ڈاکٹر آکاش انصاری کے پوسٹ مارٹم میں جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
آکاش انصاری : فوٹو فائل
حیدرآباد میں گھر میں آگ لگنے سے جاں بحق سندھی کے نامور شاعر آکاش انصاری کے کیس میں نئی پیش رفت ہوئی ہے، پوسٹ مارٹم میں ان کے جسم پر تشدد کےنشانات پائے گئے، جس کےلیے بظاہر تیز دھار آلہ استعمال ہوا۔
ڈاکٹر آکاش انصاری کا پوسٹ مارٹم کرنے والے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر عبدالحمید مغل نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ ڈاکٹر آکاش کی باڈی ایگزامینیشن میں تشدد کے نشانات ملے ہیں، جسم کے مختلف حصوں پر شارپ کٹ کے نشانات ہیں۔
لطیف آکاش نے کہا کہ اندر جانے کی کوشش کی تو میرے پاؤں جل گئے۔
ڈاکٹر عبدالحمید مغل نے کہا کہ رپورٹ مرتب کی جا رہی ہے، فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، جسم کے مختلف حصوں میں تشدد کے نشانات ملے ہیں، کٹ کے نشانات کی وجہ تیز دھار آلہ کا استعمال لگتا ہے، ڈاکٹر آکاش انصاری کا جسم زیادہ جلا ہوا ہے۔
سندھی کے نامور شاعر ڈاکٹر آکاش انصاری کی تدفین بدین میں کر دی گئی۔
پولیس کا کہنا ہےکہ آکاش انصاری نے اپنے لے پالک بیٹے کے خلاف گذشتہ برس مقدمہ بھی درج کروایا تھا لیکن بعد میں اس سے صلح ہوگئی تھی۔
ورثاء میت کو تدفین کےلیے لے گئے تھے لیکن پولیس نے پوسٹ مارٹم کروانے کا فیصلہ کیا، پانچ رکنی تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر آکاش انصاری پوسٹ مارٹم کے نشانات تشدد کے
پڑھیں:
ماڈلین کا پیغام اہل غزہ تنہا نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈاکٹر آلاء النجار صبر و استقامت اور عزم و حوصلے کی نشان ہیں۔ کوئی اتنا بھی صابر ہوسکتا ہے؟ یقینا ایمان کے اعلیٰ ترین درجے ہی میں ایسا صبر پیدا ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر آلاء جو بچوں کی ماہر ڈاکٹر ہیں اُن کے شوہر بھی ڈاکٹر تھے۔ اسرائیلی بمباری میں ڈاکٹر آلاء نے اپنے 9 بچے گنوادیے، اُن کا ایک بچہ اور شوہر شدید زخمی ہوئے۔ اُس وقت ڈاکٹر آلاء اسپتال میں ڈیوٹی پر تھیں۔ اُن کے شوہر گھر پر بچوں کے ساتھ تھے۔ اب وہ بھی زخموں کی تاب نہ لا کر اپنے بچوں کے پاس چلے گئے۔ ڈاکٹر آلاء کے 9 بچوں کی عمریں 6 ماہ سے 12 سال کے درمیان تھیں۔ ایک بیٹا آدم جس کی عمر 12 سال تھی وہ شدید زخمی ہے۔ اُن کی بہن سحر النجار بتاتی ہیں کہ ’’میں نے چلا کر آلاء سے کہا کہ بچے چلے گئے۔ اُس نے پرسکون انداز میں جواب دیا وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں رزق پارہے ہیں‘‘۔
سحر النجاء کا کہنا تھا کہ آلاء اس وقت شدید صدمے کی حالت میں ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ انہیں ڈر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ڈاکٹر آلاء ٹوٹ جائیں گی۔ ابھی تو وہ بہت ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ جس وقت انہیں اپنے بچوں کی ہلاکت کی خبر ملی اس وقت وہ ناصر میڈیکل کمپلیکس میں دوسرے بچوں کی جانیں بچانے کی کوشش میں مصروف تھیں ان کی بہن سحر کہتی ہیں کہ ہم جانتے ہیں اس دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ کے لیے نہیں لیکن ایک ساتھ میں 9 بچوں کو کھو دینا جو کچھ ہی لمحے پہلے آپ کے اردگرد بھاگ رہے تھے کھیل رہے تھے ایک بہت بڑا المیہ ہے وہ بھی اس ماں کے لیے۔ وہ ماں جو دوسروں کے جگر گوشوں کو بچاتی رہی، وہ ماں اپنے 9 جگر گوشوں کی راکھ سمیٹ رہی تھی۔ 9 میں سے صرف ایک بچے کی لاش پہچان میں تھی۔ باقی سب ٹکڑوں میں راکھ بن چکے تھے۔ یہ صہیونی نیتن یاہو اور اس کے ساتھی افواج سفاک قاتل ہیں بلکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قاتل درندے ہیں دنیا کے سارے خود کو روشن خیال اور متمدن کہلانے والے ممالک اس کے ہشت پناہ ہیں۔ ہر روز لاکھوں اربوں کے ہتھیار اور گولہ بارود اسرائیل کو فراہم کررہے ہیں کہ مارو غزہ کو جلائو اور راکھ بنائو۔
امریکی پارلیمنٹ کے رکن رینڈی وائن مطالبہ کررہے ہیں کہ غزہ کی پٹی پر اسی طرح جوہری حملہ کیا جائے جیسا کہ دوسری عالمی جنگ میں امریکا نے جاپان کے شہروں پر کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں ہم نے نہ نازیوں سے اور نہ جاپانیوں سے مذاکرات کیے بلکہ ہم نے جاپان پر دو بار جوہری بم گرا کر ان کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ یہاں بھی یہی طریقہ اپنانا چاہیے۔ یعنی سفاکیت کی ہر حد پار تو کرچکے ہیں پھر مزید تباہی کی تمنا دل میں مچل رہی ہے۔
دوسری طرف اسی امریکا کا ایک سیکورٹی اور انٹیلی جنس امور کا ماہر کوبی بی کلارک کا کہنا ہے کہ حماس کو فوجی حملوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیل خطے کی صورت حال کو مزید پیچیدہ بنارہا ہے۔ اور حالات کو مسلسل کشیدگی کی طرف لے جارہا ہے۔ اسرائیل واحد حل کے طور پر فوجی طاقت پر انحصار کررہا ہے۔ اس کے پاس جامع سیاسی حکمت عملی کا فقدان ہے۔ جس سے کشیدگی جاری رہنے کا خطرہ ہے۔ سفاک اسرائیلی غزہ میں نسل کشی کررہے ہیں، معصوم بچے جن کے چہرے مسکراہٹوں سے آباد تھے اب راکھ اور ملبے تلے سسک رہے ہیں، ان کھنڈرات میں اب ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جس کے پاس کھونے کے لیے اب کچھ باقی نہیں ہے جن کے بچپن بربادی محرومی اور جدائی کے تلے کرب کی کہانی سنا رہے ہیں۔
فلسطین کے یتیم بچوں کی تعداد 40 ہزار تک پہنچ چکی ہے ان میں سے 700 بچے ایسے ہیں جن کے پورے خاندان شہید ہوچکے ہیں اور اب وہ محض ’’زندہ بچ جانے والے‘‘ کہلاتے ہیں۔ پناہ گاہیں جہاں ان بچوں کو سہارا ملتا تھا صہیونی قاتلوں نے انہیں بھی نہ چھوڑا اب وہ بھی ان بچوں کو بھوک، گرمی اور راتوں کے ڈرائونے خوابوں سے بچانے کے قابل نہیں ہیں۔ وہاں موجود بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی ایک خاتون کہتی ہے کہ ہم ایسے بچوں کو سنبھال رہے ہیں جو نہ ہنسنا جانتے ہیں، نہ خواب دیکھنا۔ ایک بچے نے کہا ’’کاش میں مر جاتا ماں نہ مرتی‘‘۔ انہیں ان کی مائوں کے بارے میں اطمینان دلانے والا بھی کوئی ہوگا؟ کہ وہ جنت میں ہیں۔ اِدھر آلاء جیسی مائیں بھی ہیں جو 9 بچوں کو ایک ساتھ کھونے کے بعد بے اختیار پکار اُٹھی ہیں وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ اور رزق پا رہے ہیں۔
غزہ کی نسل کشی کے لیے نیتن یاہو اور اس کے پشت پناہ ہر طرح کے ہتھیاروں کا استعمال کررہے ہیں، بچوں کے ساتھ یہ سلوک دراصل پوری فلسطینی نسل کے ذہن، یادداشت اور روح کو مٹانے کا عمل ہے۔ دوسری طرف پوری دنیا خاموش اور بے بسی کی تصویر بنی ہے۔ وہ کیسے انسانی حقوق کا نام لیتے ہیں۔ غزہ میں ہر طرح کے انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے قوانین کی پامالی ہورہی ہے، حقوق اطفال کنونشن کی خلاف ورزی ہورہی ہے، قابض صہیونی اسرائیل پورے خاندان کو بمباری کرکے ختم کررہا ہے، بچوں کو بھوک، بیماری اور تنہائی میں دھکیل رہا ہے، قحط کی انتہا صورت حال پیدا کررہا ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے بغور اور احتیاط سے… کوئی کس طرح وہاں امداد نہ پہنچا سکے، خشکی کے راستے بند اور بحری راستوں پر نگرانی۔ اقوام متحدہ میں جنگ بندی قرارداد کے لیے ویٹو کا پانچویں دفعہ استعمال کیا گیا، یہ ہیں امن اور انسانی حقوق کا پیامبر امریکا اور ناٹو ممالک۔
دوسری طرف پوری دنیا کے لیے ہمت اور مزاحمت کی مثال غزہ کے عوام جو غزہ کے ساحل پر سمندری محاصرے کو چیلنج کرنے والے لوگوں اور امدادی جہاز ماڈلین سے اظہار یکجہتی کے لیے جمع تھے، یہ غزہ کے بے بس مگر باہمت عوام کا پُرجوش اجتماع تھا جنہوں نے ہر طرح کے مظالم کے باوجود دشمن کے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کیا۔ جو گزشتہ 18 سال سے قابض اسرائیل کے محاصرے میں گھٹی ہوئی سانس لے رہا تھا۔ اکتوبر 2023ء کے بعد تو ان سانسوں کو بھی جرم بنادیا گیا ہے، لیکن اس سب کے باوجود ’’ماڈلین‘‘ کے لیے شکریہ اور محبت کے اظہار کے لیے تقریب سجائی گئی۔ غزہ کے ساحل میں غزہ کا کہنا تھا کہ یہ غزہ کے لوگوں کے لیے اُمید کی ایک روشن کرن تھا۔ جس کو اسرائیلی افواج نے اغوا کرلیا، لیکن جس نے اہل غزہ کو یہ پیغام دیا کہ دنیا کا ضمیر ابھی مرا نہیں اور غزہ اور اہل غزہ تنہا نہیں۔