Express News:
2025-11-04@04:51:31 GMT

اظہار کو ڈستا ہوا قانون

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

جب سماج غیر سنجیدہ اور غیر منطقی بنیاد پر تعمیر ہونے لگیں تو اس سماج کی آخری منزل غیر سیاسی اور غیر جمہوری سماجی سوچ پر مرتکز ہوکر بے ابتری اور غیر منصفانہ سماج کی بربادی پر اپنا اختتام کرتی ہے۔ ہمارے سماج میں اکثر غیر جمہوری رویوں کا ذکر بہت فراخدلی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور ملک کے سیاسی فیصلے جب آمرانہ انداز سے ہونے لگتے ہیں تو جمہوریت کو تاراج کرنے کا واویلا دیکھنے کو ملتا ہے۔

کسی حد تک جمہوری تقاضوں کی مانگ اور جمہوری سیاسی عمل کی خواہش یقینا آمرانہ سوچ کے مقابل ایک خوش آیند اور ترقی پسند سوچ ہے، جس کی کمزور سے کمزور شکل بھی آمرانہ طرز فکر سے بہت بہتر ہے اور یہ سوچ ایک جمہوری سماج کے قیام کے لیے نیک شگون بھی ہے۔ 

مگرکیا ہم جمہوریت کی تفھیم اپنے خیالات کی بنیاد پر تعمیرکررہے ہیں یا کریں گے یا جمہوری رویوں کی اصل روح اور عمل میں اسے دیکھیں گے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو صدیوں سے مختلف اشکال میں حل کیے جانے کی کوشش میں اب تک مکمل طور سے کامیاب نہیں ہو پایا ہے۔

جمہوریت کی تفھیم کے سلسلے میں اس گھمبیر صورتحال کو سمجھنے اور اس میں نظر آنے والی کمزوریوں کی لاتعداد وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں مگر سردست پاکستان کے موجودہ سیاسی انتشار میں جمہوریت کے متعلق واضح طور پر تین وجوہات ابھرکر ہمارے سامنے ہیں۔ پہلی جمہوریت کی تفھیم سے لاعلمی دوسری مکمل جمہوری و عملی انسانی رویہ اور تیسری کہ کیا دنیا میں کہیں بھی جمہوریت ریاستی امور میں کوئی حیثیت رکھتی ہے؟

 سب سے پہلے ہمیں اس ابہام سے نکلنا ہوگا کہ دنیا میں سرمایہ دارانہ معیشت کے ہوتے ہوئے مکمل جمہوری و انسانی حقوق ایک عام فرد کو مل سکتے ہیں؟ یا کہ یہ جمہوری حقوق جدید ترین ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو میسر ہیں یا مکمل طور سے دنیا کی کوئی ریاست جمہوری تقاضوں پر کھڑی ہو کر اپنے عوام کو کیا مکمل جمہوری آزادی دیے ہوئے ہے؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر دورکے انسان نے جبر اور استبداد کا مقابلہ کرتے ہوئے  اپنی مضبوط منڈلیاں قائم کر کے ہی کچھ حقوق حاصل کیے ہیں جن کو بہت خوبصورتی سے سرمایہ دارانہ جبر نے جمہوریت کے کپڑے پہنا کر دوسری جانب سے ریاستی قوانین کے ذریعے عوام کے حقوق سلب کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ 

قانون منظورکرا لیے جاتے ہیں، پھر ان قوانین کی آڑ میں قومی وحدت اور ملک کی آزادانہ حیثیت کا راگ الاپ کر غیر سیاسی افراد سے پروپیگنڈے کے ذریعے ریاستی طاقت کے ساتھ بیانیہ گھڑا جاتا ہے اور پارلیمان کو عوام کے ترجمان کے طور پر لا کر ریاستی طاقت ہر وہ کام کر لیتی ہے جس سے عام فرد کے جمہوری حقوق بہت خوبصورتی سے دبا لیے جاتے ہیں۔ 

یہ کام پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں بہت فراخدلی کے ساتھ ہر حکمران جماعت کرتی ہے اور پھر وہی حکمران جماعت جب اپوزیشن میں تبدیل کردی جاتی ہے تو وہ اپنے غیر جمہوری اقدامات اور پاس کردہ بل بھول کر عوام کے انسانی اور جمہوری حقوق کا راگ الاپتی ہے، اسی درمیان حکمرانی کے دوران رہنے والی جماعت اپنے حمایتی پیدا کر لیتی ہے جو بعد میں اقتدار کے چھن جانے کے بعد اپوزیشن کے جمہوری اور انسانی حقوق کے راگ کا الاپ کر کے عوام کو آزادانہ اور جمہوری سوچ کے ساتھ غور و فکر سے دور کر دیتے ہیں۔

اور یوں ملک میں ایک گروہ بادی النظر میں طاقتور ریاستی گروہ کے ہاتھ مزید مضبوط کر رہا ہوتا ہے، جس کا پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ ریاست کا طاقتورگروہ آنے والے حکمران ٹولے کو اقتدار میں نہ رہنے کا خوف دلا کر ہر وہ اقدام کرلیتا ہے جس کی اس طاقتور گروہ کو ضرورت ہوتی ہے اور پھر حکمران جماعتیں اور اپوزیشن کی بلند بانگ دینے میں عوام کی جمہوری اور سیاسی آزادی سلب ہو کر سماج کو غیر منطقی سیاسی گروپ میں تقسیم کر دیتے ہیں ، یہی کچھ ہمارے سماج کے ساتھ 70 دہائیوں سے ہو رہا ہے۔

آج اگر پی ٹی آئی کو ’’ پیکا کا قانون کالا‘‘ نظر آرہا ہے تو کل پی ٹی آئی کی جانب سے جب  پاکستان میڈیا اتھارٹی کا غیر جمہوری قانون لایا گیا تھا تو مسلم لیگ ن اور پی پی کو یہ قدم کالا اور غیر جمہوری لگ رہا تھا جب کہ اس وقت بھی صحافتی تنظیموں کا احتجاج صحافتی آزادی کے ماضی کے قانون پر تھا اور ملک کے صحافی یک زبان ہوکر پی ٹی آئی کے اس غیر جمہوری قانون کو روک سکے تھے۔

ہم کل کے صحافتی تناظر پر غور کریں تو صحافیوں کی مرکزی تنظیم (PFUJ) میں مختلف رائے کے باوجود یکجہتی اور قربانیوں کی ایسی مثالیں موجود ہیں جو فرد یا گروہ کے مفادات سے بالا تر تھیں، یہی صحافتی یکجہتی کی وہ درخشاں تاریخ ہے جس سے ملک کا بڑے سے بڑا آمر اور جمہوری آمر  صحافتی تنظیم (PFUJ) کی جمہوری جدوجہد اور تنظیم کے یکجہتی کے اصول سے خوف زدہ رہ کر صحافت کی مذکورہ تنظیم کی حیثیت کے پیش نظر ریاست فیصلے قانون اور ریاستی امور میں تنظیم سے مشاورت پر مجبور ہوا کرتی تھی۔

صحافتی ٹریڈ یونین کو منظم کرنے کے عمل میں یہ نکتہ قابل غور رہے کہ دنیا کا موجودہ عہد تمام ریاستوں کے وسائل کی  لوٹ مار کے سرمایہ دارانہ طرز فکر پر چلائی جارہا ہے، جس میں انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوری قدروں کے تقدس کو پامال کرنے کے تمام لوازمات کو ملک کی سلامتی و بقا کے نام پر جبری قانون کی شکل میں ڈھال کر مزدور حقوق اور ان کی جمہوری آزادی سمیت اظہار رائے کے حق کو سلب کرنا سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ کے نظام کی ضرورت و غایت ہے۔

کیونکہ عوام و صحافت کے اظہار رائے کے حق کو دبائے بنا سرمایہ دارانہ معیشت اپنا حجم یا ریاستی بے حسی کے مقاصد نہیں حاصل کر سکتی، لٰہذا ایسی ریاستوں کے لیے ازحد ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اظہار کی آزادی کا گلہ گھونٹ کر عوام کے شہری اور جمہوری حقوق کو پامال کریں اور سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ جاری رکھیں جس میں ’’خبر‘‘ ایسے اہم ذریعے کو عوام سے دور رکھنے کی حکمت عملی بہت اہم ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی اس اہم وجہ یا طرز فکر کو سمجھے بغیر ٹریڈ یونین کی تنظیم کاری ٹریڈ یونین کے بنیادی و نظریاتی تقاضوں کو جانے بنا نہیں کی جاسکتی۔

وقت اور حالات کے اس اہم موڑ پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ موجودہ دور سرمایہ دارانہ ریاستوں کے غیر جمہوری رویوں اور قانون سازی کی وجہ سے ریاستوں کی شکستگی کا دور ہے۔ سرمایہ دار دنیا عوام کے جمہوری و انسانی حقوق نہ دینے کی دوڑ میں عوام سے سب سے پہلے ’’ اظہارکا حق‘‘ چھیننے کے مرحلے میں جدید ٹیکنالوجی کے تحت ڈیجیٹل میڈیا کے آزادانہ اور غیر شائستہ اظہار اور میڈیا سے دراصل صحافت کی ان جمہوری حقیقتوں کو ڈسنا چاہتی ہے جن سے صحافت کے شائستہ رویے عوام میں اظہار کی آزادی و شعور کی جدوجہد کو صیقل کرسکیں۔

لٰہذا اس اہم مرحلے پر صحافتی تنظیموں کو منظم ہونے کے جدید تقاضے اپنی صفوں میں جمہوری فکر کے ذریعے ڈالنے ہوں وگرنہ نہ اظہار رہے گا اور نہ اس کی آزادی کی جدوجہد، پھر ہم صرف پاکستان کی درخشاں نظریاتی صحافتی تاریخ کے گم گشتہ صفحات ہی کھنگالتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ دارانہ جمہوری حقوق اور جمہوری غیر جمہوری جمہوری ا اور غیر عوام کے سیاسی ا کے ساتھ ہے اور

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندوتوا بھارتی حکومت کیطرف سے اگست 2019ء میں 370 اور 35 اے دفعات کی منسوخی کے بعد بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بڑے پیمانے پر تیزی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فورسز نے اگست 2019ء سے اب تک مقبوضہ علاقے میں کئی خواتین سمیت 1 ہزار 43 افراد کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں میں اکثر نوجوان تھے۔ اس عرصے کے دوران 2 ہزار 6 سو 56 سے زائد افرار کو زخمی جبکہ 29 ہزار 9 سو 97 سے زائد کو شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ دریں اثنا بھارتی فورسز نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں گزشتہ ماہ(اکتوبر) میں 2 کشمیریوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا۔بھارتی فوجیوں، پولیس، پیرا ملٹری اہلکاروں اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)، سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) کی ٹیموں نے محاصرے اور تلاشی کی 244 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 42 شہریوں کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکن، نوجوان اور طلباء شامل ہیں۔

گرفتار کیے جانے والوں میں سے بیشتر کے خلاف ”پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس عرصے کے دوران 20 کشمیریوں کے مکان، اراضی اور دیگر املاک ضبط کی گئیں جبکہ دو کشمیری مسلم ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ بھارتی فورسز اہلکاروں نے اکتوبر میں دو کشمیری خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔ ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد شاہ ڈار، سید شاہد شاہ،، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، شاہد الاسلام، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، ظفر اکبر بٹ، نور محمد فیاض، عبدالاحد پرہ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، رفیق احمد گنائی، فردوس احمد شاہ، سلیم ننا جی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عمر عادل ڈار، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز اور صحافی عرفان مجید سمیت 3 ہزار سے زائد کشمیری جھوٹے مقدمات میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں جہاں انہیں طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے وادی کشمیر میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دنیا جنوبی ایشیا میں ایک اور فلسطین جیسی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ بی جے پی کی ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی کررہی ہے جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانا ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں نہتے لوگوں پر جاری بھارتی جبر و تشدد کا نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حکومت پر دباﺅ ڈالے۔

متعلقہ مضامین

  •  بدترین شخصی آمریت کی وجہ سے عوام کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں‘کاشف سعید شیخ
  • وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے وفاق سے صوبائی حقوق کیلئے باضابطہ خط و کتابت کا کہہ دیا
  • علامہ صادق جعفری کا سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور لرزہ خیز مظالم پر شدید تشویش کا اظہار
  •  افغانستان میں زلزلہ، ایران کا اظہارِ ہمدردی
  • آزادصحافت جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، قاضی اشہد عباسی
  • آزادیِ اظہار اور حقِ گوئی جمہوری معاشروں کی پہچان اور بنیاد ہیں، کامران ٹیسوری
  • امریکی صدر کے حکم پر کیریبین میں منشیات بردار کشتی پر حملہ، 3 افراد ہلاک
  • دنیا میں صحافی قتل کے 10 میں سے 9 واقعات غیر حل شدہ ہیں: انتونیو گوتریس
  • لاہور میں بلوچستان کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھیں گے، مولانا ہدایت الرحمان
  • مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی