اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔ 9 مئی کے ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سویلینز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا‘ سویلینز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے بھی خلاف ہے‘بین الاقوامی تقاضا ہے کہ ٹرائل کھلی عدالت میں، آزادانہ اور شفاف ہونا چاہیے، بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہییں، دنیا بھر کے ملٹری ٹربیونلز کے فیصلوں کیخلاف اپیلیں عدالتوں میں جاتی ہیں، یورپی عدالت کے فیصلے نے کئی ممالک کو کورٹ مارشل کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا۔ سلمان راجا نے کہا کہ یوکے میں ایک فیڈلی نامی فوجی کا کورٹ مارشل ہوا، یورپین کورٹ آف ہیومن رائٹس نے اس کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیدیا تھا، فیڈلی ذہنی تناؤ کا شکار تھا، اس نے فائرنگ کی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فیڈلی کی فائرنگ سے بھی ایک ٹی وی ٹوٹ گیا تھا، 9 مئی واقعات میں بھی ایک ٹی وی توڑا گیا۔سلمان راجا نے کہا کہ جس نے 9مئی واقعات میں ٹی وی توڑا میں اس سے میری اس سے ، ملاقات ہوئی، وہ بیچارہ شرم سے ڈوبا ہوا تھا، ٹی وی توڑنے والا بیچارہ چار جماعتیں پاس بے روزگار تھا، ہمارے معاشرے نے ایسے لوگوں کو کیا دیا۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ انفرادی باتیں نہ کریں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سلمان راجا سے استفسارکیا آپ نے فیڈلی سے ملاقات بھی کی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نہیں سلمان راجا نے پاکستانی فیڈلی سے ملاقات کی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے کہا میرا موکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا تھا، 9 مئی والے دن وہ کرکٹ کھیلنے تو نہیں گیا تھا ناں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جس قانون کے تحت کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا وہ قانون کیا ہمارے سامنے ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ میں وہ قانون ریکارڈ پر لے آؤں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منیب اختر نے تو اکثریتی فیصلے میں فوجی عدالتوں کو متوازی عدالتی نظام تصور کیا ہے، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے آئین کی یہ تشریح تاریخ کو دیکھتے ہوئے کی، جسٹس منیب اختر نے لکھا کہ فوجی عدالتوں کی ایک تاریخ ہے، تاریخ کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرنے کے نتائج انتہائی خوفناک ہونگے، یہ آئین کو پڑھنے کا انتہائی خطرناک طریقہ ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی اصولوں ریمارکس دیے کہ کا کورٹ مارشل نے کہا کہ

پڑھیں:

ایران کا این پی ٹی سے علیحدگی پر غور: مغرب نے الزام تراشی بند نہ کی تو سخت فیصلہ ہوگا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران:ایران نے اقوامِ متحدہ میں اپنے مستقل مندوب کے توسط سے مغربی طاقتوں کو سخت تنبیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے بے بنیاد الزامات اور پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں بند نہ کی گئیں تو وہ “معاہدہ برائے ایٹمی عدم پھیلاؤ” (NPT) سے دستبردار ہو جائے گا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائے گئے خط میں ایران کے مستقل مندوب سعید ایراوانی نے الزام عائد کیا ہے کہ مغربی ممالک ایران کے خلاف منفی مہم چلا رہے ہیں اور پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو بین الاقوامی قوانین اور ایران کے قانونی حقوق کے خلاف ہے۔

سعیدایراوانی نے کہا کہ ایران معاہدے کے آرٹیکل 10 کے تحت این پی ٹی سے علیحدگی کا عمل شروع کر سکتا ہے جو رکن ممالک کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر انہیں یہ محسوس ہو کہ معاہدہ ان کے قومی مفاد کے خلاف جا رہا ہے تو وہ اس سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں بشرطیکہ تین ماہ قبل نوٹس دے دیا جائے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مغربی ممالک کا یہی رویہ جاری رہا تو ایران اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے، ایران اپنی ایٹمی پالیسیوں سے متعلق کسی بھی غیر منصفانہ یا سیاسی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کی مبینہ فضائی کارروائیوں کے بعد خطے میں کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا ہے، ان حملوں کے بعد ایران کی درخواست پر عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کا ہنگامی اجلاس پیر کے روز طلب کر لیا گیا ہے، جس میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے، سکیورٹی خدشات اور معاہدہ این پی ٹی سے متعلق امور زیرِ بحث آئیں گے۔

این پی ٹی کیا ہے؟

“این پی ٹی” یعنی Treaty on the Non-Proliferation of Nuclear Weapons (NPT) ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس پر 1968 میں دستخط کیے گئے تھے اور 1970 میں نافذ ہوا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا، جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینا اور جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک این پی ٹی کے رکن ہیں، سوائے چند ممالک جیسے بھارت، پاکستان، اسرائیل، اور شمالی کوریا (جو پہلے رکن تھا مگر بعد میں الگ ہو گیا)۔

ایران کی ممکنہ دستبرداری بین الاقوامی برادری کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ نہ صرف خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے بلکہ ایٹمی تحفظ سے متعلق عالمی نظام کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کے ایران پر بڑھتے ہوئے حملے ہر ایک کے لئے خطرہ ہیں،فرمانروااردن
  • فیض حمید کا کورٹ مارشل بھی ہوگا اور عمر قید بھی ہوگی، سینیٹر فیصل واوڈا
  • 39 اراکین کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا مسترد
  •   مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس: کیا تیسرے فریق کو ریلیف دیا جا سکتا ہے؟ سپریم کورٹ میں آئینی بحث جاری
  • ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس: سپریم کورٹ کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی سننے کا فیصلہ
  • ججز ٹرانسفر میں صدر کا اختیار اپنی جگہ لیکن درمیان میں پورا پراسس ہے، جج سپریم کورٹ
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛  سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • مخصوص نشستوں کا معاملہ‘ نظرثانی درخواستوں کی سماعت آج ہوگی
  • ایران کا این پی ٹی سے علیحدگی پر غور: مغرب نے الزام تراشی بند نہ کی تو سخت فیصلہ ہوگا