Jasarat News:
2025-11-03@12:41:53 GMT

رئیل اسٹیٹ سیکٹر کیلیے مراعاتی پیکج کا فیصلہ موخر

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر اعظم شہباز شریف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بحالی کے لیے ٹیکس مراعاتی پیکیج کا فیصلہ مؤخر کر دیا ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے سبسڈی دینے اور ذرائع آمدن ظاہر کرنے سے چھوٹ کے معاملات ابھی طے نہیں ہوسکے۔ ٹیکس حکام نے ایک بار پھر کاروباری طبقے کی طرف سے پہلی مرتبہ گھر، دکان یا دفتر خریدنے والوں کو 5 کروڑ روپے کے مساوی ایمنسٹی دینے کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک روز قبل ہاؤسنگ سیکٹر ٹاسک فورس نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور انہیں جائیداد کی خریداری پر ٹیکسوں میں کمی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی سفارشات کے بارے میں بتایا، ایک فائلر جائیداد کی خریداری پر جائیداد کی قیمت کا تقریباً 8 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ذرائع کے مطابق مجموعی طورپر ٹیکسوں میں کمی پر اتفاق پایا جاتا ہے تاہم بنیادی مسائل ابھی حل طلب ہیں۔ چیئرمین
ایف بی آر نے 3 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس دہندگان پہلے ہی غیر منصفانہ لیوی کو متنازعہ قرار دے چکے ہیں اور یہ معاملہ عدالتوں میں بھی زیر بحث ہے۔ ایف بی آر کا مطالبہ ہے کہ پرانے گھروں پر جو ایک سے زاید مرتبہ فروخت ہو چکے ہیں 3 فیصد ڈیوٹی عاید کی جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم نے وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ کو مراعاتی پیکیج کی نوک پلک سنوارنے اور آئی ایم ایف کو اعتماد میں لینے کی ذمے داری سونپی ہے۔ مذکورہ ملاقات میں جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کم کرنے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے، گھر کی تعمیر کے لیے قرض پر شرح سود پر سبسڈی، پہلی بار خریدار کو5کروڑ روپے تک ذرائع آمدن کی ایمنسٹی کی تجاویز پر غور کیا گیا۔ ٹاسک فورس کے کچھ ارکان نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ مراعاتی پیکیج کے نتیجے میں سرمایہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں جمع ہو سکتا ہے اور قیاس آرائی پر مبنی سرگرمیوں کو ایک بار پھر ہوا مل سکتی ہے۔ معروف کاروباری شخصیات میں سے ایک عارف حبیب نے تجویز دی کہ پہلی بار گھر خریدنے والے سے 5 کروڑ روپے تک کی آمدنی کا ذریعہ نہ پوچھا جائے۔ تاہم چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیکس ایمنسٹی دینے کے مترادف ہوگا جس کی آئی ایم ایف اجازت نہیں دیگا۔ عارف حبیب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا غیر رسمی نقدی پر مبنی معیشت کے بڑے سائز کی وجہ سے کارپوریٹ سیکٹر اور بینک بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کرنے سے گریزاں ہیں۔ ان کی تجویز ایمنسٹی کی تعریف میں بالکل نہیں آتی کیونکہ یہ صرف پہلی بار حقیقی خریداروں تک ہی محدود ہوگی۔ وزیراعظم نے سرکاری حکام کو عارف حبیب کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنے کی ہدایت کی۔ ملاقات میں یہ بات سامنے آئی کہ بزنس کمیونٹی اگلے ماہ آئی ایم ایف حکام سے سے ملاقات کرے گی تاکہ 5 کروڑ روپے کی ایمنسٹی اسکیم کے ایجنڈے کو زیر بحث لایا جا سکے۔ وزیراعظم نے ہاؤسنگ سیکٹر کی ٹاسک فورس بھاری ٹیکسوں اور مجموعی طور پر سست معاشی ترقی کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی سرگرمیاں سست ہونے کے بعد تشکیل دی تھی۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر مراعاتی پیکیج کا مقصد ملک میں تعمیراتی اور اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ ملاقات میں کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے کو گھر کی تعمیر کے لیے بینک قرض لینے کے قابل بنانے کے لیے شرح سود پر سبسڈی دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اقتصادی امور سے کہا گیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے تک سفارشات لے کر آئیں۔ مرکزی بینک نے پالیسی ریٹ 12 فیصد مقرر کیا ہے لیکن ہوم لون اب بھی 17 فیصد سے زیادہ مہنگے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اس ہفتے ایک ترمیمی بل کی منظوری مؤخر کردی تھی جس میں آمدنی کے ذرائع واضح کیے بغیر جائیداد کی خریداری پر پابندی کی تجویز دی گئی تھی۔ سرکاری حکام کے مطابق رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے کسی ریلیف پیکیج کو ابھی تک حتمی شکل نہیں دی گئی، صوبوں اور آئی ایم ایف سے مشاورت بھی ابھی شروع نہیں ہوئی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: رئیل اسٹیٹ سیکٹر ا ئی ایم ایف جائیداد کی کی تجویز سیکٹر کی کے لیے

پڑھیں:

اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ

وفاقی حکومت نے ٹیکس نیٹ کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کرلیا جس کے تحت نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور محصولات میں اضافے کیلئے نئے اقدامات تجویز کیے ہیں جو جلد نافذالعمل ہوسکتے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق نان فائلرز سے بینک سے نقد رقم نکلوانے پر ٹیکس کی شرح 0.8 فیصد سے بڑھا کر 1.5 فیصد کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس مجوزہ اقدام سے حکومت کو سالانہ تقریباً 30 ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل ہونے کی توقع ہے، تاہم اس سے لاکھوں نان فائلرز کو ہر اے ٹی ایم یا بینک ٹرانزیکشن پر دوگنا ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جس سے عام شہریوں کی جیب پر اضافی بوجھ پڑنے کا خدشہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تجاویز حکومت کے ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کیلئے پیش کی گئی ہیں، کیونکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ایف بی آر اپنے محصولات کے ہدف سے پیچھے رہا۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہدف 3083 ارب روپے تھا، تاہم ایف بی آر صرف 2885 ارب روپے جمع کر سکا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل نان فائلرز کے بینک سے رقوم نکلوانے پر ٹیکس کٹوتی میں اضافہ کیا گیا، یومیہ 50 ہزار سے زائد رقم نکلوانے پرٹیکس 0.6 فیصد سے بڑھا کر 0.8 فیصد کیا گیا، اس سے پہلے یومیہ 50 ہزار سےزائد رقم نکلوانے پر0.6 فیصد ٹیکس عائد تھا۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف بھی مان گیا کہ پاکستان میں معاشی استحکام آ گیا ہے، وزیرخزانہ
  • مسابقتی کمیشن کی اسٹیل سیکٹر کو درپیش چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی
  • نئے ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے، ایف بی آر چیئرمین کا مؤقف
  • چیئرمین ایف بی آر نے منی بجٹ کے کسی امکان کو مسترد کردیا
  • سرکاری سکیم کے تحت حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی شروع
  • کمپیٹیشن کمیشن کی چین و بھارت کی طرز پر اسٹیل کی علیحدہ وزارت کے قیام کی سفارش
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ دسمبر میں پاکستان کیلیے ایک ارب ڈالر قسط پر غور کرے گا
  • پولیس اسٹیٹ
  • شاہ محمود اسپتال منتقل،پی ٹی آئی کی پرانی قیادت نئی تحریک کیلیے متحرک