طبقاتی تقسیم کے خاتمے کیلئے سماجی انصاف ناگزیر!!
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
20 فروری کودنیا بھر میں سماجی انصاف کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کی تعلیم، صحت، روزگار سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔
اس اہم دن کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ذاکر
(پروفیسر، انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز، جامعہ پنجاب)
سماجی انصاف کے بنیادی اصولوں میں معاشرے اور فرد کے درمیان مساوات اور انصاف پر مبنی تعلق شامل ہے۔ معاشرے میں برابری سے زیادہ مساوات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دونوں ہی نہیں ہیں۔ سماجی انصاف کے کسی بھی پہلو کا جائزہ لیں، اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ صحت کے حوالے سے جائزہ لیں تو ہمارے دیہات میں لوگوں کے پاس صحت کی بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ ہم بیماریوں کی روک تھام کے بجائے بیماریاں پھیلا رہے ہیں جس سے نظام صحت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہمارے دیہات بری طرح نظر انداز ہو رہے ہیں۔
ہمارے ہاں صحت کے بجٹ میں زیادہ حصہ علاج کیلئے مختص کیا جاتا ہے، ہم بچاؤ پر کام نہیں کرتے۔ بیماری آنے کے بعد اس پر توجہ دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نان کمیونی کیبل ڈیزیز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارا نظام صحت سازگار نہیں ہے، لوگوں کی علاج معالجے تک رسائی نہیں ہے۔ ملک میں بدترین معاشی تفریق ہے۔ بعض افراد کے پاس بہت دولت ہے اور بعض کے پاس بالکل نہیں۔ اسی طرح ایک ہی شہر کے بعض علاقے امیر اور بعض بہت غریب ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری 25 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ گزشتہ برس اس میں 7 فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔
ہماری مڈل کلاس کم ، ایلیٹ کلاس بڑھ رہی ہے۔ یہ پولرائزیشن معاشرے کیلئے نقصاندہ ہے۔ سماجی انصاف یقینی بنانے کیلئے ہمیں مساوات کو فروغ دینا ہوگا، صحت، تعلیم، انصاف و دیگر وسائل تک لوگوں کو رسائی دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بلاتفریق سب کی شمولیت یقینی بنانا ہوگی۔ خواتین و دیگر محروم طبقات کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ آج بھی ہمارے ہاں صنفی تشدد کو مسئلہ نہیں سمجھا جاتا، ہماری خواتین کو تعلیم، صحت و دیگر سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل کیلئے گراس روٹ لیول پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں چائلڈ میرج ہو رہی ہے، دیگر صوبوں میں شادی کی کم از کم عمر 18 برس ہے، پنجاب میں بھی 18 برس کرنا ہوگی۔
ہمارے ہاں بعض اقدامات کاسمیٹک ہوتے ہیں یا معاشرے کے حساب سے نہیں ہوتے۔ پنجاب میں خواتین کرائسز سینٹرزبنائے گئے ہیں، ملتان میں جب پہلا سینٹر بنایا تو ہم نے کہا کہ اس کانام کچھ اور رکھیں، اگر اسے تشدد اور ہراسمنٹ سے لنک کیا جائے گا تو شاید اس کی قبولیت زیادہ نہ ہو۔ ہمیں اپنے معاشرے کے حساب سے معاملات کو لے کر چلنا ہے اور خرابیوں کو دور کرنا ہے۔ اس وقت ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، اتنی بڑی تعداد کو محروم رکھ کر ہم ترقی ، انصاف اور مساوات کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی نئی نسل کو سکلز سکھانا ہیں، انہیں ہنر دینا ہے تاکہ وہ اپنا روزگار کماسکیں، اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔
ہمارے ہائر ایجوکیشن میں اقلیتوں کے لیے 2 فیصد کوٹہ ہے لیکن یہ پورا نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلی سطح پر ایجوکیشن کا فروغ نہیں ہے۔ سماجی انصاف کیلئے ہمیں معاشرے میں آگاہی دینا ہوگی، حکومت، اکیڈیمیا، انڈسٹری و دیگر سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا، ایک دوسرے کی مدد کرنا ہوگی تاکہ بہترین معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ ہم کمیونٹی بیسڈ لرننگ کروا رہے ہیں، ہم نے اپنے طلبہ کو تیار کیا ہے جو معاشرے میں اپنا سماجی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر ہر تعلیمی ادارہ کمیونٹی بیسڈ لرننگ کو فروغ دے اور اپنے قریبی علاقوں میں سماجی خدمات سرانجام دے تو معاشرے میں سماجی انصاف کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور لوگوں کے مسائل اور محرومیاں دور کی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹر صداقت علی
(ماہر نفسیات)
معاشرہ ایک بڑا کنبہ ہے۔ جیسے گھر چلا یا جاتا ہے ایسے ہی ملک کو چلایاجاتا ہے۔ سب اپنے وسائل اکٹھے کرتے ہیں جسے بیت المال کہا جاتا ہے، اس سے سکول، ہسپتال، سڑکیں، انفراسٹر کچر و دیگر بنتے ہیں۔ یہ ٹیکس پیئرز کا پیسہ ہوتا ہے اور سب ہی یہ سہولیات استعمال کرتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم یہی ہے کہ سب اس سے فائدہ اٹھائیں اور کوئی امتیاز نہ ہو، یہی سوشل جسٹس ہے۔ سب انسان ہیں مگر بناوٹ ایک جیسی نہیں ہے۔ سب کے اندر مختلف کیمیکلز ہیں اوراب کے ملاپ میں کمی بیشی اور فرق سے انسانوں میں فرق ہوتا ہے۔
قدرت نے یہ شاید اسی لیے ہی کیا ہے لوگ مختلف ہوں اور ایک دوسرے کے کام آسکیں ۔ امریکا میں بس ڈرائیور اور ڈاکٹر کی تنخواہ ایک جیسی ہے، وہاں لوگ اپنے تمام کام خود کرتے ہیں جس سے پروڈکٹیویٹی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اگر سب اپنی قابلیت کے مطابق اپنا اپنا کام کریں تو اس سے زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں 4 فیصد افراد ’doers‘ ہوتے ہیںجن میں کچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے ، یہ نامسائد حالات کے باوجود بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ 16 فیصد افراد سخت محنت کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ سمارٹ ورکر نہیں ہوتے۔ 80 فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جن کا کام کا موڈ نہیں ہوتا، انہیں موٹیویشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
سائنس ہمارے لیے بہت کچھ کرتی ہے مگر ہم اس سے روشنی نہیں لیتے۔ ہم ثقافت اور سماج سے اصول،نظریہ اور روایات لیتے ہیں۔ یہ سب اقدار پرانی ہیں۔ سائنس میں ہر وقت تبدیلی، جدت اور بہتری آرہی ہوتی ہے۔ سائنس میں تحقیق ہوتی ہے۔ طلبہ کلاس میں ماضی میں ہونے والی کاموں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ انہیں مقاصد(goals) تو سکھائے جاتے ہیں لیکن وجہ (purpose) نہیں سکھائی جاتی۔ سائنس کہتی ہے خود کو وقت کے ساتھ بہتر کرو۔ سولو فلائٹ نہیں لو۔ ٹیم ورک اور ٹیم بلڈنگ کی بات کی جاتی ہے۔ اب سائنس میں اتنی جدت آگئی ہے کہ سب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ جانے بغیر کے کس نے کیا ایجاد کیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو ’میں‘ سکھاتے ہیں کہ ’تم‘ نے جیتنا ہے، تم نے سب سے زیادہ کامیاب بننا ہے وغیرہ۔ والدین بچوں کو ’میں‘ کے بجائے ’ہم‘سکھائیں تو معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔مغرب میں لوگ انسانوں سے بچنا چاہتے ہیں۔
سائنس اس آدم بیزاری کے خلاف ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ خوشی دولت سے نہیں آپس میں اچھے تعلقات سے ملے گی۔ سائنس مقابلے کے بجائے آپس میں ساتھ چلنے کی بات کرتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو ہرانے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات کا معلوم نہیں ہے۔ ہم تفریح چاہتے ہیں۔ ہم سوچے سمجھے بغیر فیصلے لیتے ہیں جن کا نقصان بھی ہوتا ہے۔
معاشرے میں لین دین اہم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ لین دین پیسے کا ہو بلکہ اس میں عزت ، احترام، خوشی و دیگر شامل ہیں۔ میرے نزدیک سوشل جسٹس کا مطلب سائنٹفک جسٹس ہے۔ ہم جن روایات اور اقدار کو لے کر بات کرتے ہیں وہ پرانی ہو چکی ہیں۔ اگر ہم معاشرے میں سماجی انصاف چاہتے ہیں تو سائنسی اصولوں پر چلنا ہوگا۔دنیا کے وہ ممالک جن کی کسی سے لڑائی نہیں ہے وہ اطمینان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بیرونی سطح پر لڑائی اور اندرونی طور پر بھی مسائل ہیں، پولرائزیشن سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ہمیں تعصب اور نفرت کا خاتمہ کرنا ہے۔ ایسے کام جو انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں انہیں ختم کرنا اور جو انسانوں کو جوڑتے ہیں انہیں دنیا بھر میں فروغ دینا ہے۔
سلمان عابد
(تجزیہ نگار)
ہماری اسلامی تعلیمات میں برابری اور مساوات شامل ہیں۔ مساوات ان محروم طبقات کیلئے ہے جو کمزور اور پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سماجی انصاف کی بحث بھی انہی طبقات کیلئے ہے جو پسماندہ اور محروم ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست اور نظام چلتا ہے اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 8 سے 28، بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں اور ریاست آئین کے تحت اپنے تمام شہریوں کو یہ حقوق دینے کی پابند ہے۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان جب عمرانی معاہدہ کامیاب ہو تو سماجی انصاف ہوتا ہے، ریاست پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور ان کے درمیان خلاء پیدا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ریاست اور عوام کے درمیان خلاء ہے، بداعتمادی کی فضاء ہے جس کے باعث ہمارا سماجی نظام تباہ ہو چکا ہے۔
اس وقت معاشی، مالی، معاشرتی، انتظامی و دیگر بنیادوں پر تقسیم ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔طبقاتی تقسیم کے خاتمے کیلئے سوشل جسٹس کی بات کی جاتی ہے جس میں تعلیم، صحت، معیشت، انصاف و دیگر شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری 50 فیصد سے زائد لڑکیاں اور خواتین ناخواندہ ہیں۔ صحت کی بات کریں تو ہمارے ہاں دوران زچگی اموات کی شرح اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ معاشی تقسیم کی بات کریں تو مڈل کلاس ختم ہوگئی، امیر اور غریب کا فرق بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ہا ںغریب کیلئے سازگار ماحول نہیں ہے۔ نظام انصاف میں خرابیاں ہیں، لوگوں کو آسان اور فوری انصاف نہیں مل رہا۔ ہمارے سیاسی نظام میں سماجی انصاف نہیں ہے۔ ہماری حکومتیں بھکاری پیدا کرتی ہیں، لوگوں کو معاشی طور پر خودمختار نہیں بناتی۔ کبھی آٹا اور راشن سکیم تو کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام جیسے منصوبوں سے غریب کو لائنوں میں لگا دیا جاتا ہے۔
دنیا میں صنعتیں لگا کر لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے، انہیں معاشی طور پر اپ گریڈ کیا جاتاہے جبکہ ہمارا ماڈل سوشل جسٹس کے خلاف ہے ، لوگوں کی تضحیک کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی لوئر جوڈیشری میں انصاف مل رہا ہے؟ رپورٹ اور تفتیش کا نظام عوام کو سپورٹ کر رہا ہے؟ ہمارے نظام انصاف اور تفتیش میں خرابیاں ہیں جس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ سوشل جسٹس کے حوالے سے دنیا میں ہماری درجی بندی میں کمی آئی ہے، بعض رینکنگز میں افغانستان ہم سے بہتر ہے۔ مالی بجٹ کی بات کریں تو سال 2024-25 ء کے بجٹ میں سماجی انصاف کیلئے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔
ہماری ساری توجہ ترقیاتی کاموں اور انفراسٹرکچر پر ہوتی ہے۔ ہمارے سوشل پروٹیکشن کے ادارے محض عمارتیں ہیں، ان کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہورہے۔ خراب حالات اور مایوسی کی وجہ سے لوگوں میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کا نظام صرف اس لیے اچھا ہے کہ وہاں سماجی انصاف ہے۔
ہم دنیا کو خوش کرنے کیلئے قانون سازی کرتے ہیں ،عملدرآمد نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنا ملک اور نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو کڑوی گولی نگلنا ہوگی، اس نظام کا ازسرنو جائزہ لے کر دوبارہ تشکیل کرنا ہوگی، حکومت کو اپنا ماڈل تبدیل کرنا ہوگا، معاشی پالیسیوں میں سماجی انصاف کو شامل کرنا ہوگا اور محروم طبقات کو قومی دھارے میں لانا ہوگا، بصورت دیگر ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ہمارے ڈاکٹر، انجینئر و دیگر تجربہ کار افراد بیرون ملک جا رہے ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں سماجی انصاف بدقسمتی سے ہمارے ہاں چاہتے ہیں ریاست اور کے درمیان ہو رہا ہے کرتے ہیں ہوتے ہیں لوگوں کو سے زیادہ ہوتی ہے ریاست ا کریں تو نہیں ہو رہے ہیں کے ساتھ نہیں ہے جاتا ہے کی بات ہیں جس فیصد ا اور ان رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-23
کراچی (اسٹاف رپورٹر)امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے نارتھ ناظم آباد کے تحت ماڈل حیدری مارکیٹ کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ اختیارات سے بڑھ کر کام کریں گے، ہمارے 9ٹاؤن چیئر میوں نے 2 سال میں ثابت کر دیا ہے کہ امانت و دیانت کے ساتھ کام کیا جائے تو وسائل و اختیارات کی کمی کے باوجود عوام کی خدمت کی جا سکتی ہے، پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اختیارات و وسائل نچلی سطح پر منتقل کرنے پر تیار نہیں ہے لیکن ہمارا عزم ہے کہ عوام کی خدمت اور تعمیر و ترقی کا سفر جاری رکھیں گے۔سندھ حکومت و قابض میئر رکاوٹیں پیدا نہ کریں، ماڈل حیدری مارکیٹ کے افتتاح کے موقع پر عام شہریوں اور دکانداروں میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا اور انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئر مین اور پوری ٹیم کی کوششوں اور جدو جہد کو سراہا، اس موقع پر آتش بازی بھی کی گئی۔مارکیٹ میں بیک وقت 5ہزار افراد کے لیے اوپن وائی فائی کا بھی انتظام کیا گیا ہے،افتتاحی تقریب سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان،امیر جماعت اسلامی ضلع وسطی سید وجیہ حسن،ٹاؤن چیئرمین نارتھ ناظم آباد عاطف علی خان، وائس ٹاؤن چیئرمین سید ضیا الدین جامعی،چیئرمین یوسی 7 عاطف بقائی، حیدری مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر فراز،حیدری مارکیٹ کے صدر ساجد خان، حیدری مارکیٹ مینجمنٹ کے صدر سید اختر شاہد ودیگر نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ، ٹاؤن چیئرمین ناظم آباد سید مظفر،سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری ودیگر بھی موجود تھے۔حافظ نعیم الرحمن نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ماڈل مارکیٹ میں اوپن اسکائی وائی فائی کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ماڈل مارکیٹ اور اوپن وائی فائی پر میں مبارکباد پیش کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ ایک ہی ملک میں الگ الگ قانون نہیں بنائے جاسکتے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے ای چالان کے نام پر بھتا خوری کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ ایک طرف کراچی کے عوام کو باعزت ٹرانسپورٹ میسر نہیں، سڑکیں موجود نہیں دوسری جانب بھاری چالان ظلم ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ای چالان کا فیصلہ واپس لے ورنہ ہم کراچی کے شہریوں کو زبردست احتجاج کی کال دیں گے۔حالات کی تمام تر ذمے داری سندھ حکومت پر عاید ہوگی۔ 2012 سے سیف سٹی پروجیکٹ شروع ہونا تھا جس میں کیمرہ لگائے جانے تھے وہ کیمرے تو نہیں لگے لیکن چالان کے لیے کیمرے لگائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک کے عوام کراچی کے حالت زار دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں، ملک کے دیگر شہروں کے عوام کہتے ہیں کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اب کیا ہوگیا۔ شہر پرمختلف مافیاؤں کا قبضہ ہے۔ کچے اور پکے کے ڈاکومل کر شہر پر قبضہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔اہل کراچی کا شکر گزار ہوں جنہوں نے جماعت اسلامی کو کراچی کی نمبر ون پارٹی بنایا ہے۔ پیپلز پارٹی کراچی کی دشمن پارٹی کے طور پر سامنے آچکی ہے۔ ایم کیو ایم کی کراچی میں کوئی حیثیت باقی نہیں رہی اسے 50 سیٹیں بھی دے دی جائیں تب بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو امانت دار اور دیانت دار لوگ پسند نہیں بلکہ چور اور ڈاکو پسند ہیں۔ کراچی کے عوام ایک بار پھر اٹھیں گے ووٹ ڈالیں گے بھی اور ووٹ کی حفاظت بھی کریں گے۔ بنوقابل پروگرام کا سفر کراچی سے شروع ہوا اور اب پورے پاکستان میں پھیل رہا ہے۔ جعفرآباد،کوئٹہ کے ہزاروں بچوں اور بچیوں نے بنوقابل پروگرام کے ٹیسٹ میں حصہ لیا۔ پورے پاکستان میں اب تک 12 لاکھ رجسٹریشن ہوچکی ہیں اور ہم سب کو فری آئی ٹی کورسز کرائیں گے۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ گزشتہ 5 دن سے ای چالان کی صورت میں بھتا وصول کیا جارہا ہے۔ کراچی کے عوام کو ای چالان کے نام پر بھتا کسی صورت قبول نہیں۔اس کے خلاف ہم عدالت سے بھی رجو ع کریں گے، ایک جانب پنجاب حکومت ہے جہاں موٹر سائیکل کا چالان 200 روپے جبکہ سندھ میں 5000 سے لے کر 25000 تک کا چالان رکھا ہے۔آج نارتھ ناظم آباد ٹاؤن نے ثابت کیا ہے کہ اگر عزم ہو تو کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔ حیدری مارکیٹ کو ماڈل مارکیٹ بنانے میں ٹاؤن چیئرمین کی پوری ٹیم اور تاجر ایسوسی ایشن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ٹاؤنز چیئرمین ماڈل محلے تعمیر کررہے ہیں اور کچھ لوگوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ ماڈل مارکیٹ، ماڈل اسکولز اور ماڈل محلے بننے سے قابض مئیر کی پریشانی اب اور بڑھے گی،شہر کو حقیقی معنوں میں تعمیر و ترقی کی جانب صرف اور صرف جماعت اسلامی ہی لے جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کراچی قومی خزانے میں ریونیو کا 67 فیصد ادا کرتا ہے۔ کراچی میں ایسے کرپٹ اور بددیانت لوگ مسلط ہیں جو وفاق میں شہر کا مقدمہ نہیں لڑتے۔ سندھ حکومت کراچی کو سہولیات دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سٹی کونسل ہو، نیپرا ہو یا عدالت جماعت اسلامی ہر محاذ پر عوام کا مقدمہ لڑرہی ہے۔سید وجیہ حسن نے کہا کہ جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے عوام کے ریلیف کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں۔ کراچی کے وہ تمام ٹاؤنز جہاں جماعت اسلامی کے چیئرمین ہیں وہاں ترقیاتی کام ہورہے ہیں۔ شہر میں ہارے ہوئے اور مسترد شدہ لوگوں کو مسلط کیا گیا۔ بلدیاتی انتخابات ہوں یا قومی انتخابات جعلی طریقے سے خائن بد دیانت لوگوں کو عوام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ عاطف علی خان نے کہا کہ حیدری مارکیٹ کو ماڈل حیدری مارکیٹ بنانے کا خواب آج پایہ تکمیل کو پہنچا دیا ہے۔ حیدری مارکیٹ کے تاجروں نے ہماری ٹیم کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ 35 ہزار اسکوائر فٹ پر مشتمل پیور بلاکس لگائے، واک وے بنایا، سیوریج کی نئی لائن ڈالی جس کے نتیجے میں مارکیٹ اور رہائشی علاقوں کا پانی سڑکوں پر جمع نہیں ہوتا۔ حیدری سے فائیو اسٹار تک پارکنگ بنائی جس کی وجہ سے اب سڑک پر رش نہیں ہوتا۔ ہم نے جتنا بھی کام کیا وہ سب کچھ اپنے وسائل سے کیا۔ حیدری مارکیٹ کے ساتھ مزید مارکیٹس کو بھی آپ گریڈ کریں گے۔ہمارا عزم ہے کہ نارتھ ناظم آباد کو کراچی کا ماڈل ٹاؤن بنائیں گے۔ ٹاؤن میں ایک کروڑ 20 لاکھ اسکوائر فٹ سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے۔ سیوریج کے مسائل ٹاؤن کے دائرہ کار میں نہیں آتے ہم ٹاؤن کے بجٹ سے ہی سیوریج کے مسائل حل کررہے ہیں۔ جن جن علاقوں میں سڑکوں کی مرمت کا کام کیا جائے گا اس سے قبل ہم سیوریج کا نظام ٹھیک کریں گے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی طرف سے ایک روپے کا کام بھی نہیں کرایا جارہا ہے۔ شیرشاہ سوری روڈ کی مرمت قابض مئیر کی ذمے داری ہے، قابض مئیر کے پاس اربوں روپے کا فنڈہے اور وہ مقابلہ جماعت اسلامی کے ٹاؤنز سے کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے قابض ہے، مرتضیٰ وہاب کراچی میں 2 مرتبہ ایڈمنسٹریٹر رہے اور پھرزبردستی قابض مئیر بن گئے لیکن کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ حیدری مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر فراز نے کہا کہ حیدری مارکیٹ کو ماڈل مارکیٹ بنانے پر 3 ہزار تاجروں کی جانب سے جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین عاطف علی خان او ر ان کی پوری ٹیم کو خراج تحسین اور مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ حیدری مارکیٹ کے تاجروں نے کورونا کے دور میں حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کی تھی جس میں حافظ نعیم الرحمن نے یقین دہانی کرائی تھی اور آج وہ خواب پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا تھا ہم تو کھڑے رہیں گے آپ پیچھے نہ ہٹنا ہم نے بھی ثابت کیا ہے کہ ہم حافظ نعیم الرحمن کے ساتھ تھے اور ساتھ رہیں گے۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نارتھ ناظم آباد ٹائون کے تحت ماڈل حیدری مارکیٹ کا افتتاح کررہے ہیں، دوسری جانب افتتاحی تقریب سے حافظ نعیم الرحمن، منعم ظفر ، سید وجیہ حسن، عاطف علی خان خطاب کررہے ہیں