UrduPoint:
2025-11-03@16:36:59 GMT

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) جرمنی میں 7 ملین سے زیادہ اہل ووٹرز جو یا تو خود تارکین وطن ہیں یا ان کے والدین کا شمار تارکین وطن برادری میں ہوتا ہے، آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 7.1 ملین اہل رائے دہندگان، کا تناسب آٹھ جرمن ووٹرز میں ایک ووٹر بنتا ہے۔ سماجیات کے ایک معروف جرمن ماہر فریڈریک رؤمرجرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (DeZIM) سے وابستہ ہیں اور انسٹی ٹیوٹ کے لیے ایک مطالعہ کے شریک مصنف ہیں۔

اس تحقیق میں ان لوگوں کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود جرمنی ہجرت کر کے آئے ہیں یا جن کے والدین تارکین وطن کے طور پر جرمنی آ کر آباد ہوئے تھے اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

جرمن قانون ساز متنازعہ امیگریشن قانون پر آج ووٹ ڈالیں گے

یورپ میں مہاجرت اور مہاجرین سے متعلق تمام تر معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ''انفومائگرنٹ‘‘ کے 2022 ء کے اعداد وشمار کے مطابق جرمنی میں ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں۔

ان میں سے اکثر گھرانوں کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے لیکن سیاسی سطح پر پاکستانی برادری اس مغربی ملک میں بڑی حد تک غیر فعال نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن برادری جرمن معاشرے میں اپنے لیے کوئی خاطر خواہ سماجی اور سیاسی جگہ بنانے میں اب تک بہت کامیاب نظر نہیں آرہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعدد ایسے پاکستانی نژاد باشندوں سے بات چیت کی جن کی دوسری اور تیسری نسلیں جرمنی میں پروان چڑھ چُکی یا رہی ہیں۔

جرمنی میں تارکین وطن کا سماجی انضمام نسبتاﹰ بہتر، او ای سی ڈی

پاکستان سے جرمنی آکر تعیلم حاصل کرنے کے بعد جرمن سماجی شعبے میں بے حد فعال کر دار ادا کرنے والی شاھدہ پروین کہتی ہیں کہ 1984 ء سے وہ جرمنی میں آباد ہیں اور اب تک انہوں نے پاکستانی نژاد باشندوں کو ایکٹیو سیاست میں حصہ لیتے نہیں دیکھا۔ ایک نامور سوشل ورکر اور ایجوکیشنسٹ شاھدہ پروین مغربی جرمن شہر ویٹن میں انضمام کی مشاورتی کونسل میں بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی باشندے جرمنی آکر یہاں سکونت اختیار کرتے ہیں، یہاں کی سہولیات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن یہاں کی سیاسی ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آخر ایسا کیوں ہے، شاھدہ پروین نے کہا،''سیاست میں حصہ لینے کے لیے سیاسی ، سماجی معاشرتی، تعلیمی، تربیتی اور ثقافتی شعور لازم ہے۔ زیادہ تر لوگ محض اپنے معاشی معاملات سے ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ چند خاص شعبوں کا انتخاب کر لیتے ہیں مثلاً آئی ٹی کا میدان، میڈسن کا شعبہ یا کاروبار سنبھالنے پر تمام تر توجہ مرکوزرکھتے ہیں۔

‘‘ شاھدہ پروین کا مزید کہنا تھا،''کسی ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی سیاسی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں۔ تاہم ہمارے ہم وطنوں کی توجہ قطعاً اس جانب نہیں ہوتی۔‘‘

نئے آنے والے مہاجرین جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے کارآمد ہیں؟

شہر بون میں آباد ایک اور معروف پاکستانی نژاد جرمن شہری توقیر احمد اعلیٰ تعیلم کے لیے جرمنی آنے کے بعد بزنس کے شعبے سے منسلک رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خو د کو مختلف سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔

ان کہنا ہے کہ وہ 1990 ء سے جرمن شہریت لینے کے بعد سے جرمنی کے تمام الیکشنز میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے آئے ہیں۔ جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے توقیر احمد نے کہا،''ووٹ کاسٹ نہ کرنا ایک جرم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جمہوریت کا فروغ نہیں چاہتے۔ جمہوریت کا پروسس قیمتی ہوتا ہے۔

ووٹ نہ ڈال کر دراصل آپ انہیں کامیاب ہونے کا موقع فراہم کر رہے ہوتے ہیں جنہیں آپ پسند نہیں کرتے۔ میں ہمیشہ انتہاپسندی کے خلاف احتجاج کا حصہ بنتا رہا ہوں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی کے خلاف کولون میں ہونے والے مظاہرے میں شامل ہوا۔ بون میں بھی مظاہروں میں شرکت کی۔‘‘

برانڈنبرگ انتخابات: حکمران جماعت کی اے ایف ڈی پر معمولی برتری

توقیر احمد کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم جرمنی جیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں اظہار خیال میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی۔

‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے گہری سیاسی دلچسپی کے باوجود ایکٹیو سیاست میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ ان کا کہنا تھا،'' کیونکہ میں اپنی فیملی کی پہلی نسل سے ہوں جسے جرمنی آکر روٹی روزی کمانے کی فکر تھی جس کا اللہ نے بہت اچھی طرح موقع فراہم کر دیا۔ افسوس یہ کہ میرے تین میں سے کسی ایک بچے نے بھی ایکٹیو سیاست میں آنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

‘‘

جرمن انتخابات 2025کے تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آخر جرمنی میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کے باوجود پاکستانی نژاد نوجوان سیاست میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس بارے میں برلن میں متعدد دہائیوں سے آباد ایک اور پاکستانی ادبی اور کاروباری شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' جرمنی میں آباد زیادہ تر پاکستانی باشندوں نے اب تک جرمن معاشرے اور اقدار کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔

اکثر پاکستانیوں کی نظروں میں جرمنی کی اکثریتی آبادی کافر ہے۔ اس سوچ اور رویے کا رد عمل یہ ہے کہ جرمن باشندے پاکستانیوں کو اپنے معاشرے کا حصہ سمجھنے اور قبول کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔‘‘

جرمنی میں آباد پاکستانی اور اپنی ثقافت کی تلاش

ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہی اور انہوں نے تارکین وطن پاکستانیوں کی کئی نسلوں کی سرگرمیوں کا قریب سے جائزہ لیا ہے۔

پاکستانیوں کے سیاسی رویے کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''یہاں رہنے والے پاکستانی اپنا تشخص تلاش کرتے ہیں جو انہیں صرف پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی ہی سے ملتا ہے اور وہ اپنی تمام سیاسی توانائیاں پاکستان میں نمائندہ جماعتوں کے ارکان یا عہدے داران کی حیثیت سے صرف کرتے ہیں۔‘‘

جرمن دارالحکومت برلن ہی کی ایک اور معروف سماجی شخصیت، ایک کامیاب بزنس مین اور پانچ اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کے والد ہیں۔

ان کے بچے پیدائشی جرمن ہیں اور اب ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ منظور اعوان 2019 ء سے پاکستان پیپلز پارٹی برلن کے صدر بھی ہیں۔

منظور اعوان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' جرمن سیاسی نظام کا حصہ بننے کے لیے آپ کا جرمن شہری ہونا لازمی ہے۔ یہاں کی شہریت حاصل کرنا بہت پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے لمبا وقت درکار ہوتا ہے۔

جرمن زبان پر عبور ہونا بھی لازمی ہے۔‘‘ تاہم منظور اعوان کے مطابق نئی نسل کے لیے یہ تمام عوامل مشکل نہیں ہیں۔

جرمنی غیر ملکی ہنرمند کارکنوں کے لیے پرکشش کیوں نہیں رہا؟

پاکستانیوں کے مجموعی سیاسی رویے کے بارے میں منظور اعوان نے کہا،''پاکستان میں سیاسی عمل کا تسلسل جاری نہیں ہے اور ووٹ کی اہمیت کا احساس بھی باشندوں میں کم ہی ہے۔

اس رویے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو سیاست میں شامل کرنے کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے جو ہماری ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام حکومت کو تقویت ملے۔ میڈیا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘

1980ء سے جرمنی میں آباد منظور اعوان نے سن 2000 میں جرمن شہریت حاصل کی اور تب سے وہ اور انکی فیملی کے تمام اہل ووٹرز جرمنی کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں جرمنی میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے اچھے مواقع موجود ہیں۔ لیکن تارکین وطن پاکستانیوں کو سماجی اور سیاسی شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی تارکین وطن پاکستانی نژاد منظور اعوان سیاست میں سماجی اور کرتے ہیں ہیں اور اور اب ہے اور کے بعد رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ اور وزیرِ مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کس طرح غلطی سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والے اعجاز ملاح کو بھارتی خفیہ ادارے نے پکڑ کر پاکستان میں جاسوسی کے اہداف دیے۔

وفاقی وزرا کے مطابق اعجاز ملاح کو پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیز نے گرفتار کرکے جب اس سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہوا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی وردیاں اپنے بھارتی ہینڈلر کے سپرد کرنے والا تھا اور اِس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی، جن میں سب سے اہم زونگ کمپنی کے سم کارڈ تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آپریشن سندور میں رسوائی کے بعد بھارت کی ایک اور سازش ناکام، جاسوسی کرنے والا ملاح گرفتار، اعتراف جرم کرلیا

وفاقی وزیر کے مطابق یہ اشیا حوالے کرنے کا مقصد پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی ملوث کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کرنسی نوٹ، پاکستان کے سیگریٹ اور پاکستانی کی ماچسیں بھی حوالے کی جانی تھیں۔

اس ساری واردات کا مقصد بظاہر اِتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن دیکھا جائے تو ماضی میں بھارت نے مختلف واقعات میں پاکستان کی دراندازی ثابت کرنے کے لیے ایسی ہی چیزوں کا سہارا لیا۔

بھارتی حکومت کسی کو پاکستانی ایجنٹ ثابت کرنے کے لیے کبھی تو یہ کہتی ہے کہ فلاں سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی، فلاں سے پاکستانی چاکلیٹ ریپر، پاکستانی بسکٹ یا پاکستانی سیگریٹ برآمد ہوئے۔ یہ بھارتی حکومت کی پرانی حکمتِ عملی ہے اور خاص کر ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں جہاں فوجی کارروائیوں پر سوال اُٹھانا ملک دشمنی سمجھا جاتا ہو، ایسی چیزوں کو قبولیتِ عام ملتی ہے۔

بھارت نے پاکستانی مصنوعات کی بنیاد پر کب کب پاکستانی پر دراندازی کے الزامات لگائے؟

بھارت یہ طریقہ واردات 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی استعمال کر چکا ہے جب یہ دعوے کیے گئے کہ پاکستانی اہلکار بھارتی علاقے میں گھس کر جاسوسی کر رہے تھے اور ثبوت کے طور پر اکثر پاکستانی سیگریٹس، مصالحے، بسکٹ اور چائے کے پیکٹس دکھائے جاتے تھے۔

1999 کی کارگل جنگ میں بھارتی میڈیا نے متعدد جگہوں پر دعویٰ کیاکہ پاکستانی فوجی بھارتی علاقوں میں گھسے ہوئے تھے۔ ثبوت کے طور پر وہی پاکستانی بسکٹ، چائے کے ریپر اور اردو میں لکھے ہوئے ادویات کے لیبل پیش کیے گئے۔ بھارتی دفاعی ماہرین نے بعد میں تسلیم بھی کیا کہ یہ غیر سنجیدہ اور کمزور شواہد تھے۔

2008 میں بھارتی فوج کی پریس کانفرنسوں میں کئی بار پاکستانی بسکٹ، کڑک چائے کے ریپر یا سگریٹ پیک دکھائے گئے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت میں دراندازی کے لیے لوگ پاکستان سے آئے تھے۔

2013 میں دہلی پولیس نے ایک نوجوان کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جس کے پاس سے پاکستانی 100 روپے کا نوٹ اور راولپنڈی کی بنی ہوئی چاکلیٹ برآمد ہوئی۔ بعد میں پتا چلا گرفتار شدہ نوجوان ذہنی مریض تھا۔

2016 اڑی حملہ میں بھارتی حکومت نے دعوٰی کیاکہ مارے گئے حملہ آوروں کی پاس سے پاکستانی چاکلیٹس اور بسکٹ برآمد ہوئے ہیں، اس بات کو خود بھارتی میڈیا نے بعد میں مزاحیہ الزام قرار دیا۔

2017 میں بھارت نے دعوٰی کیاکہ پاکستان کا جاسوسی نیٹ ورک پکڑا گیا ہے، اور ثبوت کے طور پر پان پراڈکٹس اور چاکلیٹ ریپر پیش کیے گئے۔

2019 پلوامہ واقعے میں پاکستانی دراندازی شامل کرنے لیے پاکستانی بسکٹ اور چائے کے خالی پیکٹ ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے۔

2021 میں بھارتی حکومت نے ایک مقامی چراوہے کو اِس بنیاد پر جاسوس قرار دے دیا کہ اس کے پاس پاکستانی بسکٹ اور اوڑھنے والی چادر تھی، بعد میں وہ شخص بھارتی شہری ہی نکلا۔

21 اگست 2022 کو بھارتی فوج نے الزام لگایا کہ اس نے جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں لائن آف کنٹرول پر دراندازی کی کوشش ناکام بنائی ہے اور مبینہ طور پر گرفتار پاکستانی عسکریت پسند سے پاکستانی کرنسی برآمد ہوئی ہے۔ بھارتی فوج نے اسے پاکستان کی حمایت سے دراندازی کا ثبوت قرار دیا۔

22 اپریل 2025 کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشتگردوں نے سیاحوں پر حملہ کیا، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی فورسز نے 28 جولائی 2025 کو آپریشن مہادیو میں 3 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔

بھارتی حکومت کے مطابق ان دہشتگردوں سے مبینہ طور پر پاکستان کی بنی ہوئی چاکلیٹس کی ریپنگز برآمد ہوئیں جو کراچی میں کینڈی لینڈ اور چاکو میکس کی بنی ہوئی تھیں۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ یہ ثبوت پاکستان سے دراندازی کا اشارہ دیتے ہیں، اور دہشتگرد پاکستانی شہری تھے۔

جاسوسوں کی گرفتاری کی اب کئی خبریں سننے کو ملیں گی، بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا نیٹ ورک اِس وقت بہت زیادہ وسیع ہوگیا ہے۔ یہ نیٹ ورک آج گلف ممالک، کینیڈا، امریکا اور یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ کلبھوشن یادیو ایک ثبوت ہے کہ کس طرح سے اس نے اپنی شناخت چھپا کر ایران میں کاروبار بنایا اور پاکستان میں جاسوسی کے لیے آتا جاتا رہا۔

بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون نے بتایا کہ غریب مچھیروں کو پکڑ کر اُن کو بلیک میل کرکے اُن سے پاکستان کی جاسوسی کروانا بھارتی خفیہ اداروں کا پرانا وطیرہ ہے، اور موٹر لانچز ہی کے ذریعے سے زیادہ تر پیسوں کی غیر قانونی ترسیل، جیسا کہ حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستانی خفیہ ادارے بہت متحرک ہیں، اب اِس طرح کی بہت سی خبریں دیکھنے سننے کو ملیں گی۔ اس سے قبل کراچی، لاہور اور اِسلام آباد سے اِس طرح کے کئی جاسوس پکڑے جا چُکے ہیں۔

بھارت جامع مسائل کے حل کی طرف قدم نہیں اٹھاتا، ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک

ایئر مارشل (ر) اعجاز ملک نے گزشتہ ماہ میڈیا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور ہمسایہ بھارت کے تعلقات کبھی بہتر نہیں ہو سکتے کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ جامع مسائل حل کرنے کی طرف قدم نہیں اٹھاتا۔

انہوں نے کہاکہ ان تنازعات میں کشمیر، انڈس واٹر ٹریٹی اور بھارتی ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی شامل ہیں۔ ہماری مسلح افواج ہمیشہ قومی خودمختاری اور پاکستان کی سالمیت کا دفاع کرتی ہیں اور ہر چیلنج کے سامنے کھڑی ہے۔

بھارت نے ’را‘ کی فنڈنگ بڑھا کر دائرہ کار وسیع کردیا، دھیرج پرمیشا

برطانوی یونیورسٹی آف ہِل میں کریمنالوجی کے پروفیسر بھارتی نژاد دھیرج پرمیشا نے بھارتی اخبار کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور مشیر قومی سلامتی اجیت دوول نے بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کو فنڈنگ بڑھا کر اُس کے دائرہ کار میں اِضافہ کر دیا ہے جو اِس سے پہلے کانگریس کے دور میں نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھارت کشیدگی: ہندوستان کو کیا کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟

’بھارت کے پاس اِس طرح سے وسیع نیٹ ورک 1980 کی دہائی میں تھا۔ خفیہ نیٹ ورک کی وسعت کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے اہداف بڑھ گئے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بھارتی جاسوسی پاک بھارت جنگ پاکستان بھارت تعلقات خفیہ ادارے متحرک گرفتاریاں معرکہ حق وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • تارکین وطن پاکستانی “پاک آئی ڈی” ایپ پرگاڑیاں رجسٹر کروا سکیں گے
  • پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
  • وزیراعلیٰ پنجاب سے جرمن رکن پارلیمنٹ کی ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • پاکستانی کسانوں کا آلودگی پھیلانے پر جرمن کمپنیوں کیخلاف مقدمہ دائر کرنےکا اعلان
  • وزیراعلیٰ مریم نواز شریف سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تُرک نَخباؤر کی ملاقات
  • وزیراعلیٰ مریم نواز سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن کی ملاقات، مختلف امور اور تجاویز پر تبادلہ خیال
  • پاکستانی کسانوں کا جرمن کمپنیوں کیخلاف مقدمے کا اعلان