Daily Ausaf:
2025-04-25@03:24:16 GMT

سارک کا احیا، جنوبی ایشیاء میں امن اور ترقی کی کنجی

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
یاد رہے کہ پچھلی سات دہائیوں کے دوران، پاکستان اورانڈیاکے درمیان تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں، جن میں کشمیرکاتنازعہ اہم رہا ہے ۔ان تنازعات کی وجہ سے انڈیاکوہمیشہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی ممکنہ اتحادکے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔ انڈیا، امریکا، جاپان اور آسٹریلیاکے کواڈاتحادکاحصہ ہے،جس کامقصدچین کے اثرورسوخ کوکم کرناہے لیکن پاکستان،بنگلہ دیش،اورچین کے بڑھتے تعلقات اس اتحادکے لئے چیلنج پیداکرسکتے ہیں۔امریکاکی خواہش ہے کہ کواڈاتحادکی مشترکہ طاقت سے چین کامحاصرہ کیاجائے تاکہ اس کی معاشی برتری کو روکاجاسکے۔اسی لیے نومنتخب صدرٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی ٹیرف بڑھانے کاعندیہ دیاہے۔
امریکاکی پوری کوشش ہے کہ پاکستان میں چین کے اشتراک سے بننے والاسی پیک منصوبہ ناکام بنایا جائے۔اس مقصدکے لئے وہ انڈیا کے ذریعے پاکستان کوغیرمستحکم کرنے کے لئے اپنی پراکسیزکو بلوچستان اورپاکستان کے دیگرعلاقوں میں دہشت گردی کے لئے استعمال کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ انڈیاکے ہمسایہ ممالک کے اندربدامنی سازشوں کی بناپرجنوبی ایشیاء میں اضافہ ہورہاہے اورپاک بنگلہ دیش کے فوجی تعلقات سے انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔انڈیا،جوبنگلہ دیش کاایک بڑاتجارتی شراکت دار ہے،ان تعلقات کی وجہ سے اپنے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کرسکتاہے۔
انڈیا کویہ خدشہ ہے کہ بنگلہ دیش کوپاکستان کی مددسے خطے میں ’’را‘‘کی مددسے چلنے والی تمام علیحدگی پسند تحریکوں کوختم کرنے میں مددملے گی اورعین ممکن ہے کہ یہ معاملہ بھارتی سرزمین پرمنتقل ہوجائے۔ اس لئے انڈیا کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی آڑمیں چین اور امریکا جیسی عالمی طاقتوں کو ’’کواڈ‘‘کے پلیٹ فارم سے جنوبی ایشیاء میں مزیدمداخلت پرمجبورکیاجائے جس علاقائی سیاست کو مزیدپیچیدہ کرکے مفادات حاصل کئے جائیں۔
یہاں یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ شیخ حسینہ کی اقتدارسے بے دخلی کے بعدپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری نظرآئی ہے۔گزشتہ برس نومبرمیں پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان تقریباً 20برس تک منقطع رہنے والی سمندری تجارت بحال ہوئی تھی جب پاکستان سے سفرشروع کرنے والاکارگوبحری جہازچٹاگانگ پہنچاتھا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اورسیاسی تعلقات توگزشتہ برس ہی بہترہوناشروع ہوگئے تھے لیکن رواں برس کے ابتدائی ہفتوں میں پاکستان اوربنگلہ دیش کی افواج کے درمیان بھی رابطے بڑھتے ہوئے نظرآئے۔
14جنوری کوپاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہاگیاتھاکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیراوربنگلہ دیشی فوج کے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن نے ملاقات میں ’’مضبوط دفاعی تعاون‘‘استوار کرنے کااعادہ کیااو ر’’دونوں برادرانہ ممالک کی شراکت داری کوبیرونی دباؤ‘‘سے پاک رکھنے پرزور دیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمر الحسن اپنے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی فضائیہ کے سربراہ ایئرمارشل ظہیراحمدبابر سدھو سے بھی ملاقات کی۔اس ملاقات کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے سینئرافسرنے جے ایف17تھنڈر لڑاکا طیاروں سمیت پاکستان میں بنائے جانے والے دیگر عسکری سامان میں بھی دلچسپی کااظہارکیا۔انڈین میڈیاپر چلنے والی کچھ خبروں میں یہ دعویٰ بھی کیاگیاکہ ایسے امکانات بھی موجودہیں کہ پاکستانی فوج کی جانب سے بنگلہ دیشی فوج کوتربیت دی جائے تاہم پاکستانی فوج کے بیانات میں اس بات کاکوئی ذکرنہیں۔
یقینا بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے سبب دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے شیخ حسینہ کی حکومت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوئے تھے، 2016 ء میں انڈیا نے سارک اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا اور اس کے بعد بنگلہ دیش نے بھی فوراً ایسا ہی کیا تھا۔ اب پاکستان کے لئے مثبت بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں نئی انتظامیہ سارک کو دوبارہ بحال کرنا چاہتی ہے۔ ڈھاکہ کے امورمیں انڈیاکی مبینہ مداخلت پربنگلہ دیش میں ناراضی پائی جاتی تھی اوروہاں کی نئی انتظامیہ اب شیخ حسینہ کی پالیسیوں کوخیربادکہہ کرپاکستان سے تعلقات بہتر کر رہی ہے تاکہ لوگوں کی ناراضی کوکم کیاجاسکے۔
دوسری جانب اگراقتصادی نظریے سے دیکھیں تواس وقت بنگلہ دیش کوجے ایف17تھنڈر طیاروں کی فروخت پربات ہورہی ہے۔جب سکیورٹی تعاون بڑھے گا تو پاکستان کابنگلہ دیش پرسٹریٹجک اثرورسوخ بھی بڑھے گا۔ بنگلہ دیش سے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں پاکستان کے پاس ایک سٹریٹجک موقع آیاہے جس کے سبب پاکستان اس خطے میں ایک بارپھراہمیت اختیارکر گیا ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے بہترہوتے تعلقات انڈیاکے لئے سٹریٹجک تحفظات کاباعث بالکل ہوں گے کیونکہ نئی دہلی کااس خطے میں ایک اورملک پراثرو رسوخ کم ہوگیا۔
انڈیااوربنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں تنائوکاسبب شیخ حسینہ کی انڈیامیں موجودگی بھی ہے۔بنگلہ دیش کی نئی انتظامیہ انڈیاسے شیخ حسینہ کی حوالگی کامطالبہ بھی کرچکی ہے۔ انڈیااور بنگلہ دیش کے درمیان ایک طویل بارڈرہے اورپھربنگلہ دیش میں سیلاب بھی آتے رہتے ہیں اوران کاواٹرمینجمنٹ پربھی انڈیاسے مسئلہ رہتا ہے۔ اب بنگلہ دیش میں یہ سوچ بھی پائی جارہی ہے کہ کل کلاں اس اہم معاملہ پر اگر انڈیاجارحانہ مؤقف اختیار کرتا ہے توہوسکتاہے کہ بنگلہ دیش اپنے دفاع کومضبوط کرنے کے لئے پاکستان اورچین کے ساتھ سہ فریقی فورم تشکیل دے لیں۔
تاہم خطے کے امن کے لئے سارک پلیٹ فارم کوازسرنوزندہ کرنے کایہ بہترین موقع ہے کہ اس پلیٹ فارم پربیرونی دباؤکے بغیراپنے مسائل خودحل کئے جائیں اوریہاں کی کثیرآبادی جوخطِ غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پرمجبورکردیئے گئے ہیں،جنگی بجٹ کوختم کرکے ان کی فلاح وبہبودکے لئے استعمال کیاجائے۔ اس خطے کے ممالک کے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ اپنے مثبت رویہ سے باہمی تجارت پرتوجہ دیکرترقی کاوہ خواب پوراکریں جس کے لئے ہرملک کے سیاستدان حکومت کے حصول کے لئے عوام سے وعدے کرتے ہیں۔
انڈیاکے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس صورتحال کو جذبات کی بجائے حکمت اورسفارت کاری کے ذریعے حل کرے۔خطے میں پائیدار امن اوراستحکام کے لئے تمام ممالک کومل کرکام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تنازعات کے بجائے تعاون کوفروغ دیاجاسکے اوریہ اسی صورت ممکن ہوسکتاہے کہ مودی سرکارپاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بندکرے اورہزاروں میل دوربیٹھی قوتوں کے مفادکے لئے محض اس لئے خودکوقربانی کابکرانہ بنائے کہ ان قوتوں کے کندھوں پربیٹھ کروہ اس خطے کی سپرپاوربن جائے گا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اوربنگلہ دیش کے درمیان بنگلہ دیش کے درمیان بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج شیخ حسینہ کی پاکستان اور تعلقات میں کہ پاکستان پاکستان کے ممالک کے فوج کے چین کے کے لئے

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات کا نیا دور

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

 اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔

علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • بنگلہ دیش میں پہلی بار پاکستان لائیو اسٹائل ایگزیبیشن
  • بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنےکے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب
  • پاکستان بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، بھارت میں موجود پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم
  • سارک کے سابق سیکرٹری جنرل نعیم الحسن کا ٹورنٹو میں انتقال
  • سارک کے سابق سیکرٹری جنرل نعیم الحسن ٹورنٹو میں انتقال کر گئے
  • سارک کے سابق سیکریٹری جنرل نعیم الحسن ٹورنٹو میں انتقال کرگئے
  • کیا پاک افغان تعلقات میں تجارت کے ذریعے بہتری آئے گی؟
  • ڈھاکا یونیورسٹی کے ہاسٹل کا نام علامہ اقبال کے نام پر رکھنے کا مطالبہ