Express News:
2025-06-09@20:46:03 GMT

طبقاتی تقسیم کے خاتمے کیلئے سماجی انصاف ناگزیر!!

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

20 فروری کودنیا بھر میں سماجی انصاف کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کی تعلیم، صحت، روزگار سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔

اس اہم دن کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ذاکر

(پروفیسر، انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز، جامعہ پنجاب)

سماجی انصاف کے بنیادی اصولوں میں معاشرے اور فرد کے درمیان مساوات اور انصاف پر مبنی تعلق شامل ہے۔ معاشرے میں برابری سے زیادہ مساوات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دونوں ہی نہیں ہیں۔ سماجی انصاف کے کسی بھی پہلو کا جائزہ لیں، اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ صحت کے حوالے سے جائزہ لیں تو ہمارے دیہات میں لوگوں کے پاس صحت کی بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ ہم بیماریوں کی روک تھام کے بجائے بیماریاں پھیلا رہے ہیں جس سے نظام صحت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہمارے دیہات بری طرح نظر انداز ہو رہے ہیں۔

ہمارے ہاں صحت کے بجٹ میں زیادہ حصہ علاج کیلئے مختص کیا جاتا ہے، ہم بچاؤ پر کام نہیں کرتے۔ بیماری آنے کے بعد اس پر توجہ دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نان کمیونی کیبل ڈیزیز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارا نظام صحت سازگار نہیں ہے، لوگوں کی علاج معالجے تک رسائی نہیں ہے۔ ملک میں بدترین معاشی تفریق ہے۔ بعض افراد کے پاس بہت دولت ہے اور بعض کے پاس بالکل نہیں۔ اسی طرح ایک ہی شہر کے بعض علاقے امیر اور بعض بہت غریب ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری 25 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ گزشتہ برس اس میں 7 فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔

ہماری مڈل کلاس کم ، ایلیٹ کلاس بڑھ رہی ہے۔ یہ پولرائزیشن معاشرے کیلئے نقصاندہ ہے۔ سماجی انصاف یقینی بنانے کیلئے ہمیں مساوات کو فروغ دینا ہوگا، صحت، تعلیم، انصاف و دیگر وسائل تک لوگوں کو رسائی دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بلاتفریق سب کی شمولیت یقینی بنانا ہوگی۔ خواتین و دیگر محروم طبقات کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ آج بھی ہمارے ہاں صنفی تشدد کو مسئلہ نہیں سمجھا جاتا، ہماری خواتین کو تعلیم، صحت و دیگر سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل کیلئے گراس روٹ لیول پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں چائلڈ میرج ہو رہی ہے، دیگر صوبوں میں شادی کی کم از کم عمر 18 برس ہے، پنجاب میں بھی 18 برس کرنا ہوگی۔

ہمارے ہاں بعض اقدامات کاسمیٹک ہوتے ہیں یا معاشرے کے حساب سے نہیں ہوتے۔ پنجاب میں خواتین کرائسز سینٹرزبنائے گئے ہیں، ملتان میں جب پہلا سینٹر بنایا تو ہم نے کہا کہ اس کانام کچھ اور رکھیں، اگر اسے تشدد اور ہراسمنٹ سے لنک کیا جائے گا تو شاید اس کی قبولیت زیادہ نہ ہو۔ ہمیں اپنے معاشرے کے حساب سے معاملات کو لے کر چلنا ہے اور خرابیوں کو دور کرنا ہے۔ اس وقت ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، اتنی بڑی تعداد کو محروم رکھ کر ہم ترقی ، انصاف اور مساوات کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی نئی نسل کو سکلز سکھانا ہیں، انہیں ہنر دینا ہے تاکہ وہ اپنا روزگار کماسکیں، اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔

ہمارے ہائر ایجوکیشن میں اقلیتوں کے لیے 2 فیصد کوٹہ ہے لیکن یہ پورا نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلی سطح پر ایجوکیشن کا فروغ نہیں ہے۔ سماجی انصاف کیلئے ہمیں معاشرے میں آگاہی دینا ہوگی، حکومت، اکیڈیمیا، انڈسٹری و دیگر سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا، ایک دوسرے کی مدد کرنا ہوگی تاکہ بہترین معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ ہم کمیونٹی بیسڈ لرننگ کروا رہے ہیں، ہم نے اپنے طلبہ کو تیار کیا ہے جو معاشرے میں اپنا سماجی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر ہر تعلیمی ادارہ کمیونٹی بیسڈ لرننگ کو فروغ دے اور اپنے قریبی علاقوں میں سماجی خدمات سرانجام دے تو معاشرے میں سماجی انصاف کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور لوگوں کے مسائل اور محرومیاں دور کی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر صداقت علی

(ماہر نفسیات)

معاشرہ ایک بڑا کنبہ ہے۔ جیسے گھر چلا یا جاتا ہے ایسے ہی ملک کو چلایاجاتا ہے۔ سب اپنے وسائل اکٹھے کرتے ہیں جسے بیت المال کہا جاتا ہے، اس سے سکول، ہسپتال، سڑکیں، انفراسٹر کچر و دیگر بنتے ہیں۔ یہ ٹیکس پیئرز کا پیسہ ہوتا ہے اور سب ہی یہ سہولیات استعمال کرتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم یہی ہے کہ سب اس سے فائدہ اٹھائیں اور کوئی امتیاز نہ ہو، یہی سوشل جسٹس ہے۔ سب انسان ہیں مگر بناوٹ ایک جیسی نہیں ہے۔ سب کے اندر مختلف کیمیکلز ہیں اوراب کے ملاپ میں کمی بیشی اور فرق سے انسانوں میں فرق ہوتا ہے۔

قدرت نے یہ شاید اسی لیے ہی کیا ہے لوگ مختلف ہوں اور ایک دوسرے کے کام آسکیں ۔ امریکا میں بس ڈرائیور اور ڈاکٹر کی تنخواہ ایک جیسی ہے، وہاں لوگ اپنے تمام کام خود کرتے ہیں جس سے پروڈکٹیویٹی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اگر سب اپنی قابلیت کے مطابق اپنا اپنا کام کریں تو اس سے زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں 4 فیصد افراد ’doers‘ ہوتے ہیںجن میں کچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے ، یہ نامسائد حالات کے باوجود بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ 16 فیصد افراد سخت محنت کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ سمارٹ ورکر نہیں ہوتے۔ 80 فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جن کا کام کا موڈ نہیں ہوتا، انہیں موٹیویشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

سائنس ہمارے لیے بہت کچھ کرتی ہے مگر ہم اس سے روشنی نہیں لیتے۔ ہم ثقافت اور سماج سے اصول،نظریہ اور روایات لیتے ہیں۔ یہ سب اقدار پرانی ہیں۔ سائنس میں ہر وقت تبدیلی، جدت اور بہتری آرہی ہوتی ہے۔ سائنس میں تحقیق ہوتی ہے۔ طلبہ کلاس میں ماضی میں ہونے والی کاموں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ انہیں مقاصد(goals) تو سکھائے جاتے ہیں لیکن وجہ (purpose) نہیں سکھائی جاتی۔ سائنس کہتی ہے خود کو وقت کے ساتھ بہتر کرو۔ سولو فلائٹ نہیں لو۔ ٹیم ورک اور ٹیم بلڈنگ کی بات کی جاتی ہے۔ اب سائنس میں اتنی جدت آگئی ہے کہ سب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ جانے بغیر کے کس نے کیا ایجاد کیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو ’میں‘ سکھاتے ہیں کہ ’تم‘ نے جیتنا ہے، تم نے سب سے زیادہ کامیاب بننا ہے وغیرہ۔ والدین بچوں کو ’میں‘ کے بجائے ’ہم‘سکھائیں تو معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔مغرب میں لوگ انسانوں سے بچنا چاہتے ہیں۔

سائنس اس آدم بیزاری کے خلاف ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ خوشی دولت سے نہیں آپس میں اچھے تعلقات سے ملے گی۔ سائنس مقابلے کے بجائے آپس میں ساتھ چلنے کی بات کرتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو ہرانے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات کا معلوم نہیں ہے۔ ہم تفریح چاہتے ہیں۔ ہم سوچے سمجھے بغیر فیصلے لیتے ہیں جن کا نقصان بھی ہوتا ہے۔

معاشرے میں لین دین اہم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ لین دین پیسے کا ہو بلکہ اس میں عزت ، احترام، خوشی و دیگر شامل ہیں۔ میرے نزدیک سوشل جسٹس کا مطلب سائنٹفک جسٹس ہے۔ ہم جن روایات اور اقدار کو لے کر بات کرتے ہیں وہ پرانی ہو چکی ہیں۔ اگر ہم معاشرے میں سماجی انصاف چاہتے ہیں تو سائنسی اصولوں پر چلنا ہوگا۔دنیا کے وہ ممالک جن کی کسی سے لڑائی نہیں ہے وہ اطمینان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بیرونی سطح پر لڑائی اور اندرونی طور پر بھی مسائل ہیں، پولرائزیشن سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ہمیں تعصب اور نفرت کا خاتمہ کرنا ہے۔ ایسے کام جو انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں انہیں ختم کرنا اور جو انسانوں کو جوڑتے ہیں انہیں دنیا بھر میں فروغ دینا ہے۔

سلمان عابد

(تجزیہ نگار)

ہماری اسلامی تعلیمات میں برابری اور مساوات شامل ہیں۔ مساوات ان محروم طبقات کیلئے ہے جو کمزور اور پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سماجی انصاف کی بحث بھی انہی طبقات کیلئے ہے جو پسماندہ اور محروم ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست اور نظام چلتا ہے اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 8 سے 28، بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں اور ریاست آئین کے تحت اپنے تمام شہریوں کو یہ حقوق دینے کی پابند ہے۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان جب عمرانی معاہدہ کامیاب ہو تو سماجی انصاف ہوتا ہے، ریاست پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور ان کے درمیان خلاء پیدا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ریاست اور عوام کے درمیان خلاء ہے، بداعتمادی کی فضاء ہے جس کے باعث ہمارا سماجی نظام تباہ ہو چکا ہے۔

اس وقت معاشی، مالی، معاشرتی، انتظامی و دیگر بنیادوں پر تقسیم ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔طبقاتی تقسیم کے خاتمے کیلئے سوشل جسٹس کی بات کی جاتی ہے جس میں تعلیم، صحت، معیشت، انصاف و دیگر شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری 50 فیصد سے زائد لڑکیاں اور خواتین ناخواندہ ہیں۔ صحت کی بات کریں تو ہمارے ہاں دوران زچگی اموات کی شرح اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ معاشی تقسیم کی بات کریں تو مڈل کلاس ختم ہوگئی، امیر اور غریب کا فرق بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ہا ںغریب کیلئے سازگار ماحول نہیں ہے۔ نظام انصاف میں خرابیاں ہیں، لوگوں کو آسان اور فوری انصاف نہیں مل رہا۔ ہمارے سیاسی نظام میں سماجی انصاف نہیں ہے۔ ہماری حکومتیں بھکاری پیدا کرتی ہیں، لوگوں کو معاشی طور پر خودمختار نہیں بناتی۔ کبھی آٹا اور راشن سکیم تو کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام جیسے منصوبوں سے غریب کو لائنوں میں لگا دیا جاتا ہے۔

دنیا میں صنعتیں لگا کر لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے، انہیں معاشی طور پر اپ گریڈ کیا جاتاہے جبکہ ہمارا ماڈل سوشل جسٹس کے خلاف ہے ، لوگوں کی تضحیک کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی لوئر جوڈیشری میں انصاف مل رہا ہے؟ رپورٹ اور تفتیش کا نظام عوام کو سپورٹ کر رہا ہے؟ ہمارے نظام انصاف اور تفتیش میں خرابیاں ہیں جس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ سوشل جسٹس کے حوالے سے دنیا میں ہماری درجی بندی میں کمی آئی ہے، بعض رینکنگز میں افغانستان ہم سے بہتر ہے۔ مالی بجٹ کی بات کریں تو سال 2024-25 ء کے بجٹ میں سماجی انصاف کیلئے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔

ہماری ساری توجہ ترقیاتی کاموں اور انفراسٹرکچر پر ہوتی ہے۔ ہمارے سوشل پروٹیکشن کے ادارے محض عمارتیں ہیں، ان کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہورہے۔ خراب حالات اور مایوسی کی وجہ سے لوگوں میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کا نظام صرف اس لیے اچھا ہے کہ وہاں سماجی انصاف ہے۔

ہم دنیا کو خوش کرنے کیلئے قانون سازی کرتے ہیں ،عملدرآمد نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنا ملک اور نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو کڑوی گولی نگلنا ہوگی، اس نظام کا ازسرنو جائزہ لے کر دوبارہ تشکیل کرنا ہوگی، حکومت کو اپنا ماڈل تبدیل کرنا ہوگا، معاشی پالیسیوں میں سماجی انصاف کو شامل کرنا ہوگا اور محروم طبقات کو قومی دھارے میں لانا ہوگا، بصورت دیگر ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ہمارے ڈاکٹر، انجینئر و دیگر تجربہ کار افراد بیرون ملک جا رہے ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں سماجی انصاف بدقسمتی سے ہمارے ہاں چاہتے ہیں ریاست اور کے درمیان ہو رہا ہے کرتے ہیں ہوتے ہیں لوگوں کو سے زیادہ ہوتی ہے ریاست ا کریں تو نہیں ہو رہے ہیں کے ساتھ نہیں ہے جاتا ہے کی بات ہیں جس فیصد ا اور ان رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں

ہر سال کی طرح اِمسال بھی عید الاضحیٰ پورے تزک و احتشام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ عیدالاضحٰی کی بنیاد ایثار ومحبت اور اطاعتِ الٰہی پر ہے۔

یہ دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اللّہ سے لا زوال محبت و اطاعت کی یاد تازہ کرتا ہے کہ کیسے انہوں نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کے لیے اپنے نورِنظر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان تک کی پروا نہیں کی اور کیسے ان کے پیارے بیٹے نے اللّہ کی اطاعت اور والد کی محبت میں قربان ہونا باعثِ فخر سمجھا۔ پھر اللّہ پاک نے بھی ان کے اِخلاص، نیک نیتی، تابع داری کے صلے میں یہ سنت قیامت تک کے لیے ہر صاحبِ استطاعت پر واجب کردی۔

 قربانی در اصل اس بات کا اعادہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے رب کی رضا کی خاطر ہر وقت جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، راہِ خدا وندی میں اپنی محبوب ترین شئے یا جان دینے سے جھجھکتا ہے، نہ ڈرتا ہے۔

قرآنِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللّہ تعالٰی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اسے صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (سورۃ الحج، آیت نمبر 37)

لیکن ہمارے ہاں اکثر لوگ عیدِقرباں پر پورے جوش و خروش سے سنتِ ابراہیمی پر عمل تو کرتے ہیں، مگر عیدالاضحٰی کا حقیقی مفہوم و مقصد نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ عیدِقرباں کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہی ہے، جب کہ حقیقتاً اس تہوار کی اصل روح ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ نہ جانے کیوں ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ دینِ اسلام میں ہر عمل کی بنیاد صرف اور صرف نیت پر ہے۔ جس طرح بنا نیت کے نماز قبول نہیں ہوتی، بالکل اسی طرح نمودونمائش کی خاطر کی گئی قربانی بھی اللّہ کے یہاں مقبول نہیں کیوںکہ رب تعالیٰ کی نظر کسی کے ظاہر پر نہیں، باطن پر ہوتی ہے۔

وہ بندوں کی شکل و صورت، مال و دولت نہیں دیکھتا، ان کے دلوں میں چھپی اچھائی دیکھتا ہے۔ یعنی، اگر آپ لاکھوں روپے مالیت کے جانور قربان کرکے بھی غرباء، مساکین کو ان کا حصہ نہیں دیتے، تو یاد رکھیں اللہ کو ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ قربانی کی۔

عیدِقرباں کو ’’نمکین عید‘‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اس عید پر خوب دعوتیں ہوتی ہیں، طرح طرح کے پکوان بنائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں، لیکن ذرا سوچیں! کیا بڑی عید کا مطلب صرف ذبیحہ کرکے دعوتیں کرنا ہے؟ در حقیقت ہمارا یہ تہوار تو غریبوں، ناداروں کی خصوصی مدد کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول بڑھانا اور غریب رشتے داروں کو نظرانداز کرنا تو ویسے بھی انتہائی غیراخلاقی حرکت اور اسلامی احکامات کے منافی عمل ہے۔

قربانی کرنے سے قبل قربانی کی اصل روح کو سمجھنا ہوگا کہ قربانی کی اصل روح کیا ہے؟

قربانی کا لفظ قربان سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں قربانی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ اللّہ تعالٰی کا قرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا صدقہ و خیرات۔ لیکن عرف عام میں یہ لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔

قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی تاریخ۔ قربانی ان اسلامی شعائر میں سے ہے جن کی مشروعیت اس وقت سے ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے اور دنیا آباد ہوئی اور پھر امت محمدی ﷺ تک تقریباً ہر ملت کے ماننے والے اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔ ہر امت میں اللّہ کے نام پر قربانی کرنا مشروع رہا ہے، البتہ سابقہ امتوں اور امت محمدی ﷺ کے درمیان قربانی میں فرق یہ ہے کہ سابقہ امتوں کی قربانی قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمانی آگ اسے کھا جاتی تھی، قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں تھی، جب کہ امت محمدی ﷺ کو اللّہ تعالٰی کی طرف سے یہ خصوصی انعام حاصل ہے کہ ان کے لیے قربانی کا گوشت حلال کردیا اور اس کے کھانے کی اجازت دے دی گئی۔

 فلسفہ قربانی یہ ہے کہ بندہ اپنی ہر خواہش کو اپنے رب کے حکم اور مرضی و منشا پر قربان کر دے۔ ہر سال قربانی کے ذریعہ ہم گویا عہد کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی یادگار میں مضمر اس پیغام کو اپنی زندگیوں میں بسانے کی کوشش کریں گے جو خود کو سپرد کر دینے اور قربانی کو محض جانور ذبح کرنے تک محدود نہ رکھنے سے عبارت ہے۔

 عیدقرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے فقط جانوروں کی قربانی ضروری نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی ضروری ہے۔

عیدِقرباں کے موقع پر سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم اللّہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور اپنے پڑوسی، رشتے دار اور دوست و احباب میں قربانی کا گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ اگر اللّہ تعالٰی نے ہمیں قربانی کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو ہم نمود و نمائش سے اجتناب برتتے ہوئے عین اسلامی طریقہ پر گوشت کی تقسیم کی پوری کوشش کریں۔

اسلامی طریقے کے مطابق قربانی کا گوشت تین حصوں میں منقسم کرکے دو حصے صدقہ کرنا اور ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے بچانا مستحب اور افضل عمل ہے۔ ویسے فتاویٰ کی کتابوں میں درج ہے کہ اگر کوئی ایسا خاندان قربانی کر رہا ہے، جو مالی طور پر مستحکم نہیں یا غریب ہے تو وہ زیادہ گوشت رکھ سکتا ہے اور ضرورت کم ہو تو زیادہ صدقہ بھی کرسکتا ہے، ویسے ہونا تو یہی چاہیے کہ جتنا ہوسکے غرباء، مساکین کو گوشت دیا جائے، کیوں کہ امیر تو سارا سال ہی گوشت کھاتے ہیں، لیکن غریب اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔

 اگر آپ کے زیادہ گوشت دینے سے وہ بھی عید کے ایام اور اس کے بعد کچھ روز تک پیٹ بھر کر کھانا کھاسکیں گے، تو زیادہ اجر و ثواب اور اللّہ تعالٰی کی خوشنودی حاصل ہوگی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے ایک بکری ذبح کرکے صدقہ کی، تو نبی ﷺ نے دریافت کیا، اس (بکری کے گوشت) سے کچھ بچا ہے؟ میں نے عرض کیا صرف ایک بازو بچا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا بازو کے سوا باقی سب بچ گیا ہے۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنے اس فرمان سے کل امتِ مسلمہ کو یہ تعلیم دی کہ جو تقسیم ہوگیا، اسے ضایع مت سمجھو کہ درحقیقت وہی تو کام آئے گا جو اللّہ کی راہ میں خرچ ہو، جو اس کی مخلوق کے کام آئے، وہی مال و دولت اخروی زندگی میں ہماری کام یابی کا ذریعہ بنتا ہے۔

علاوہ ازیں، گذشتہ چند سالوں سے قربانی کے جانوروں کی نمود نمایش کا رجحان بھی خوب بڑھ گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ با قاعدہ شامیانے اور برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، جانوروں کو خوب سجایا جاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں دیکھنے جاتا ہے۔ ان کے ساتھ تصاویر، سیلفیز لی جاتی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ فلاں بیل اتنے لاکھ کا ہے، فلاں بکرا بادام کھاتا ہے، فلاں گائے اتنی مہنگی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نمائش سے نہ صرف لوگوں میں حسد، جلن کی بیماری پروان چڑھتی ہے، بلکہ مالی طور پر کم زور لوگوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے، بالخصوص بچوں میں احساسِ کم تری پیدا ہوتا ہے۔ تمام احادیث کی کتب کا آغاز نبی ﷺ کی معروف ترین حدیث، اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، سے ہوتا ہے۔ یعنی، جب تک آپ کی نیت صاف نہیں ہوگی اور دل اطاعتِ الٰہی کے جذبے سے سر شار نہیں ہوگا، تب تک کوئی عمل قبول ہو ہی نہیں سکتا تو جس عمل میں اِخلاص نہ ہو، وہ چاہے کوہِ طور کے برابر ہو، تب بھی اللّہ کے نزدیک ایک چیونٹی کی جسامت کے برابر بھی نہیں۔

صحت مند اور خوبصورت جانور اگر صرف اللہ کی بارگاہ میں قربانی کی قبولیت کے جذبے کے تحت خریدے جائیں تو اس میں قطعاً مضائقہ نہیں، اسی طرح قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ مستحق افراد تک پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے۔ اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً انہیں دگنی خوشی ملے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔

آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کرکے کئی دنوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ افضل عمل یہ ہے کہ قربانی کا گوشت قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے۔ غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اللّہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین یارب العالمین)

متعلقہ مضامین

  • محمد اورنگزیب نے اکنامک سروے معذرت خوانہ طریقے سے پیش کیا، وقاص اکرم، عمر ایوب
  • پانی ہماری ناگزیر ضرورت ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، بلاول بھٹو
  • پانی ہماری ناگزیر ضرورت ہے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا: بلاول بھٹو زرداری
  • توانائی اصلاحات میں ریکوریز بہت شاندار رہیں،این ٹی ڈی سی کو تین کمپنیوں میں تقسیم کرنا اہم اقدام تھا، وزیر خزانہ 
  • عید الاضحیٰ پر تقسیم گوشت اور ہماری ذمے داریاں
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں، مرتضیٰ وہاب
  • آلائشوں کیلئے 1 کروڑ 20 لاکھ شاپر تقسیم کیے ہیں: عظمیٰ بخاری
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں: مرتضیٰ وہاب
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟