جماعت اسلامی جلد صوبہ بھر میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی، عبدالواسع
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ آج ہمارے معاشرے میں قتل و غارت گردی، بدامنی، لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ اور ظلم کا نظام قوم پر مسلط ہے، موجودہ صورتحال اسلامی نظام سے دوری کا شاخسانہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا وسطی عبدالواسع نے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جنرل (ر) پرویز مشرف اور تبدیلی کی دعوے دار تحریک انصاف کی حکومتوں میں آنے کے بعد اپنے منظور نظر صنعتکاروں کو نوازتے ہوئے ان کی مہنگی آئی پی پیز کے ساتھ شرمناک معاہدوں کے زریعے قوم کی جیبوں پر اربوں روپے کا ڈاکہ ڈالا ہے لیکن اس کے باوجود ملک بھر بالخصوص خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں عوام 12 اور بعض علاقوں میں 18 گھنٹوں کی طویل ترین ناروا لوڈشیڈنگ سے دوچار ہیں جس کے خلاف جماعت اسلامی جلد صوبہ بھر میں بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی۔ آج ہمارے معاشرے میں قتل و غارت گردی، بدامنی، لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ اور ظلم کا نظام قوم پر مسلط ہے، موجودہ صورتحال اسلامی نظام سے دوری کا شاخسانہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی خیبرپختونخوا وسطی کے امیر عبدالواسع نے پیربالاورسک روڈ پرجماعت اسلامی این اے28 پشاورکے تحت منعقدہ ورکرزکنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر جماعت اسلامی کےضلعی امیر بحراللہ خان ایڈوکیٹ،این اے28کے امیر افتخاراحمدخان اور زونل امیر وسابق صوبائی وزیر حافظ حشمت خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک طرف ملک پر فارم47کےنتیجے میں مسلط وفاقی حکومت صوبے کے عوام کو مسلسل نظرانداز کررہی ہے اور صوبے کو اس کے آئینی حقوق سے محروم رکھا ھے جبکہ دوسری طرف گزشتہ 12سالوں سے تبدیلی اور انصاف کے نام پر برسراقتدار صوبائی حکومت کی ترجیحات میں عوام کو ریلیف کی فراہمی دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے۔مقررین نے کہا کہ عوام کو صحت ،تعلیم، روزگار اور امن وامان کی فراہمی حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ھے ان حالات میں حکمرانوں کے مظالم سے نجات کے لئے قوم کو متحدہوناپڑے گااوراس وقت قوم کے پاس حقیقی تبدیلی کے لئے جماعت اسلامی کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچاھے
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی سے فصلوں کو نقصان، انڈیا میں قرضوں سے تنگ کسانوں کی خودکشیاں
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے کھیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے میرابائی کھنڈکر نے کہا کہ ان کی زمین صرف قرض اگاتی ہے کیونکہ خشک سالی کے باعث فصلیں خراب ہو گئیں اور ان کے شوہر نے خودکشی کر لی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت میں کسانوں کی خودکشی کی تاریخ طویل ہے جہاں بہت سے کسان اس تباہی سے صرف ایک فصل اچھا نہ ہونے کی دوری پر ہوتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا ہونے والے شدید موسم نے ان کسانوں پر مزید بوجھ ڈال دیا ۔ پانی کی قلت، سیلاب، درجہ حرارت میں اضافہ اور بے ترتیب بارشوں کے سبب فصلوں کی پیداوار میں کمی اور اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کے بوجھ اس زرعی شعبے پر بھاری اثر ڈال رہے ہیں جو انڈیا کی ایک اعشاریہ چار ارب آبادی میں سے 45 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
مراٹھواڑہ کی میرابائی کے شوہر امل پر مقامی سودخوروں کا اتنا قرض چڑھ گیا تھا جو ان کی سالانہ آمدنی سے سینکڑوں گنا زیادہ تھا۔ ان کی تین ایکٹر پر مشتمل سویابین، باجرا اور کپاس کی فصل شدید گرمی کی لپیٹ میں آ کر سوکھ گئی تھی۔
30 کی میرابائی نے روتے ہوئے کہا کہ ’جب وہ ہسپتال میں تھا تو میں نے تمام دیوتاؤں سے اس کی زندگی کی بھیک مانگی۔
امل زہر کھانے کے ایک ہفتے بعد چل بسے تھے۔ وہ اپنے پیچھے میرابائی اور تین بچے چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی آخری بات چیت قرض کے بارے میں ہی تھی۔
نئی دہلی میں قائم تحقیقاتی ادارے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ کے مطابق گزشتہ برس انڈیا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے تین اعشاریہ دو لاکھ ہیکٹر زرعی زمین متاثر ہوئی جو کہ بیلجیئم سے بھی بڑے رقبے کی زمین ہے۔
اس متاثرہ زرعی زمین کا 60 فیصد سے زیادہ صرف مہاراشٹر میں واقع ہے۔
امل کے بھائی اور ساتھی کسان بالاجی کھنڈکر نے کہا کہ ’گرمیاں بہت شدید ہو گئی ہیں اور ہم جو کچھ بھی ضروری ہو، وہ کر لیں، پھر بھی پیداوار پوری نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے کہا کہ کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے کافی پانی نہیں اور بارش بھی ٹھیک سے نہیں ہوتی۔‘
انڈیا کے وزیر زراعت شیو راج سنگھ چوہان کے مطابق 2022 سے 2024 کے درمیان صرف مراٹھواڑہ میں تین ہزار 90 کسانوں نے خودکشی کی۔ یعنی اوسطاً روزانہ تقریباً تین کسانوں نے اپنی جان لی۔
سرکاری اعدادوشمار میں یہ واضح نہیں کہ کسانوں کو خودکشی پر کس چیز نے مجبور کیا۔
ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ترقیاتی امور کے پروفیسر آر راما کمار نے کہا کہ انڈیا میں کسانوں کی خودکشیاں دراصل زرعی شعبے میں آمدنی، سرمایہ کاری اور پیداوار کے بحران کا نتیجہ ہیں۔
راما کمار نے کہا کہ حکومت کسانوں کو شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے بہتر انشورنس سکیموں کے ذریعے مدد فراہم کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔
میرابائی کے مطابق صرف کھیتی باڑی سے گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ ان کے شوہر پر قرضہ آٹھ ہزار ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جو انڈیا جیسے ملک میں ایک بہت بڑی رقم ہے جہاں ایک اوسط زرعی گھرانے کی ماہانہ آمدنی تقریباً 120 ڈالر ہوتی ہے۔
میرابائی دوسرے کھیتوں پر مزدوری کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ قرض واپس نہیں چکا سکی۔
مراٹھواڑہ کے ایک اور کھیت میں 32 برس کے کسان شیخ عمران نے گزشتہ سال اپنے بھائی کی خودکشی کے بعد خاندان کے چھوٹے سے کھیت کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔
وہ سویا بین کی فصل کے لیے قرض لینے کے بعد 1100 ڈالر سے زیادہ کے مقروض ہو چکے ہیں۔