جسٹس سرفراز ڈوگر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھا لیا، صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس سرفراز ڈوگر سے حلف لیا۔

حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی، سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے حلف کے بعد قائم مقام چیف جسٹس کا لیا گیا۔

آرٹیکل 194کے تحت پہلے صدر مملکت صرف چیف جسٹس کا حلف لیتے تھے لیکن 26 ویں ترمیم کے بعد اب صدر مملکت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا حلف لیا جبکہ دیگر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کا حلف گورنر ہی لیں گے۔

واضح رہے کہ قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی کے معاملے پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا موقف چیف جسٹس آف پاکستان سے برعکس تھا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تحریری طور پر کہا کہ چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کے تحفظات سے متفق نہیں، ہائیکورٹ سے جج کا ٹرانسفر عارضی نہیں ہوتا، ٹرانسفر پبلک انٹرسٹ کے تحت کیا گیا جس کیلئے صدر مملکت،متعلقہ چیف جسٹس ہائی کورٹ سے مشاورت کی گئی۔

جسٹس سرفراز ڈوگر سے کہا گیا وہ مفاد عامہ کے تحت اپنی رضامندی کا اظہار کریں، جج نے مفاد عامہ کے تحت تبادلے کیلئے رضامندی ظاہر کی نہ کہ ذاتی مفاد کیلئے، جسٹس سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی سب سے نیچے نہیں کی جا سکتی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنیارٹی سے متعلق سول سرونٹ ملازمین کے رولز کا اطلاق ججز پر نہیں ہو سکتا، اعلیٰ عدلیہ کے ججز سول سرونٹ نہیں ہوتے، آئین پاکستان نے ان کیلئے الگ شرائط و ضوابط طے کر رکھے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: قائم مقام چیف جسٹس جسٹس سرفراز ڈوگر اسلام ا باد ہائی چیف جسٹس کا ہائی کورٹ صدر مملکت کے تحت کا حلف

پڑھیں:

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایک ہی طرز کے مبینہ پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھادیے

لاہور ہائیکورٹ میں سی سی ڈی کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم  نے فرحت بی بی کی درخواست پر سماعت کی، عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔ 

وکیل درخواست گزار  نے کہا کہ غضنفر حسن کو پولیس مقابلے میں مارا گیا، چیف جسٹس مس عالیہ نیلم  نے کہا کہ دیکھتے ہیں آئی جی پنجاب کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سی سی ڈی کے آنے کے بعد ایک ہی طرز کے پولیس مقابلے ہورہی ہیں، درخواست گزار کا ایک بیٹا تو مارا گیا دوسرے کے تحفظ کے لیے آئے ہیں۔

چیف جسٹس مس عالیہ نیلم  نے کہا کہ وکیل صاحب عدالت میں جذباتی باتیں نہیں ہوتیں،  ریکوری کے بعد ملزم کو لیجاتے ہوئے گاڑی پنکچر ہوئی تو ساتھیوں نے حملہ کردیا، یہ پولیس کی رپورٹ ہے، آئی جی کو اس لیے بلایا گیا کہ ایس ایچ او عدالت کو مطمئن نہ کر سکا، اب جب رپورٹ آئی ہے تو سارا کیس مختلف نکلا۔

چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ  کیا کہ فائرنگ اگر گاڑی پر ہورہی ہے تو فائر سیدھا ملزم کو لگتا ہے، نہ گاڑی پر نہ کانسٹیبل کو لگتا ہے اس لیے آپ کو بلایا گیا، اب آپ نے جو رپورٹ پیش کی ہے تو حقائق مختلف ہیں، ایک ،ایک دن میں 50 ,50 درخواستیں آرہی ہیں کہ جعلی مقابلے ہورہے ہیں۔

چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے آئی جی کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور  آئی جی پنجاب کو سی سی ڈی کے پولیس مقابلوں کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی۔

چیف جسٹس مس عالیہ نیلم  نے کہا کہ  اس وقت سی سی ڈی کے پولیس مقابلوں کی جو لہر چل رہی ہے اس کا جائزہ لیں، مبینہ پولیس مقابلوں کے خلاف ایک ایک روز میں 50 درخواستیں ا رہی ہیں، پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر اس کا جائزہ لیں تاکہ آئندہ جعلی پولیس مقابلے سامنے نہ آئیں۔

متعلقہ مضامین

  • عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے سے متعلق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلہ جاری
  • ضمانت قبل ازگرفتاری مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے،چیف جسٹس  پاکستان  نے فیصلہ جاری کردیا
  • علیمہ خان کا عمران خان سے پاور آف اٹارنی پر دستخط کی اجازت کیلئے عدالت سے رجوع
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہینِ مذہب کے الزامات پر کمیشن بنانے کا فیصلہ معطل کردیا
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • ریاست سے ناراضی کا مطلب یہ نہیں کہ ہتھیار اٹھا لئے جائیں، سرفراز بگٹی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ: سی ڈی اے کی تحلیل کا حکم برقرار، فوری معطلی کی استدعا مسترد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: سی ڈی اے کی تحلیل کا فیصلہ برقرار، فوری معطلی کی استدعا مسترد
  • چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایک ہی طرز کے مبینہ پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھادیے
  • پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26معطل ارکان بحال : قائم مقام سپیکر کے حکم کے بعد نوٹیفکیسن جاری