بھارت،خواتین کے خلاف جرائم اور ایل او سی کی خلاف ورزیاں
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
بھارت ہر سال 13 فروری کو خواتین کا قومی دن مناتا ہےتاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں خواتین کو بڑے پیمانے پر تشدد، آبروریزی اور بدسلوکی کا سامنا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مودی کے دور حکومت میں بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہےاور بھارت اس وقت عصمت دری اور صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں دنیا میں سرفہرست ہے۔
رپورٹ میں کہا گیاکہ بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک عورت آبروریزی کا نشانہ بنتی ہے جبکہ ہر 30 گھنٹے میں ایک خاتون کو اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے،دہلی کو عصمت دری کی راجدہانی کا نام دیاگیا ہے جہاں گزشتہ چند سالوں میں لڑکوں کی آبروریزی کے کئی بھیانک واقعات پیش آئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت میں خواتین کو عام طور پردوسرےدرجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، نئی دہلی خواتین کے لیے خطرناک ترین شہروں میں شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوج مقبوضہ جموںوکشمیر میں خواتین کی آبروزیری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جسکا مقصد کشمیریوں کو غیر قانونی بھارتی قبضے کے خلاف جدوجہد سےروکنا ہے۔بھارتی فورسز کےاہلکاروں نے متنازعہ علاقے میں جنوری 1989 ء سے رواں برس فروری تک 11ہزار2سو65 کشمیری خواتین کو اجتماعی آبروریزی اور بےحرمتی کا نشانہ بنایا جبکہ اس عرصے کےدوران فورسز کی جابرانہ کارروائیوں کے نتیجے میں 22ہزار 9سو 80خواتین بیوہ ہوئیں۔بہت سی کشمیری خواتین آدھی بیوائوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کے شوہروں کو بھارتی فوجیوں نے لاپتہ کر دیا ہے ۔
حریت رہنمائوں اور انسانی حقوق کے محافظوں نے کہا ہے کہ بھارت خواتین کا قومی دن منانے کاکوئی حق نہیں رکھتا کیونکہ دنیا کے سب کے بڑے نام نہاد جمہوری ملک اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں خواتین کی جو حالت زار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں خواتین کی آبروریزی کو ایک جنگی ہتھیار کےطورپر استعمال کر رہا ہے اور 10 لاکھ سے زائد بھارتی فورسز اہلکاروں نےخواتین اوربچوں سمیت تمام کشمیریوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر مہذب دنیا کے لیے ایک واضح چیلنج ہے، عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں خواتین کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کا نوٹس لے۔
دوسری طرف بھارتی فوج اورانٹیلی جنس ایجنسیوں کی آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے پرامن علاقوں میں بدامنی پھیلانے کا پردہ فاش ہوگیا۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے ایل او سی پر آئی ای ڈیزکی نقل و حمل اور استعمال کے ذریعے تخریب کاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چکوٹھی، نیزا پیر، چیریکوٹ، رکھ چکری، دیوا، بٹل، کوٹ کوٹیرہ اور دیگر علاقوں میں بھارتی آئی ای ڈیز ملنے اور پھٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کی ان تخریبی سرگرمیوں میں آئی ای ڈیز،ہتھیار اورمنشیات کی نقل و حمل باغ، بٹل، دیوا اور دیگر علاقوں میں کی جا رہی ہے۔رواں ماہ کی 4 سے 6تاریخ کے دوران بٹل سیکٹر اور راولاکوٹ کے علاقے میں 4 بھارتی آئی ای ڈیز برآمد ہوئیں جبکہ دھماکے سے ایک شہری شہید ہوا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق 12 فروری 2025کو بھارتی فوج نے دیوا اور باگسر سیکٹر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں دو جوان زخمی ہوئے۔پاکستان کی جانب سے پونچھ، باغ، کوٹلی، میرپور اورراولاکوٹ میں بدامنی پھیلانے اوربھارتی آئی ای ڈیزکی نقل وحمل پربھارت سےاحتجاج بھی کیاگیاہے۔اقوام متحدہ کے حکام کےساتھ بھارتی تخریبی سرگرمیوں کےشواہد کاتبادلہ بھی کیا گیا ہے۔بھارتی فوج کی جانب سے پاکستانی فوج پر دراندازی کے جھوٹے الزامات کیلئے فالس فلیگ آپریشنز اور جعلی مقابلے کئےجاتے رہے ہیں۔ بھارتی فوج نے متعدد افسران جن میں 3راجپوت، 12 جاٹ اور دیگریونٹس کو منشیات اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کیلئے فوجی ذرائع استعمال کرنے پر سزائیں بھی دیں۔ڈبل ایجنٹوں کےذریعے اسلحے کی کھیپ کوبھارتی سرحدی یونٹس کیساتھ مل کر سمگل کیا جاتا ہےتاکہ ان کو پاکستانی ہتھیار ثابت کیا جاسکے۔بھارتی فوج بعدمیں ان ڈبل ایجنٹوں کو پاکستانی ظاہر کرکے مالی انعامات کیلئے مار دیتی ہے۔سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج میں بددلی کی وجہ سے ہر سال خود کشی کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔خودکشی کے واقعات کو بھارتی فوجی تحقیقات سے بچنے کیلئے دو طرفہ فائرنگ تبادلے کانام دے دیتی ہے۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے دیگر ممالک میں دراندازی اور تخریبی سرگرمیاں کے ناقابل تردید شواہدکی تاریخ موجود ہے۔بھارت کی جانب سے فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی، آئی ڈی ایز اورہتھیاروں کی نقل و حمل خطے میں امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ادھر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت 2024کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 96ویں نمبرآگیاہے کیونکہ اس کا مجموعی اسکور ایک پوائنٹ گر کر 38ہو گیا ہے۔ یہ انڈیکس جو ماہرین اور کاروباری افراد کے مطابق180ممالک اور خطوں میں سرکاری شعبے کی بدعنوانی کی درجہ بندی کرتا ہے ، صفر سے 100کا پیمانہ استعمال کرتا ہے، جہاں صفرانتہائی کرپٹ ہے اور 100بہت صاف ہے۔2024 میں بھارت کا مجموعی اسکور 38تھا جبکہ 2023میں یہ 39اور 2022میں 40تھا۔ 2023ء میں بھارت کا رینک 93تھا۔سب سے کم کرپٹ ملک ہونے کی فہرست میں ڈنمارک سرفہرست ہے، اس کے بعد فن لینڈ اور سنگاپور ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت استعمال کر بھارتی فوج میں خواتین کی جانب سے کے واقعات خواتین کو بھارت میں خواتین کے میں بھارت کی نقل کے خلاف گیا ہے آئی ای
پڑھیں:
پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار، شہباز شریف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اسلام آباد میں بدھ کے روز برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ لڑائی کے دوران کشیدگی کو کم کرنے میں برطانیہ کے کردار کو سراہا۔
ریڈیوپاکستان کے مطابق اس موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ "پاکستان تمام تصفیہ طلب معاملات پر بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار" ہے۔
پاکستان نے پہلے بھی بھارت کو کشمیر کے تنازعہ اور پانی کی تقسیم سمیت تمام متنازعہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ تاہم بھارت نے ابھی تک اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
پاکستانی وزیر اعظم نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بحال کرنے کے فیصلے کا بھی خیرمقدم کیا اور ہائی کمشنر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا، "یہ (فیصلہ) پاکستانی-برطانوی کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان عوامی تبادلے کو بڑھانے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔
(جاری ہے)
"وزیر اعظم پاکستان نے کہا، "پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی برطانیہ کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے، جس کی اس وقت پاکستان کے پاس ماہانہ صدارت ہے۔" میریٹ نے وزیر اعظم شہباز کو اپنے حالیہ دورہ لندن کے بارے میں آگاہ کیا، جہاں انہوں نے دوطرفہ تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے وسیع مشاورت کی۔
سلامتی کونسل میں پاکستانی سفیر کا بھارت پر جوابی حملہبدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے ایلچی عثمان جدون نے سرحد پار دہشت گردی سے متعلق بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "بھارت مظلوم بننے اور الزام تراشی کے تھکے ہوئے بیانیہ" کا سہارا لینے کے بجائے اب اپنا رویہ بدلے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر پرواتھنی ہریش نے پاکستان پر "سرحد پار دہشت گردی پھیلانے" کا الزام لگایا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے نائب مستقل نمائندے عثمان جدون نے سکیورٹی کونسل کے 15 رکنی ادارے کو بتایا کہ اصل میں: "یہ بھارت ہے جو میرے ملک اور اس سے باہر بھی دہشت گردی کو فعال طور پر تعاون، مدد اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "گھمنڈ اور رعونت کے غلط احساس سے اندھے ہونے کے بجائے، مظلوم ہونے اور الزام تراشی کے اپنے تھکے ہوئے بیانیے کا سہارا لینے کے بجائے، بھارت کو سنجیدگی سے خود کا جائزہ لینا چاہیے۔ اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے اور تمام معاملات پر اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنی چاہیے۔"
عثمان جدون نے کہا کہ خاص طور پر افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارتی سفیر نے منگل کے روز پاکستان کو اس وقت نشانہ بنایا، جب دن کے اوائل میں ہی کونسل نے اتفاق رائے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں اور تنازعات کے پرامن حل، بین الاقوامی قانون کے احترام اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر موثر عمل درآمد کی ضرورت کی حمایت کی تھی۔
کشمیر پر 'بھارت کی خلاف ورزیاں'پاکستانی ایلچی نے اپنی تقریر کے دوران اس بات پر زور دیا کہ "سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "اقوام متحدہ کے چارٹر اور مبینہ طور پر تنازعات کے پرامن حل کے اصول کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہوئے، بھارت جموں و کشمیر کے تنازعے پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس طرح اس نے کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے استعمال سے بھی منع کر رکھا ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ "ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت، جو خود جموں و کشمیر کے تنازعے کو سلامتی کونسل میں لے کر آیا تھا، اس تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر رہا ہے۔"
جدون نے مزید کہا کہ "بھارت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقوں سے بھی باہر پھیلی ہوئی ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ اس کا جو ہولناک سلوک ہے اسے بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا ہے۔
" بھارت کے چھ طیارے تباہ کرنے کا دعویپاکستانی سفیر نے اس موقع پر مئی کے اوائل میں بھارت کے حملے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جواب میں پاکستان اپنے دفاع کے حق کے تحت "مناسب لیکن نپی تلی جوابی کارروائی کی"۔ انہوں نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد خصوصی طور بھارت کے فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا، جس کے نتیجے میں "دیگر اہم فوجی نقصانات کے علاوہ جارحیت میں حصہ لینے والے چھ بھارتی طیاروں کو مار گرایا گیا۔
"جدون نے مندوبین کو بتایا، "پاکستان کی طاقت اور ذمہ دارانہ اندازِ فکر اور پھر امریکہ کی سہولت کاری کی وجہ سے اس دشمنی کا خاتمہ ہوا، جیسا کہ صبح امریکہ کے بیان میں بھی اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔"
بھارتی مندوب نے اس سے قبل کیا کہا تھا؟منگل کے روز اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا اورپہلگام واقعے کے بعد پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں" کو ہی نشانہ بنایا۔
اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے۔"واضح رہے کہ بھارت متنازعہ خطہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام علاقے پر بھی اپنا دعوی کرتا ہے۔
بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم شروع ہو گیا تھا، کیونکہ نئی دہلی نے اس کا الزام اسلام آباد پر لگایا۔ تاہم پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی اور واقعے کے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور پھر چار روز ہ لڑائی کے بعد امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی نے لڑائی کا خاتمہ کیا۔
اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تعطل کا شاکر ہو گئے ہیں۔
ادارت: جاوید اختر