UrduPoint:
2025-04-26@03:50:45 GMT

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) جرمنی میں 7 ملین سے زیادہ اہل ووٹرز جو یا تو خود تارکین وطن ہیں یا ان کے والدین کا شمار تارکین وطن برادری میں ہوتا ہے، آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 7.1 ملین اہل رائے دہندگان، کا تناسب آٹھ جرمن ووٹرز میں ایک ووٹر بنتا ہے۔ سماجیات کے ایک معروف جرمن ماہر فریڈریک رؤمرجرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ (DeZIM) سے وابستہ ہیں اور انسٹی ٹیوٹ کے لیے ایک مطالعہ کے شریک مصنف ہیں۔

اس تحقیق میں ان لوگوں کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود جرمنی ہجرت کر کے آئے ہیں یا جن کے والدین تارکین وطن کے طور پر جرمنی آ کر آباد ہوئے تھے اور اب ان کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

جرمن قانون ساز متنازعہ امیگریشن قانون پر آج ووٹ ڈالیں گے

یورپ میں مہاجرت اور مہاجرین سے متعلق تمام تر معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ''انفومائگرنٹ‘‘ کے 2022 ء کے اعداد وشمار کے مطابق جرمنی میں ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی تارکین وطن آباد ہیں۔

ان میں سے اکثر گھرانوں کی دوسری اور تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے لیکن سیاسی سطح پر پاکستانی برادری اس مغربی ملک میں بڑی حد تک غیر فعال نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن برادری جرمن معاشرے میں اپنے لیے کوئی خاطر خواہ سماجی اور سیاسی جگہ بنانے میں اب تک بہت کامیاب نظر نہیں آرہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے متعدد ایسے پاکستانی نژاد باشندوں سے بات چیت کی جن کی دوسری اور تیسری نسلیں جرمنی میں پروان چڑھ چُکی یا رہی ہیں۔

جرمنی میں تارکین وطن کا سماجی انضمام نسبتاﹰ بہتر، او ای سی ڈی

پاکستان سے جرمنی آکر تعیلم حاصل کرنے کے بعد جرمن سماجی شعبے میں بے حد فعال کر دار ادا کرنے والی شاھدہ پروین کہتی ہیں کہ 1984 ء سے وہ جرمنی میں آباد ہیں اور اب تک انہوں نے پاکستانی نژاد باشندوں کو ایکٹیو سیاست میں حصہ لیتے نہیں دیکھا۔ ایک نامور سوشل ورکر اور ایجوکیشنسٹ شاھدہ پروین مغربی جرمن شہر ویٹن میں انضمام کی مشاورتی کونسل میں بھی شامل ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی باشندے جرمنی آکر یہاں سکونت اختیار کرتے ہیں، یہاں کی سہولیات سے فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن یہاں کی سیاسی ، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے۔

اس سوال کے جواب میں کہ آخر ایسا کیوں ہے، شاھدہ پروین نے کہا،''سیاست میں حصہ لینے کے لیے سیاسی ، سماجی معاشرتی، تعلیمی، تربیتی اور ثقافتی شعور لازم ہے۔ زیادہ تر لوگ محض اپنے معاشی معاملات سے ہی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ چند خاص شعبوں کا انتخاب کر لیتے ہیں مثلاً آئی ٹی کا میدان، میڈسن کا شعبہ یا کاروبار سنبھالنے پر تمام تر توجہ مرکوزرکھتے ہیں۔

‘‘ شاھدہ پروین کا مزید کہنا تھا،''کسی ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے سماجی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشرتی سرگرمیاں بھی سیاسی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں۔ تاہم ہمارے ہم وطنوں کی توجہ قطعاً اس جانب نہیں ہوتی۔‘‘

نئے آنے والے مہاجرین جرمن لیبر مارکیٹ کے لیے کارآمد ہیں؟

شہر بون میں آباد ایک اور معروف پاکستانی نژاد جرمن شہری توقیر احمد اعلیٰ تعیلم کے لیے جرمنی آنے کے بعد بزنس کے شعبے سے منسلک رہے اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی خو د کو مختلف سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔

ان کہنا ہے کہ وہ 1990 ء سے جرمن شہریت لینے کے بعد سے جرمنی کے تمام الیکشنز میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے آئے ہیں۔ جرمنی میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم دلچسپی کی وجوہات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے توقیر احمد نے کہا،''ووٹ کاسٹ نہ کرنا ایک جرم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جمہوریت کا فروغ نہیں چاہتے۔ جمہوریت کا پروسس قیمتی ہوتا ہے۔

ووٹ نہ ڈال کر دراصل آپ انہیں کامیاب ہونے کا موقع فراہم کر رہے ہوتے ہیں جنہیں آپ پسند نہیں کرتے۔ میں ہمیشہ انتہاپسندی کے خلاف احتجاج کا حصہ بنتا رہا ہوں۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی کے خلاف کولون میں ہونے والے مظاہرے میں شامل ہوا۔ بون میں بھی مظاہروں میں شرکت کی۔‘‘

برانڈنبرگ انتخابات: حکمران جماعت کی اے ایف ڈی پر معمولی برتری

توقیر احمد کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم جرمنی جیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ہمیں اظہار خیال میں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی۔

‘‘ اس سوال کے جواب میں کہ انہوں نے گہری سیاسی دلچسپی کے باوجود ایکٹیو سیاست میں حصہ کیوں نہیں لیا؟ ان کا کہنا تھا،'' کیونکہ میں اپنی فیملی کی پہلی نسل سے ہوں جسے جرمنی آکر روٹی روزی کمانے کی فکر تھی جس کا اللہ نے بہت اچھی طرح موقع فراہم کر دیا۔ افسوس یہ کہ میرے تین میں سے کسی ایک بچے نے بھی ایکٹیو سیاست میں آنے کی کوشش ہی نہیں کی۔

‘‘

جرمن انتخابات 2025کے تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ آخر جرمنی میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کے باوجود پاکستانی نژاد نوجوان سیاست میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس بارے میں برلن میں متعدد دہائیوں سے آباد ایک اور پاکستانی ادبی اور کاروباری شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،'' جرمنی میں آباد زیادہ تر پاکستانی باشندوں نے اب تک جرمن معاشرے اور اقدار کو ذہنی طور پر قبول نہیں کیا۔

اکثر پاکستانیوں کی نظروں میں جرمنی کی اکثریتی آبادی کافر ہے۔ اس سوچ اور رویے کا رد عمل یہ ہے کہ جرمن باشندے پاکستانیوں کو اپنے معاشرے کا حصہ سمجھنے اور قبول کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔‘‘

جرمنی میں آباد پاکستانی اور اپنی ثقافت کی تلاش

ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہی اور انہوں نے تارکین وطن پاکستانیوں کی کئی نسلوں کی سرگرمیوں کا قریب سے جائزہ لیا ہے۔

پاکستانیوں کے سیاسی رویے کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''یہاں رہنے والے پاکستانی اپنا تشخص تلاش کرتے ہیں جو انہیں صرف پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی ہی سے ملتا ہے اور وہ اپنی تمام سیاسی توانائیاں پاکستان میں نمائندہ جماعتوں کے ارکان یا عہدے داران کی حیثیت سے صرف کرتے ہیں۔‘‘

جرمن دارالحکومت برلن ہی کی ایک اور معروف سماجی شخصیت، ایک کامیاب بزنس مین اور پانچ اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کے والد ہیں۔

ان کے بچے پیدائشی جرمن ہیں اور اب ان کی تیسری نسل جرمنی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ منظور اعوان 2019 ء سے پاکستان پیپلز پارٹی برلن کے صدر بھی ہیں۔

منظور اعوان نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،'' جرمن سیاسی نظام کا حصہ بننے کے لیے آپ کا جرمن شہری ہونا لازمی ہے۔ یہاں کی شہریت حاصل کرنا بہت پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے لمبا وقت درکار ہوتا ہے۔

جرمن زبان پر عبور ہونا بھی لازمی ہے۔‘‘ تاہم منظور اعوان کے مطابق نئی نسل کے لیے یہ تمام عوامل مشکل نہیں ہیں۔

جرمنی غیر ملکی ہنرمند کارکنوں کے لیے پرکشش کیوں نہیں رہا؟

پاکستانیوں کے مجموعی سیاسی رویے کے بارے میں منظور اعوان نے کہا،''پاکستان میں سیاسی عمل کا تسلسل جاری نہیں ہے اور ووٹ کی اہمیت کا احساس بھی باشندوں میں کم ہی ہے۔

اس رویے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو سیاست میں شامل کرنے کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے جو ہماری ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام حکومت کو تقویت ملے۔ میڈیا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘

1980ء سے جرمنی میں آباد منظور اعوان نے سن 2000 میں جرمن شہریت حاصل کی اور تب سے وہ اور انکی فیملی کے تمام اہل ووٹرز جرمنی کے الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مستقبل میں جرمنی میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے اچھے مواقع موجود ہیں۔ لیکن تارکین وطن پاکستانیوں کو سماجی اور سیاسی شعبوں میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستانی تارکین وطن پاکستانی نژاد منظور اعوان سیاست میں سماجی اور کرتے ہیں ہیں اور اور اب ہے اور کے بعد رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جرمنی کے بنڈس بینک کہلانے والے وفاقی مالیاتی ادارے کے صدر یوآخم ناگل نے خبردار کیا ہے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کو اسی سال ممکنہ طور پر ایک اور کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یوآخم ناگل نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ وہ تجارتی جنگ بھی ہو گی، جو حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ نے بیرون ملک سے امریکہ میں تجارتی درآمدات پر اچانک بہت زیادہنئے محصولات عائد کرنے کے اپنے اعلان کے ساتھ شروع کی تھی۔

جرمنی میں کساد بازاری خارج از امکان نہیں، ناگل

ڈوئچے بنڈس بینک کے صدر نے واشنگٹن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے موسم بہار کے اجلاسوں میں اپنی شرکت کے موقع پر کہا کہ سست روی کی شکار جرمن معیشت کے لیے اب تک نظر آنے والا مقابلتاﹰ بہتر امکان تو یہ ہے کہ وہ اسی جمود کا شکار رہے، جو تقریباﹰ اب بھی ہے۔

(جاری ہے)

جرمنی کو 2040ء تک سالانہ قریب تین لاکھ غیر ملکی کارکن درکار

بنڈس بینک کے سربراہ کے مطابق دوسری صورت میں خدشہ یہ ہے کہ جرمن معیشت رواں سال کے دوران ایک بار پھر کساد بازاری کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔

یوآخم ناگل کے الفاظ میں، ''میں اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دے سکتا کہ جرمنی میں 2025ء میں ہلکی سے کساد بازاری بھی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔

اس لیے کہ بے یقینی کا دور ابھی ختم نہیں ہوا۔‘‘ اقتصادی شرح نمو سے متعلق جرمن حکومتی پیش گوئی

واشنگٹن میں جرمنی کے بنڈس بینک کے صدر کے اس موقف سے محض چند گھنٹے قبل جمعرات 24 اپریل ہی کے روز برلن حکومت نے بھی ایک اعلان کیا تھا، جو ملکی معیشت کے لیے خوش کن نہیں تھا۔

اس اعلان میں جرمنی کی وفاقی حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ سال رواں کے دوران ملکی معیشت میں شرح نمو اب تک کے اندازوں سے بھی کم رہے گی اور اسی لیے اب یہ متوقع شرح کم کر کے صفر فیصد کر دی گئی ہے۔

قبل ازیں اس سال کے آغاز پر برلن حکومت نے جنوری میں کہا تھا کہ اس سال ملکی اقتصادی ترقی کی شرح 0.3 فیصد رہے گی۔

جرمنی پر ایک اور کساد بازاری کی لٹکتی ہوئی تلوار، رپورٹ

آئندہ جرمن چانسلر فریڈرش میرس کی قیادت میں نئی ملکی حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل، اب تک برسراقتدار چانسلر اولاف شولس کی کابینہ میں اقتصادی امور کے وزیر روبرٹ ہابیک نے کہا، ''اس سال جرمن معیشت میں ترقی کی شرح صفر فیصد رہے گی اور معیشت جمود کا شکار ہو جائے گی۔‘‘

ہابیک نے بھی اس منفی پیش رفت کی وجہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ غیر معمولی تجارتی محصولات اور ان کی وجہ سے شروع ہو جانے والی بے یقینی اور تجارتی جنگ بتائیں۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک
  • پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
  • کرکٹ میں بھی سیاست، پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کو کیا پیغام دیا؟
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ تارکینِ وطن کے حق میں بول پڑے
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • 67 ہزار پاکستانی حج سے کیوں محروم رہیں گے؟ وجہ سامنے آگئی
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • گوادر، متعدد لیویز اہلکاروں کا پولیس میں شمولیت سے انکار، ڈی سی نے وارننگ دیدی