اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 فروری 2025ء) Array

ادارے کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں تقریباً 20 لاکھ لوگ تاحال بے گھر ہیں جن کی بڑی تعداد گنجان آباد کیمپوں اور معمولی خیموں میں رہائش پذیر ہے۔

ان میں 615,000 لوگ ایسے ہیں جنہوں نے 27 نومبر کو سابق صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی فورسز کا حملہ شروع ہونے کے بعد اپنے علاقوں سے نقل مکانی کی تھی۔

موسم سرما کے لیے مدد

اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار شمالی علاقوں میں ضرورت مند لوگوں کو ہرممکن مدد فراہم کر رہے ہیں جس میں موسم سرما کی ضروریات کے حوالے سے مہیا کی جانے والی امداد بھی شامل ہے۔

امدادی اداروں نے علاقے میں سڑکوں اور نکاسی آب کے نظام کی مرمت کا کام بھی کیا ہے جبکہ پناہ گزینوں کے کیمپوں کے قریب نو بازاروں کو بحال کیا جا چکا ہے۔

(جاری ہے)

'اوچا' نے بتایا ہے کہ دسمبر کے بعد ادلب اور شمالی حلب میں 260,000 سے زیادہ بچوں کو ہیٹر، گرم کپڑے اور دیگر امداد پہنچائی گئی ہے۔ قمیشلی اور الحسکہ میں 500 بچوں کے لیے موسم سرما کی شدت سے تحفظ کا سامان بھی مہیا کیا گیا ہے۔

طبی امداد کی فراہمی

امدادی اداروں نے مختلف علاقوں میں متحرک طبی ٹیمیں بھی بھیجی ہیں جو 800,000 آبادی میں ضرورت مند لوگوں کو ذہنی صحت کی خدمات مہیا کر رہی ہیں۔

علاقے میں انفلوئنزا جیسی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے جس کے ساتھ سانس کی شدید انفیکشن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے طبی شعبے پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ رواں سال شمال مشرقی علاقے میں 100 سے زیادہ طبی مراکز مالی وسائل سے محروم ہیں۔

امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ مارچ تک 67 لاکھ لوگوں کو مدد پہنچانے کی کارروائیوں کے لیے وسائل کی شدید قلت ہے۔

شام میں ضرورت مند لوگوں کی امداد کے لیے رواں سال 1.

2 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن تاحال اس رقم کا 10 فیصد ہی مہیا ہو پایا ہے۔اچھے حالات کا انتظار

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کےمطابق، خطے کے ممالک میں موجود شامی پناہ گزینوں کی 27 فیصد تعداد آئندہ 12 ماہ کے دوران وطن واپس آنا چاہتی ہے۔ بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہونے سے پہلے یہ تعداد صرف 1.7 فیصد تھی۔

بیرون ملک مقیم تین چوتھائی شامی پناہ گزین اچھے حالات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان میں 55 لاکھ لوگ ترکیہ، لبنان، اردن، عراق اور مصر میں رہائش پذیر ہیں۔

پناہ گزینوں کے خدشات

'یو این ایچ سی آر' کے مطابق بیشتر پناہ گزین اپنی املاک تک رسائی نہ ہونے کے باعث واپسی سے ہچکچا رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو سلامتی کےحالات پر خدشات ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد بنیادی سہولیات کی قلت، معاشی مسائل اور روزگار کی کمی کے باعث فی الوقت واپسی اختیار کرنا نہیں چاہتی۔

ادارہ اور اس کے شراکت دار ملک میں واپس آنے والے لوگوں اور دیگر ضرورت مند آبادیوں کو بنیادی ضرورت کی اشیا فراہم کر رہے ہیں اور گھروں کی بحالی میں بھی مدد دی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں، لوگوں کو نقد امداد فراہم کرنے کے ساتھ گمشدہ شناختی دستاویزات کے دوبارہ حصول اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے مشاورت مہیا کرنے کا کام بھی جاری ہے۔

ادارے نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ان لوگوں کی بے پایاں ضروریات سے نمٹنےکے لیے بڑے پیمانے پر مدد کی فراہمی یقینی بنائے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پناہ گزینوں لوگوں کو رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

بھارتی ریاست منی پور میں کرفیو؛ انٹرنیٹ معطل، مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں جاری

بھارتی ریاست منی پور میں حکومت نے کوفیو نافذ کرتے ہوئے انٹرنیٹ معطل کردیا ہے جب کہ اس دوران مظاہرین اور فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

شمال مشرقی بھارتی ریاست منی پور میں مودی سرکار حالات پر قابو پانے  میں یکسر ناکام ہو چکی ہے اور سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث امپھل سمیت 5 اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جب کہ ریاستی حکومت نے 5 دن کے لیے موبائل انٹرنیٹ اور دیگر ڈیٹا سروسز بھی معطل کر دی ہیں۔

متاثرہ علاقوں میں کشیدگی اس وقت بڑھی جب مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے دوران ایک بس کو آگ لگا دی گئی۔ مختلف علاقوں میں سڑکیں بند کر دی گئیں جب کہ مظاہرین نے ٹائر جلا کر راستے روک دیے۔

پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ارمبائی ٹینگول  نامی گروپ کے 5 ارکان کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے وادی کے اضلاع میں 10 روزہ شٹر ڈاؤن کا اعلان کر رکھا ہے۔

یاد رہے کہ منی پور میں گزشتہ 2 برس سے مییتئی اور کوکی برادریوں کے درمیان نسلی تصادم جاری ہے، جس کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ 2023ء میں ہونے والے شدید تشدد کے بعد تقریباً 60 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی آج تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکے۔

یہ کشیدگی زمین کے مالکانہ حقوق اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ جیسے حساس معاملات پر پیدا ہوئی، جس نے دونوں برادریوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا ہے جب کہ حکومت قیام امن میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے بھارت کی مرکزی حکومت پر جانبداری اور حالات کو مزید بگاڑنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ مودی سرکار منی پور کے بحران پر مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، جس کے نتیجے میں حالات دن بہ دن مزید بگڑ رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • قوم کیلئے جو بہتر ہے ادارے بھی اس کے ساتھ ہوں گے، پرویز الہٰی
  • مودی حکومت آج کی بات کرنے کے بجائے 2047ء کے سپنے بیچ رہی ہے، راہل گاندھی
  • ترسیلات زر میں غیرمعمولی اضافہ، سعودی عرب میں مقیم پاکستانی ورکرز پھر سرفہرست
  • معاشی استحکام کی طرف گامزن ہیں، جی ڈی پی گروتھ7.2 فیصد رہی ، اقتصادی سروے جاری
  • بھارتی ریاست منی پور میں کرفیو؛ انٹرنیٹ معطل، مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں جاری
  • گورنر پنجاب نے کھلی کچہری میں آئے لوگوں سے اسپیکر آن کر کے وزیراعظم کی بات کروائی
  • سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ: 4 سیٹر رکشوں پر پابندی
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں، شیخ رشید
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہو رہے ہیں: شیخ رشید احمد
  • ملکی سیاسی حالات خراب ہوتے جارہے ہیں: شیخ رشید