Express News:
2025-07-26@22:15:13 GMT

ٹرمپ کرنا کیا چاہ رہا ہے؟ 

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

ٹرمپ کو ایوان صدر سنبھالے ہوئے ابھی ایک مہینہ نہیں ہوا ہے اور جناب نے پوری دنیا میں نئے کٹے کھول دیے ہیں۔ آئے دن ٹرمپ کا کوئی نہ کوئی نیا بیان سامنے آتا ہے اور دنیا اپنا سر پکڑ لیتی ہے۔ ایک جانب اس نے دنیا بھر سے تجارتی جنگ چھیڑ لی ہے اور دوسری جانب اس نے امریکی انتظامی ڈھانچے کو بھی شدید دھچکے دینا شروع کردیے ہیں۔

حال ہی میں ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ جو بیان جاری کیا ہے، اس کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کو شدید ترین خطرات بھی لاحق ہوچکے ہیں۔ اس وقت ٹرمپ کے مخالفین سے زیادہ اس کے حمایتی پریشان ہیں کیونکہ ٹرمپ نہ روایتی سیاستدان تھا اور نہ ہے اور وہ جو کر رہا ہے، اس کو صرف وہی سمجھتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے ساتھ بٹھا کر اس صدی کا متنازع ترین بیان دیا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ ٹرمپ کو فلسطین اسرائیل مسئلے کی ابجد کا بھی علم نہیں ہے ورنہ ایسی حماقت کی توقع اس سے نہیں کی جاسکتی تھی۔

اسرئیلی وزیراعظم کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ غزہ کو خالی کردیا جائے اور تمام اہل غزہ مصر اور اردن کی جانب ہجرت کرجائیں۔ اُس نے کہا کہ ہم غزہ کی تعمیر نو کریں گے  اور اس زمین کو جدت دیں گے۔ جب وہ  یہ بکواس یا اعلان کر رہا تھا تو ساتھ میں تشریف فرما قصاب نما اسرائیلی وزیراعظم کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ چھپ نہیں رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا صدیوں پرانا کوئی خواب پورا ہو رہا ہے اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ٹرمپ کے جوتے اتار کے چاٹ لے۔

اس بیان کے بعد پوری دنیا سے ہی اس کی مخالفت سامنے آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا نے اس کو تسلیم تو نہیں کرنا تھا۔ اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے غزہ کو بطور ملک نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ کے ایک قطعہ کے طور پر دیکھا اور فیصلہ کیا ہے۔ تعمیر نو کے بعد وہ زمین ظاہر ہے کہ اسرائیلی عملداری میں جائے گی تو اہل غزہ کی آج تک لڑائی ہی اس نقطے اور مسئلے پر ہے کہ یہ ہماری زمین ہے اور ہم مزید غاصبانہ  قبضہ برداشت نہیں کریں گے۔ یعنی کہ ٹرمپ کے منصوبے کی بنیاد ہی غلط ہے۔  حماس پر کوئی عالمی اثر و رسوخ نہیں چلتا ہے۔ اس کو ایران نے جو دھوکا دینا تھا، وہ دے دیا اور انہوں نے اب جو لڑائی شروع کی ہے، اختتام بھی وہی کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے بیان کے بعد حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی مزید رہائی بھی روک دی ہے اور ٹرمپ نے جواباً ایک ہفتہ کی مہلت ان الفاظ میں دی ہے کہ اس کے بعد غزہ میں صرف تباہی ہوگی۔ ٹرمپ سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی ملک کی آبادی کو اس بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا حکم دینا عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ضمرے میں نہیں آتا ہے؟ یہ کیا اسرائیل کے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی جانب ایک قدم مزید نہیں ہے؟ کیا یہ اس کے ’’نیو مڈل ایسٹ ‘‘ پلان کی جانب ایک قدم مزید نہیں ہے کہ جس کا نقشہ اُس نے اقوام متحد ہ کے اجلاس میں دکھایا تھا۔ اس پلان کو اہل عرب نے مسترد کرنا تھا، وہ کردیا ہے۔ اردن، مصر اور سعودیہ نے واضح مخالفت کر دی ہے جس کے جواب میں ٹرمپ نے مصر اور اردن کی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

یہاں ایک نقطہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ٹرمپ سجی دکھا کر کھبی مارتا ہے۔ وہ روایتی سیاست دان نہیں بلکہ ایک کاروباری انسان ہے جو کہ ڈیل میکر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ اپنی زندگی میں تین مرتبہ بینک رپٹ یعنی مکمل دیوالیہ سے ملینئیر بنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کوئی چھنا کاکا نہیں ہے، وہ ذہین انسان  ہے اور وہ جو بھی کر رہا ہے وہ نشے میں ہرگز نہیں کر رہا ہے۔ اگر تو وہ جو کہہ رہا ہے، وہی کرے گا تو یہ بالکل  ہی ناقابل عمل ہے۔ نہ اہل غزہ اس کو تسلیم کریں گے، نہ ہی فلسطینی  اس کو تسلیم کریں،  نہ عرب دنیا اس کو مانے گی اور نہ ہی باقی  دنیا اس منصوبے کو تسلیم کرے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرمپ کا اصل منصوبہ کیا ہے اور وہ اس خطے میں اصل میں کیا کرنا چاہ رہا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہے کہ ٹرمپ ہے اور وہ کو تسلیم ٹرمپ کے نہیں ہے کریں گے رہا ہے کر رہا کے بعد

پڑھیں:

امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟

امریکا کا سفر کرنے کے خواہش مند یوگنڈا کے شہریوں کو جلد ہی ویزا کے لیے بھاری لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ نئی امریکی امیگریشن قانون سازی کے تحت بیشتر نان امیگرنٹ ویزوں پر 250 ڈالر کی ’ویزا انٹیگریٹی فیس‘ لاگو کر دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی ویزا کے لیے سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال: ’پرائیویسی ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘

یہ فیس اس نئے قانون کا حصہ ہے جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ون بگ بیوٹی فل بل‘(BBB) ،کا نام دیا ہے۔

یہ قانون 4 جولائی 2025 کو نافذ کیا گیا اور توقع ہے کہ یہ اکتوبر 2025 یا ابتدائی 2026 میں مکمل طور پر لاگو ہو جائے گا، جب امریکا کا نیا مالی سال شروع ہوتا ہے۔

یہ اضافی فیس تقریباً تمام عارضی ویزا اقسام پر لاگو ہو گی، جن میں سیاحتی (B1/B2)، تعلیمی (F، M)، تبادلہ پروگرام (J)، عارضی ملازمین (H)، اور ان کے زیر کفالت افراد شامل ہیں۔

سفارتی پاسپورٹ رکھنے والے اور ویزا ویور پروگرام (جس میں یوگنڈا شامل نہیں) کے تحت سفر کرنے والے افراد اس فیس سے مستثنیٰ ہوں گے۔

فیصلے کے اثرات اور اخراجات کی تفصیل

موجودہ شرح تبادلہ (1 امریکی ڈالر = تقریباً 3,820 شِلنگ) کے مطابق، 250 ڈالر کی فیس یوگنڈا کے تقریباً 955,000 شِلنگ بنتی ہے، جو کہ یوگنڈا کی کم از کم ماہانہ اجرت سے 5 گنا زیادہ ہے اور موجودہ ویزا فیس (185 ڈالر) سے بھی تقریباً دُگنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:غزہ کا دورہ کرنے والے امریکی ویزا درخواست گزاروں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس دیکھنے کا حکم

اس طرح ایک یوگنڈا کے شہری کو ویزا درخواست کے لیے مجموعی طور پر 1.66 ملین شِلنگ ادا کرنا ہوں گے، جس میں سفری اور دستاویزی اخراجات شامل نہیں۔

امریکی حکومت کے مطابق اس فیس کا مقصد ویزا کی شرائط کی بہتر نگرانی، غیر قانونی قیام اور ملازمتوں کے خلاف کارروائیوں کی مالی معاونت کرنا ہے۔

یہ فیس اس شرط پر قابلِ واپسی ہو گی کہ درخواست گزار امریکی ویزا کی تمام شرائط، بشمول مدت ختم ہونے سے قبل واپسی، پوری کریں۔

تنقید اور مخالفت

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ویزا شفافیت سے زیادہ ایک روک تھام کی حکمت عملی ہے۔

ایک تبصرہ نگار کے مطابق یہ دیانت دار مسافروں، طلبہ اور پیشہ ور افراد کو سزا دینے کے مترادف ہے اور تارکین وطن کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:جعلی دستاویزات پر امریکی ویزا کے حصول کی کوشش ناکام، 3 ملزمان گرفتار

ان کا کہنا تھا کہ امریکا دیواروں اور درختوں سے نہیں بلکہ تارکین وطن سے بنا تھا۔ یہ انٹیگریٹی نہیں، اخراج ہے۔

طلبہ سب سے زیادہ متاثر

یہ اضافی فیس ان یوگنڈا کے خاندانوں کے لیے خاص طور پر بوجھ کا باعث بنے گی جو اپنے بچوں کو امریکی جامعات میں تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں۔

مثلاً F-1  اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے اب صرف ویزا فیس میں 1.6 ملین شِلنگ سے زائد لاگت آئے گی، جب کہ اس میں SEVIS فیس، ٹیوشن ڈپازٹ، اور میڈیکل انشورنس جیسے اضافی اخراجات شامل نہیں۔

یوگنڈا کے ایک والد ڈینیئل کیرابو کا کہنا ہے کہ امریکا میں تعلیم پہلے ہی مہنگی ہے، اب تو کلاس میں قدم رکھنے سے پہلے ہی والدین کو لاکھوں خرچ کرنا ہوں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی ویزا طلبہ مسافر یوگنڈا

متعلقہ مضامین

  • حماس نے ٹرمپ کے غزہ مذاکرات ناکامی سے متعلق بیان کو مسترد کر دیا
  • چین اور امریکہ کے پاس تصادم کی کوئی وجہ نہیں ہے، چینی سفیر
  • حماس غزہ میں کوئی معاہدہ نہیں چاہتی اور ختم کردی جائے گی، ٹرمپ
  • ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان کو مسترد کر دیا
  • پولٹیکل پارٹی کو سائیڈ لائن کرنا ملک کے لیے اچھا شگون نہیں ہے، بیرسٹر گوہر
  • پی ٹی آئی بانی کے بیٹے آ رہے ہیں، جس نے گرفتار کرنا ہے کر لیں، علیمہ خان
  • علم ہی نہیں تھا کہ شاہ رخ خان کے ساتھ پرفارم کرنا ہے، ہمایوں سعید نے یادگار واقعہ سنا دیا
  • ٹرمپ انتظامیہ کاامریکا کا سفر کرنے والے ہر فرد پر 250 ڈالرز اضافی رقم عائد کرنے کا فیصلہ
  • سیاسی اختلافات کو نفرت میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے،حافظ نعیم الرحمان 
  • امریکی ویزا فیس میں اضافہ، غیر ملکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا ہوگا؟