے۔ کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں۔ ملک کے تمام شعبوں کا یہی حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے واضح احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہر جگہ جاری ہے۔ اس کے باوجود ہمارے سپہ سالار محترم اگر یہ دعویٰ کریں کہ پاکستان میں ’’حاکمیت صرف اللہ کی ہے‘‘ تو بھلا کون یقین کرے گا؟؟
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: محترم سپہ سالار کہ پاکستان اللہ تعالی کی حاکمیت کے باوجود ا رمی چیف کرتے ہیں پاک فوج کیا ہے ہے اور ہیں کہ
پڑھیں:
اسلامی کانفرنس ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-8
احمد حسن
بچپن سے کہاوت سنتے آئے ہیں ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘ اسرائیل مسلسل مار رہا ہے اور عرب و اسلامی ممالک ہر دفعہ یہی کہہ رہے ہیں ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘ ایک طرف عرب اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں دنیا بھر کی بزدلی اور دنیا کی چاہت بھر گئی ہے اور دوسری طرف تنہا غزہ کے فلسطینیوں میں آزادی کی خواہش اور جرأت و بہادری کا جذبہ جمع ہو گیا ہے ۔ اسرائیلی فوج ہر روز ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر وہ ہیں کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہے، غزہ کو خالی کرنے، حماس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں، چیونٹی اور ہاتھی کا مقابلہ ہے، ان کے پاس ایک طیارہ نہیں، ایک ٹینک نہیں دوسری جانب اسرائیل کے پاس سپر پاور امریکا کے تیار کردہ بہترین طیارے، ٹینک اور دیگر جدید ترین ہتھیار ہیں پھر بھی فلسطینی باز نہیں آتے، جب بھی موقع ملتا ہے پلٹتے ہیں اور جھپٹ کر وار کرتے ہیں، حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں کارروائی کرتے ہوئے ایک اسرائیلی ٹینک تباہ کر دیا، جس کے نتیجے میں عملے کے چاروں افراد ہلاک ہو گئے، ٹینک پر دھماکا خیز مواد پھینکا گیا اور کمانڈر کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جس سے ٹینک میں آگ بھڑک اٹھی، مشرقی یروشلم کے علاقے راموت جنکشن پر فلسطینی مجاہدین کی فائرنگ سے 6 اسرائیلی ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے اسرائیلی حکام کے مطابق دونوں حملہ آوروں کو موقع پر ہی شہید کر دیا گیا یقینا ایک ٹینک کا تباہ ہونا اور چند اسرائیلیوں کا مارا جانا اسرائیلیوں کا کوئی بڑا نقصان نہیں، لیکن درجنوں عرب اسلامی ملکوں کے منہ پر زوردار تھپڑ ضرور ہے جو اسرائیل سے ہر دفعہ مار کھا کر خود کچھ نہیں کرتے عالمی برادری سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جواب دے۔
پیر کو دوحا میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں مسلم سربراہوں نے قطر پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے تمام حدیں پار کر لی ہیں، اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اسرائیل کو جواب دے ٹھیرانا ہوگا اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے مسئلہ فلسطین حل کرنا ہوگا، صہیونی جارحیت روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا کہ سلامتی کونسل اسرائیل سے فوری غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرے، انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے، خاموش ہونے کے بجائے متحد ہونا ہوگا۔ وزیراعظم پاکستان اور دیگر سربراہوں نے جو کچھ کہا سو کہا، قطر پر حملے کے خلاف خود قطری وزیراعظم نے کیا کہا، موصوف نے فرمایا عالم برادری دہرا معیار چھوڑ ے اسرائیلی حملے کا سخت جواب دیا جائے، اندازہ کیجیے ملک پر حملہ ہو گیا اور وہ ایک معمولی سی جوابی کارروائی کرنے کے بجائے عالمی برادری سے درخواست کر رہا ہے کہ اسرائیل کو سخت جواب دیا جائے، عالمی برادری تو بہت کچھ کر رہی ہے، ہر ملک میں لوگ بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور اس احتجاج کی خاطر وہ قید و بند کے خطرے کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے مگر آپ خود کیا کر رہے ہیں؟ اگر آپ اسی طرح ’’اب کے مار اب کے مار‘‘ کی گردان کرتے رہے تو اسرائیل ایک ایک کر کے ہر اسلامی ملک میں گھس کر جسے چاہے گا اسے نشانہ بنائے گا۔ واضح رہے کہ اسرائیل اب تک چھے اسلامی ملکوں ایران، لبنان شام، یمن، تیونس، قطر پر حملہ کر چکا ہے جبکہ فلسطین پر تو اس کے حملے برسوں سے جاری ہیں اور معمول بن چکے ہیں۔
اپنی نیت کے حوالے سے اسرائیل نے کچھ خفیہ بھی نہیں رکھا، اسرائیلی وزیراعظم بار بار ایسی دھمکیاں دے چکے ہیں اور اب اسلامی سربراہ کانفرنس کے بعد انہوں نے پھر اس کا ارادہ کیا ہے، اسرائیلی وزیراعظم نے تل ابیب میں امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو سے ملاقات میں کہا کہ حماس قیادت کہیں بھی ہو اسے نشانہ بنانے کا امکان مسترد نہیں کر سکتے جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم کو غیر متزلزل امریکی حمایت اور امداد کا یقین دلایا اس سے قبل اسرائیلی سیکورٹی کابینہ کے وزیر ایلی کوہن نے کہا تھا کہ حماس کے رہنماؤں کو دنیا میں کہیں بھی سکون کی نیند نہیں سونا چاہیے، جب پوچھا گیا کیا اس میں استنبول اور انقرہ بھی شامل ہیں تو انہوں نے دہرایا کہ ’’کہیں بھی‘‘، ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم کسی بھی مقام تک درستی سے پہنچنے کے قابل ہیں یقینا اسرائیل نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ خالی خولی دھمکی نہیں دیتا اس پر عمل بھی کرتا ہے، اسرائیلی دھمکی کے بعد یہ تو نظر نہیں آتا کہ وہ اسرائیل کو مؤثر عملی جواب دینے کا کوئی منصوبہ بنائیں ہاں یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ بھرپور کوشش کریں کہ حماس سے معمولی سا تعلق رکھنے والا کوئی بھی فرد اس کے ہاں نہ رہ سکے تاکہ وہ اسرائیلی قہر کا نشانہ نہ بنے۔
اسلامی ممالک کے سربراہان، سیاستدان ہر اسرائیلی حملے کے بعد یہ کہتے نہیں تھکتے کہ مسلم ممالک کو متحد ہو جانا چاہیے، اسرائیل کو روکنے کے لیے امت مسلمہ کا اتحاد و اتفاق بہت ضروری ہے لیکن عملاً ہر اسلامی ملک اس کہاوت پر عمل کر رہا ہے ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شیری رحمان نے ایک ٹی وی شو میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو اور اس کے حواریوں پر واضح کر دوں کہ اگر پاکستان کی طرف آئے تو لگ پتا جائے گا۔ خلیجی ممالک کو متحد ہو کر اسرائیل کو جواب دینا چاہیے، ان کے اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں روزانہ سیکڑوں افراد کو قتل کرتا رہے، ان تک کھانے پینے کی چیزیں نہ پہنچنے دے، فلسطینی بچے ہڈیوں کا پنجر بن کر موت کے منہ میں جاتے رہیں، کوئی بات نہیں لیکن اگر انہوں نے پاکستان کا رُخ کیا تو پھر ہماری طاقت و مہار مہارت اور جرأت و بہادری دیکھنا، ہم ایسا جواب دیں گے کہ اسرائیل کو لگ پتا جائے گا کہ کس سے پالا پڑا ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایرانی نمائندے نے جو تجویز پیش کی ہے مسلم ممالک کے سربراہان کم از کم اسی پر عمل کر لیں، انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ اسلامی ممالک اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ آپریشن روم قائم کریں، اس سے ہمارے اتحاد کا پیغام جائے گا اور مشترکہ آپریشن روم کی جانب سے جاری کیا گیا محض ایک بیان بھی اسرائیل کو دہشت زدہ کر سکتا ہے۔ مسلم ملکوں کے حکمرانوں کے رویے کے برعکس ایک مسلم امریکی نوجوان نے کہیں زیادہ بہادری کا ثبوت دیا ہے، یہ نوجوان ہیں زہران ممدانی جو امریکی شہر نیویارک کے ڈیموکریٹک میئر بننے کے امیدوار ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ میئر منتخب ہوگئے تو پولیس کو حکم دیں گے کہ نیویارک آنے پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو گرفتار کر لیا جائے، یہ اقدام ظاہر کرے گا کہ نیویارک عالمی قوانین پر عمل کرتا ہے، واضح رہے کہ نیویارک کے میئر کا انتخاب چار نومبر کو ہوگا۔