ایسے کسی معاہدے کو نہیں مانیں گے جس میں یوکرین شامل نہ ہو: زیلنسکی
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
ایسے کسی معاہدے کو نہیں مانیں گے جس میں یوکرین شامل نہ ہو: زیلنسکی WhatsAppFacebookTwitter 0 17 February, 2025 سب نیوز
کیف(سب نیوز )یوکرین کے صدر زیلنسکی کا کہنا ہیکہ یوکرین سعودی عرب میں ہونے والی امریکا روس بات چیت میں شرکت نہیں کرے گا، یوکرین کو شامل کیے بغیر کسی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور نہ ہی ایسے کسی معاہدے کو مانیں گے جس میں یوکرین شامل نہ ہو۔
دورہ مشرق وسطی میں متحدہ عرب امارات پہنچنے پر صدر زیلنسکی نے ویڈیو لنک پر یوکرینی میڈیا سے بات کی، زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ہم ایسے معاہدے پر دستخط کریں گے جس میں سکیورٹی ضمانتیں موجود ہوں، جنگ کے خاتمے کے لیے صدر پوتن پر دبا بڑھانے کے لیے چین کی شمولیت اہم ہے۔
یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ بدھ کو سعودی عرب کا سرکاری دورہ کروں گا جو پہلے سے طے شدہ ہے، دورہ سعودی عرب کا تعلق امریکا روس بات چیت سے نہیں ہے۔ادھر یوکرین تنازع پر امریکا اور روسی حکام کی سعودی عرب میں ملاقات کل ہونے جارہی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سعودی عرب پہنچ گئے ہیں جب کہ قومی سلامتی مشیر مائیک والٹز اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی آج پہنچ رہے ہیں۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی کل امریکی حکام سے ملاقات ہوگی جس میں یوکرین جنگ کے خاتمے اور روس امریکا تعلقات پر بات چیت متوقع ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جس میں یوکرین گے جس میں
پڑھیں:
جرمنی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری میں یوکرین کی مدد کرے گا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مئی 2025ء) جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے بدھ 28 مئی کو برلن میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی میزبانی کے موقع پر اعلان کیا کہ جرمنی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری میں یوکرین کی مدد کرے گا۔
یوکرین اب اسلحہ درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست
’جرمن ہتھیاروں سے روسی سرزمین پر حملے ممکن‘
میرس نے جرمن ساختہ ٹاؤرس کروز میزائل یوکرین بھیجنے کے امکانات پر بھی کھل کر انکار نہ کیا، جو صدر زیلنسکی کی ایک اہم درخواست ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف سے بات کرتے ہوئے چانسلر میرس کا کہنا تھا، ''یقیناﹰ، یہ امکان کے دائرے میں ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تربیتی ضروریات کی وجہ سے ان میزائلوں کے میدان جنگ پر فوری اثرات محدود ہو سکتے ہیں۔(جاری ہے)
جرمن دارالحکومت برلن میں صدر زیلنسکی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میرس نے کہا، ''ہم (یوکرین کو) طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تیاری کے قابل بنانا چاہتے ہیں۔
ہم مشترکہ پیداوار کو بھی ممکن بنانا چاہتے ہیں۔‘‘جرمن چانسلر کے مطابق یہ اقدام جرمنی اور یوکرین کے درمیان ''فوجی صنعتی تعاون کی ایک نئی شکل کے آغاز‘‘ کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں ''بہت زیادہ امکانات ہیں۔‘‘
جرمنی کی طرف سے یوکرین کو ٹاؤرس میزائل فراہم کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ میزائلوں کے استعمال کے لیے یوکرینی فوجیوں کو کئی ماہ کی تربیت کی ضرورت ہو گی اور اگر یہ نظام چھ ماہ یا ایک سال میں فراہم کیا جاتا ہے، تو اس سے یوکرین کو اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ جرمنی اب یوکرین کے ساتھ اپنے فوجی تعاون اور حمایت کو بہتر بنا رہا ہے۔میرس نے رواں ہفتے کے آغاز پر پیش کیے گئے اپنے نقطہ نظر کو دہرایا کہ یوکرین پر عائد یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے کہ وہ جرمن ہتھیار کہاں کہاں استعمال کر سکتا ہے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے یوکرین کی جانب سے ٹاؤرس میزائلوں کی ضرورت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''یقیناﹰ ہمیں ان کی ضرورت ہے۔
‘‘ وزرائے دفاع نے پیداوار کے معاہدے پر دستخط کر دیےبرلن میں پریس کانفرنس کے بعد جرمن وزارت دفاع نے تصدیق کی کہ جرمن وزیر دفاع بورس پسٹوریئس اور ان کے یوکرینی ہم منصب رستم عمروف نے یوکرین میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تیاری کے لیے مالی اعانت کے ایک اعلامیے پر دستخط کر دیے ہیں۔
جرمن وزارت دفاع کے مطابق پانچ بلین یورو کے اس پیکج کا مقصد یوکرین کو ''اس سال طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی کافی تعداد‘‘ کی تیاری کے قابل بنانا ہے۔
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے جرمنی پر جنگ کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ''یوکرین کے لوگوں کو لڑائی جاری رکھنے پر مجبور کرنے کی کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
پیسکوف کے مطابق برلن تنازعے کا سفارتی حل تلاش کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے روسی الزامات مسترد کر دیےادھر واشنگٹن پہنچے ہوئے جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ ختم کرنے کے پر آمادہ نہیں ہیں۔
امریکی ٹی وی فاکس نیوز کو ایک انٹریو دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ''روس نے یہ جنگ شروع کی۔ روس یہ تنازعہ جاری رکھے ہوئے ہے، اور اسے ختم نہیں کر رہا۔‘‘
انہوں نے روس کی طرف سے جرمنی کے خلاف جنگی جنون پھیلانے کے الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جرمنی نہیں بلکہ روس غیر قانونی جنگ لڑ رہا ہے۔
ادارت: مقبول ملک