Express News:
2025-09-18@13:52:49 GMT

طبقاتی تقسیم کے خاتمے کیلئے سماجی انصاف ناگزیر!!

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

20 فروری کودنیا بھر میں سماجی انصاف کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کی تعلیم، صحت، روزگار سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کا خاتمہ ہے۔

اس اہم دن کی مناسبت سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ذاکر

(پروفیسر، انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز، جامعہ پنجاب)

سماجی انصاف کے بنیادی اصولوں میں معاشرے اور فرد کے درمیان مساوات اور انصاف پر مبنی تعلق شامل ہے۔ معاشرے میں برابری سے زیادہ مساوات کی ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں دونوں ہی نہیں ہیں۔ سماجی انصاف کے کسی بھی پہلو کا جائزہ لیں، اس پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ صحت کے حوالے سے جائزہ لیں تو ہمارے دیہات میں لوگوں کے پاس صحت کی بنیادی سہولیات نہیں ہیں۔ ہم بیماریوں کی روک تھام کے بجائے بیماریاں پھیلا رہے ہیں جس سے نظام صحت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ہمارے دیہات بری طرح نظر انداز ہو رہے ہیں۔

ہمارے ہاں صحت کے بجٹ میں زیادہ حصہ علاج کیلئے مختص کیا جاتا ہے، ہم بچاؤ پر کام نہیں کرتے۔ بیماری آنے کے بعد اس پر توجہ دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نان کمیونی کیبل ڈیزیز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارا نظام صحت سازگار نہیں ہے، لوگوں کی علاج معالجے تک رسائی نہیں ہے۔ ملک میں بدترین معاشی تفریق ہے۔ بعض افراد کے پاس بہت دولت ہے اور بعض کے پاس بالکل نہیں۔ اسی طرح ایک ہی شہر کے بعض علاقے امیر اور بعض بہت غریب ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری 25 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ گزشتہ برس اس میں 7 فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔

ہماری مڈل کلاس کم ، ایلیٹ کلاس بڑھ رہی ہے۔ یہ پولرائزیشن معاشرے کیلئے نقصاندہ ہے۔ سماجی انصاف یقینی بنانے کیلئے ہمیں مساوات کو فروغ دینا ہوگا، صحت، تعلیم، انصاف و دیگر وسائل تک لوگوں کو رسائی دینا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بلاتفریق سب کی شمولیت یقینی بنانا ہوگی۔ خواتین و دیگر محروم طبقات کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ آج بھی ہمارے ہاں صنفی تشدد کو مسئلہ نہیں سمجھا جاتا، ہماری خواتین کو تعلیم، صحت و دیگر سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کے حل کیلئے گراس روٹ لیول پر کام کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں چائلڈ میرج ہو رہی ہے، دیگر صوبوں میں شادی کی کم از کم عمر 18 برس ہے، پنجاب میں بھی 18 برس کرنا ہوگی۔

ہمارے ہاں بعض اقدامات کاسمیٹک ہوتے ہیں یا معاشرے کے حساب سے نہیں ہوتے۔ پنجاب میں خواتین کرائسز سینٹرزبنائے گئے ہیں، ملتان میں جب پہلا سینٹر بنایا تو ہم نے کہا کہ اس کانام کچھ اور رکھیں، اگر اسے تشدد اور ہراسمنٹ سے لنک کیا جائے گا تو شاید اس کی قبولیت زیادہ نہ ہو۔ ہمیں اپنے معاشرے کے حساب سے معاملات کو لے کر چلنا ہے اور خرابیوں کو دور کرنا ہے۔ اس وقت ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے، اتنی بڑی تعداد کو محروم رکھ کر ہم ترقی ، انصاف اور مساوات کا خواب کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی نئی نسل کو سکلز سکھانا ہیں، انہیں ہنر دینا ہے تاکہ وہ اپنا روزگار کماسکیں، اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں۔

ہمارے ہائر ایجوکیشن میں اقلیتوں کے لیے 2 فیصد کوٹہ ہے لیکن یہ پورا نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلی سطح پر ایجوکیشن کا فروغ نہیں ہے۔ سماجی انصاف کیلئے ہمیں معاشرے میں آگاہی دینا ہوگی، حکومت، اکیڈیمیا، انڈسٹری و دیگر سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا، ایک دوسرے کی مدد کرنا ہوگی تاکہ بہترین معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ ہم کمیونٹی بیسڈ لرننگ کروا رہے ہیں، ہم نے اپنے طلبہ کو تیار کیا ہے جو معاشرے میں اپنا سماجی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر ہر تعلیمی ادارہ کمیونٹی بیسڈ لرننگ کو فروغ دے اور اپنے قریبی علاقوں میں سماجی خدمات سرانجام دے تو معاشرے میں سماجی انصاف کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور لوگوں کے مسائل اور محرومیاں دور کی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر صداقت علی

(ماہر نفسیات)

معاشرہ ایک بڑا کنبہ ہے۔ جیسے گھر چلا یا جاتا ہے ایسے ہی ملک کو چلایاجاتا ہے۔ سب اپنے وسائل اکٹھے کرتے ہیں جسے بیت المال کہا جاتا ہے، اس سے سکول، ہسپتال، سڑکیں، انفراسٹر کچر و دیگر بنتے ہیں۔ یہ ٹیکس پیئرز کا پیسہ ہوتا ہے اور سب ہی یہ سہولیات استعمال کرتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم یہی ہے کہ سب اس سے فائدہ اٹھائیں اور کوئی امتیاز نہ ہو، یہی سوشل جسٹس ہے۔ سب انسان ہیں مگر بناوٹ ایک جیسی نہیں ہے۔ سب کے اندر مختلف کیمیکلز ہیں اوراب کے ملاپ میں کمی بیشی اور فرق سے انسانوں میں فرق ہوتا ہے۔

قدرت نے یہ شاید اسی لیے ہی کیا ہے لوگ مختلف ہوں اور ایک دوسرے کے کام آسکیں ۔ امریکا میں بس ڈرائیور اور ڈاکٹر کی تنخواہ ایک جیسی ہے، وہاں لوگ اپنے تمام کام خود کرتے ہیں جس سے پروڈکٹیویٹی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اگر سب اپنی قابلیت کے مطابق اپنا اپنا کام کریں تو اس سے زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں 4 فیصد افراد ’doers‘ ہوتے ہیںجن میں کچھ کرنے کی لگن ہوتی ہے ، یہ نامسائد حالات کے باوجود بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ 16 فیصد افراد سخت محنت کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہ سمارٹ ورکر نہیں ہوتے۔ 80 فیصد افراد ایسے ہوتے ہیں جن کا کام کا موڈ نہیں ہوتا، انہیں موٹیویشن کی ضرورت ہوتی ہے۔

سائنس ہمارے لیے بہت کچھ کرتی ہے مگر ہم اس سے روشنی نہیں لیتے۔ ہم ثقافت اور سماج سے اصول،نظریہ اور روایات لیتے ہیں۔ یہ سب اقدار پرانی ہیں۔ سائنس میں ہر وقت تبدیلی، جدت اور بہتری آرہی ہوتی ہے۔ سائنس میں تحقیق ہوتی ہے۔ طلبہ کلاس میں ماضی میں ہونے والی کاموں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ انہیں مقاصد(goals) تو سکھائے جاتے ہیں لیکن وجہ (purpose) نہیں سکھائی جاتی۔ سائنس کہتی ہے خود کو وقت کے ساتھ بہتر کرو۔ سولو فلائٹ نہیں لو۔ ٹیم ورک اور ٹیم بلڈنگ کی بات کی جاتی ہے۔ اب سائنس میں اتنی جدت آگئی ہے کہ سب اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ جانے بغیر کے کس نے کیا ایجاد کیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو ’میں‘ سکھاتے ہیں کہ ’تم‘ نے جیتنا ہے، تم نے سب سے زیادہ کامیاب بننا ہے وغیرہ۔ والدین بچوں کو ’میں‘ کے بجائے ’ہم‘سکھائیں تو معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔مغرب میں لوگ انسانوں سے بچنا چاہتے ہیں۔

سائنس اس آدم بیزاری کے خلاف ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ خوشی دولت سے نہیں آپس میں اچھے تعلقات سے ملے گی۔ سائنس مقابلے کے بجائے آپس میں ساتھ چلنے کی بات کرتی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو ہرانے کیلئے کام کرتے ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات کا معلوم نہیں ہے۔ ہم تفریح چاہتے ہیں۔ ہم سوچے سمجھے بغیر فیصلے لیتے ہیں جن کا نقصان بھی ہوتا ہے۔

معاشرے میں لین دین اہم ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ لین دین پیسے کا ہو بلکہ اس میں عزت ، احترام، خوشی و دیگر شامل ہیں۔ میرے نزدیک سوشل جسٹس کا مطلب سائنٹفک جسٹس ہے۔ ہم جن روایات اور اقدار کو لے کر بات کرتے ہیں وہ پرانی ہو چکی ہیں۔ اگر ہم معاشرے میں سماجی انصاف چاہتے ہیں تو سائنسی اصولوں پر چلنا ہوگا۔دنیا کے وہ ممالک جن کی کسی سے لڑائی نہیں ہے وہ اطمینان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بیرونی سطح پر لڑائی اور اندرونی طور پر بھی مسائل ہیں، پولرائزیشن سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے۔ہمیں تعصب اور نفرت کا خاتمہ کرنا ہے۔ ایسے کام جو انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں انہیں ختم کرنا اور جو انسانوں کو جوڑتے ہیں انہیں دنیا بھر میں فروغ دینا ہے۔

سلمان عابد

(تجزیہ نگار)

ہماری اسلامی تعلیمات میں برابری اور مساوات شامل ہیں۔ مساوات ان محروم طبقات کیلئے ہے جو کمزور اور پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسی طرح سماجی انصاف کی بحث بھی انہی طبقات کیلئے ہے جو پسماندہ اور محروم ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت ریاست اور نظام چلتا ہے اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 8 سے 28، بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں اور ریاست آئین کے تحت اپنے تمام شہریوں کو یہ حقوق دینے کی پابند ہے۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان جب عمرانی معاہدہ کامیاب ہو تو سماجی انصاف ہوتا ہے، ریاست پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا ہے اور ان کے درمیان خلاء پیدا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ریاست اور عوام کے درمیان خلاء ہے، بداعتمادی کی فضاء ہے جس کے باعث ہمارا سماجی نظام تباہ ہو چکا ہے۔

اس وقت معاشی، مالی، معاشرتی، انتظامی و دیگر بنیادوں پر تقسیم ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔طبقاتی تقسیم کے خاتمے کیلئے سوشل جسٹس کی بات کی جاتی ہے جس میں تعلیم، صحت، معیشت، انصاف و دیگر شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری 50 فیصد سے زائد لڑکیاں اور خواتین ناخواندہ ہیں۔ صحت کی بات کریں تو ہمارے ہاں دوران زچگی اموات کی شرح اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ معاشی تقسیم کی بات کریں تو مڈل کلاس ختم ہوگئی، امیر اور غریب کا فرق بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ہا ںغریب کیلئے سازگار ماحول نہیں ہے۔ نظام انصاف میں خرابیاں ہیں، لوگوں کو آسان اور فوری انصاف نہیں مل رہا۔ ہمارے سیاسی نظام میں سماجی انصاف نہیں ہے۔ ہماری حکومتیں بھکاری پیدا کرتی ہیں، لوگوں کو معاشی طور پر خودمختار نہیں بناتی۔ کبھی آٹا اور راشن سکیم تو کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام جیسے منصوبوں سے غریب کو لائنوں میں لگا دیا جاتا ہے۔

دنیا میں صنعتیں لگا کر لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے، انہیں معاشی طور پر اپ گریڈ کیا جاتاہے جبکہ ہمارا ماڈل سوشل جسٹس کے خلاف ہے ، لوگوں کی تضحیک کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی لوئر جوڈیشری میں انصاف مل رہا ہے؟ رپورٹ اور تفتیش کا نظام عوام کو سپورٹ کر رہا ہے؟ ہمارے نظام انصاف اور تفتیش میں خرابیاں ہیں جس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ سوشل جسٹس کے حوالے سے دنیا میں ہماری درجی بندی میں کمی آئی ہے، بعض رینکنگز میں افغانستان ہم سے بہتر ہے۔ مالی بجٹ کی بات کریں تو سال 2024-25 ء کے بجٹ میں سماجی انصاف کیلئے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا گیا۔

ہماری ساری توجہ ترقیاتی کاموں اور انفراسٹرکچر پر ہوتی ہے۔ ہمارے سوشل پروٹیکشن کے ادارے محض عمارتیں ہیں، ان کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہورہے۔ خراب حالات اور مایوسی کی وجہ سے لوگوں میں بداعتمادی بڑھ رہی ہے۔ یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کا نظام صرف اس لیے اچھا ہے کہ وہاں سماجی انصاف ہے۔

ہم دنیا کو خوش کرنے کیلئے قانون سازی کرتے ہیں ،عملدرآمد نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنا ملک اور نظام ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو کڑوی گولی نگلنا ہوگی، اس نظام کا ازسرنو جائزہ لے کر دوبارہ تشکیل کرنا ہوگی، حکومت کو اپنا ماڈل تبدیل کرنا ہوگا، معاشی پالیسیوں میں سماجی انصاف کو شامل کرنا ہوگا اور محروم طبقات کو قومی دھارے میں لانا ہوگا، بصورت دیگر ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ہمارے ڈاکٹر، انجینئر و دیگر تجربہ کار افراد بیرون ملک جا رہے ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں سماجی انصاف بدقسمتی سے ہمارے ہاں چاہتے ہیں ریاست اور کے درمیان ہو رہا ہے کرتے ہیں ہوتے ہیں لوگوں کو سے زیادہ ہوتی ہے ریاست ا کریں تو نہیں ہو رہے ہیں کے ساتھ نہیں ہے جاتا ہے کی بات ہیں جس فیصد ا اور ان رہی ہے ہے اور

پڑھیں:

ہونیاں اور انہونیاں

پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔

ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔

حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔

بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔

پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔

پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔

اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • ہمارے منجمد اثاثوں کو یوکرین کی جنگی امداد کیلئے استعمال کرنے پر سخت کارروائی کریں گے، روس
  • کمزور کمیونٹیز کی مدد کیلئے سماجی پروگرام جاری رکھے جائیں: یوسف رضا گیلانی 
  • صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا
  • بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا گھٹیا حرکت، اسرائیل کا محاسبہ ناگزیر ہوگیا ہے، محمود عباس
  • ریلیف پیکیج آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا قابل مذمت ہے
  • ہمارے احتجاج کے باعث قاضی فائز کو ایکسٹینشن نہ ملی، علی امین
  • پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں،جرمن سفارتخانے کا متاثرین کیلئے امداد کا اعلان