اصغرخان ایک دیانتدار اور بااصول شخصیت کے باوجود سیاسی میدان میں ناکام رہے حالانکہ اگر لچک ،برداشت اور میانہ روی سے کام لیتے تو آج تاریخ ضروریادرکھتی اور اُن کا تذکرہ زیادہ نہیں تو نوابزادہ نصراللہ خان کی طرح ضرورہورہا ہوتاعلاوہ ازیں تحریکِ استقلال بھی ہے کہ نہیں ہے جیسے انجام سے دوچار نہ ہوتی۔
ائر مارشل جیسے منصب سے سبکدوشی کے بعد اصغرخان نے مصروفیت کے لیے سیاسی میدان کا انتخاب کیامگر سیاسی تربیت کی کمی کبھی پوری نہ ہو سکی البتہ بے داغ اور اُجلی شخصیت کی بدولت احترام ملا اور اُن کی جماعت دیکھتے ہی دیکھتے قومی اُفق پر نمایاں ہوتی گئی وہ عسکری پس منظر کے باوجود جنرل ضیاالحق کے سخت ناقد رہے 1985میںچاہے غیر جماعتی انتخاب ہوئے مگر فوجی حکومت کو اِس طرف لانے میں وہ ہمعصر جماعتوں کے سربراہوں سے زیادہ فعال رہے لیکن اُن کاایک غیر سیاسی فیصلہ سیاسی منظرسے غیاب کا سنگِ میل قرار پایا۔
ہوا یوں کہ جنرل ضیاالحق نے ملک میں عام انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیااِس فیصلے کی روسے کوئی امیدوار جماعتی انتخابی نشانات کے ساتھ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا تھا جس پرا صغرخان نے انتخابی عمل کابائیکاٹ کرنے کے ساتھ نہ صرف بھرپورمخالفت کا اعلان کر دیا بلکہ کہہ دیا کہ اگر میری جماعت کے کسی رُکن نے حصہ لیا تو وہ جماعت میں نہیں رہ سکے گا رفقانے بڑی کوشش کی کہ اصغرخان بے لچک رویہ ترک کردیں لیکن کسی کی نہ سنی گئی مگر انتخاب ہوں اور سیاسی لوگ حصہ نہ لیں ایسا ممکن ہی نہیںاپنی جماعت کے سربراہ کے دوٹوک اعلان کے باوجود تحریکِ استقلال کے کئی لوگ انتخابی میدان میں اُترے اورکامیابی سے ہمکنارہوئے اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اصغرخان رویے اور اعلان پر نظر ثانی کرتے لیکن ایسا کرنے کی بجائے اپنے تمام منتخب ساتھیوں کو جماعت سے ہی نکال دیا یہ ایسا جھٹکا تھا جس کے بعد اصغرخان کی سیاست نہ صرف ناکامیوں کے بوجھ تلے دبنے لگی بلکہ جماعت بھی محدودہوتی چلی گئی ۔
عمران خان کو حاصل مقبولیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا توشہ خانہ ،190ملین پونڈ کیس ہویا پھر عدت کے دوران نکاح کی پاداش میں ملنے والی سزائیں،اُن کاہر فدائی بانی چیئرمین کواب بھی دیانتداراور بے گناہ تصورکرتاہے اب جس طرح آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی قابلِ ذکر تعداد ایوانوں میں ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جماعت کی پالیسیاں باہمی مشاورت سے بنائی جاتیں لیکن ایسا نہیں ہورہابلکہ پوری جماعت کی رائے پر عمران خان کے ایک حکم کوفوقیت حاصل ہوتی ہے وہ جسے چاہتے ہیں بطور عہدیدار نامزد کرتے اورجسے چاہتے ہیں نکال باہر کرتے ہیںایسے رویے کو جمہوری نہیں کہہ سکتے ویسے بھی کارکنوں کو سڑکوں پر لانے اور مصائب کی بھٹی میں جھونکنے سے اتنا فائدہ نہیں ہو سکتا جتنا ایوانوں کے اندر احتجاج موثر ثابت ہو سکتا ہے مگر باربار احتجاج کے اعلانات ، عہدیداروں پر شک اور برطرفیاں ہورہی ہیں مگر کسی عہدیدار میں اتنی جرا¿ت نہیں کہ اصل حقائق سے باخبر کر سکے سبھی احکامات پر کورنش بجالانے میں عافیت سمجھتے ہیں یہ بے لچک اور غیر سیاسی رویہ اصغرخان سے بڑی حدتک مماثلت رکھتاہے۔
جب کوئی بشری خامیوں سے پاک نہیں تو عقلِ کُل ہونے کا دعویٰ کسی کو زیبا نہیں باربار غلطیاں کرنا اور پھر نقصان اُٹھانے کے باوجودسبق حاصل نہ کرناہرگزدانشمندی نہیں چلیں وقتی طورپرمان لیتے ہیں کہ پی ڈی ایم سے غیر سیاسی عناصر نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرائی اور منظوری میں بھی کردار ادا کیا لیکن قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت کو استعفے دیکر بے توقیر کرانے میں کسی غیر سیاسی کی نہیں بلکہ بانی چیئرمین کی ذہانت کارفرما تھی یہی نہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں کیا پنجاب اور کے پی کے میں اپنی جماعت کی حکومتیں ختم کرانے کا فیصلہ صائب تھا؟ یہ فاش غلطیاں تھیں جس کا خمیازہ نہ صرف ساری تحریکِ انصاف بلکہ بانی پی ٹی آئی خود بھی آج بُھگت رہے ہیں پھربھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور بے لچک رویے کی بدولت مزید سیاسی نقصان کی طرف گامزن ہیں ۔
نو مئی کے پُرتشدداحتجاج جیسی حماقت کاکوئی جواز نہ تھا اِس حماقت کا جو بھی ذمے دار ہے وہ تحریکِ انصاف کا بدترین دشمن ہے کیونکہ اِس حماقت نے پوری جماعت کو گہری کھائی میں دھکا دیااسی حماقت کے نتیجے میں ریاستی اِدارے شبہات کاشکار ہوئے اور ایسی سوچ پروان چڑھی کہ یہ جماعت ملک کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اِس لیے مزید چھوٹ دینا قومی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہو سکتا ہے مگر پی ٹی آئی کے رویے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اُسے حماقت کا ادراک ہے اور نہ صرف پشیمان ہے بلکہ مستقبل میں ایسے کسی سانحے کا حصہ بننے کااِرادہ نہیں رکھتی ۔
باربار اسلام آباد پر چڑھائی کرنا مناسب نہیں اور پھر عین اُس وقت جب غیر ملکی مہمان دارالحکومت میں موجود ہوتوپھرتومزیداحتیاط کرنی چاہیے مگر بیلا روس کے صدرالیگزینڈر لوکاشنکو کی آمد پر ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ خدانخواستہ پاکستا ن خانہ جنگی کا شکار ہے اِس لیے سرمایہ کاری کرنانقصان دہ ہے۔ مزیدیہ کہ ناکام احتجاج کااعتراف کرنے کے بجائے چھبیس نومبر2024 کے حوالے سے من گھڑت اور بے بنیاد افواہیں پھیلانے کے ساتھ آئی ایم ایف کو قرض دینے سے روکنے کی سازشیں کی جارہی ہیں گزرے برس دسمبر سے عمران خان تارکینِ وطن سے ترسیلاتِ زر روکنے کی اپیلیں کررہے ہیں حالانکہ پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے یہ رقوم بہت اہمیت رکھتی ہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیں اگر ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو صرف حکمران متاثر ہوں گے اور پی ٹی آئی محفوظ رہے گی؟ ظاہرہے ملک دیوالیہ ہوگا توسبھی زد میں آئیں گے ۔ ترسیلاتِ زر کسی سیاسی نظریے کی حمایت یا مخالفت کا معاملہ نہیں بلکہ تارکینِ وطن کے گھروالوں کی بنیادی ضروریات کا تقاضا ہے جنھیں کسی مہم سے روکنا ممکن نہیںاسی لیے اُن کے اپنے حمایتی بھی حصہ نہیں لے رہے اور بار بار اپیلوں کے باوجود ترسیلاتِ زرمیں کمی نہیں آئی بلکہ پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور تین ارب ڈالر کی حد مسلسل دوسرے ماہ بھی برقرارہے اسی طرح ماضی میں سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان پر کارکن تو ایک طرف عہدیدار بھی عمل نہ کر سکے سچ یہ ہے کہ حقائق اور ملکی مفاد کے منافی حکمتِ عملی عمران خان کی سیاست کے لیے سود مند نہیں ہو سکتی کاش وہ اصغرخان کے غیر سیاسی فیصلوں کے انجام سے کچھ سیکھ لیں ۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے باوجود غیر سیاسی پی ٹی آئی نہیں ہو کے لیے
پڑھیں:
بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں
بھارت کی نام نہاد بڑی جمہوریت میں مودی کی دوغلی پالیسی اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بے نقاب ہوگیا۔
انتہا پسند مودی سرکار کی جانب سے کرکٹ کے کھیل کو سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جنگی جنون میں مبتلا مودی اپنے مرضی سے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے لگا ۔
بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگوانت سنگھ مان کاکہنا تھاکہ لوگ پوچھ رہےہیں کہ سمجھ نہیں آ رہی بی جے پی کی پالیسی پاکستان کیخلاف ہے یا لوگوں کے خلاف ؟۔ پاکستان سے کسی فنکار کو فلم میں کام کرنے کے لیے لیا گیا جو پہلگام واقعے سے پہلے کی شوٹنگ ہے۔ کہا گیا وہ فلم ریلیز نہیں ہونے دیں گے ورنہ اس کو ملک کاغدار کہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ان کی ٹرول آرمی پیچھے لگ گئی کہ یہ تو غداری ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی بھی کہتےہیں کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ فلم روکی گئی تو نقصان پروڈیوسر اور فنکاروں کا ہوا ۔
https://cdn.jwplayer.com/players/dq5ngxE1-jBGrqoj9.html
بھگوانت سنگھ مان نے کہا کہ جو کل میچ ہوا، اس کا پروڈیوسر بڑے صاحب (امیت شاہ ) کا بیٹا ہے ، ان کو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ فلم تو پہلے کی شوٹنگ تھی جو ریلیز نہیں ہونے دی گئی مگرکل والا میچ تو لائیو تھا۔ اب ان کا میڈیا کہہ رہا ہے کہ کتنی بڑی بات ہے کہ ہاتھ نہیں ملایا ، کیا اس سے آپریشن سندور جیت گئے؟ ۔
انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ کھیلے تو ہیں ، کیچ تو پکڑے ہیں، چھکے انہوں نے بھی مارے آپ نے بھی مارے ۔ یاتو ایسے ہوا ہو کہ آپ نے کہا ہو ہم اس گیند کو ہاتھ نہیں لگاتے اس کو پاکستان کا بلا لگا ہوا ہے۔ 1987میں بائیکارٹ ہوا، ورلڈ کپ میں بھی انہوں نے بائیکاٹ کر دیا مگر اب بھی میچ کھیلے ۔ غداری کا کہہ کر فلم ریلیز نہیں ہونے دیتے پر میچ ہو جاتا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آتا میچ کرانے کی کیا مجبوری تھی ، میچ کھیلنے کا حصہ تو پاکستان کو بھی جائےگا۔ سرداروں سے کیا قصور ہو گیا ہے کہ انہیں پاکستان عبادت کے لیے نہیں جانے دیتے؟۔ اگر میچ کھیل سکتے ہیں تو کرتار پور عبادت کے لیے جانے دینے میں کیا حرج ہے ؟۔ کیا سارا کچھ آپ کی مرضی سے چلے گا ؟۔ افغانستان میں آفت آئی تو ایک منٹ میں پیسہ پہنچ گیا ، پنجاب میں آفت آئی مگر ابھی تک ایک پیسہ نہیں آیا۔
واضح رہے کہ بی سی سی آئی کے سیکریٹری اور بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کھیل میں سیاست لانے میں پیش پیش ہیں ۔ مودی کے بھارت میں اخلاقیات کی پستی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے خلاف ظلم بھی جاری ہے۔