چیمپئنز کا چیمپئن کا کون؟ معرکہ آرائی آج شروع
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
کراچی:
شائقین کا انتظار ختم ہونے کی گھڑی آ گئی،کھلاڑیوں نے آستینیں چڑھا لیں،طبل جنگ بج گیا،کون کس پر بھاری ہوگا؟ سب نے بہترین تیاری کر لی، چیمپئنز کا چیمپئن کون بنے گا؟ معرکہ آرائی بدھ کو شروع ہوگی،چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں پاکستان کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہوگا، گذشتہ دونوں باہمی میچز میں فتح کی بدولت مہمان ٹیم کے حوصلے بلند ہیں، البتہ میزبان سائیڈ نے بھی بڑے میچ میں شکستوں کا حساب چکتا کرنے کا ارادہ کر لیا، بیٹنگ میں بابر اعظم اور فخرزمان امیدوں کے محور ہوں گے،کپتان محمد رضوان اور سلمان علی آغا سے بھی عمدہ کھیل کی توقع ہے، بولرز کو رنز کے سیلاب کو روکنا ہوگا، شاہین آفریدی کا ساتھ دینے کیلیے حارث رؤف بھی فٹ ہو چکے، البتہ میدان میں اتارنے کا فیصلہ میچ سے قبل ہوگا، نسیم شاہ اور ابرار بھی کچھ کردکھانے کیلیے بے چین ہیں، دوسری جانب کیوی ٹیم کو کین ولیمسن سمیت کئی میچ ونرز کا ساتھ حاصل ہے، نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی پچ بیٹنگ کیلیے سازگار رہے گی۔
تفصیلات کے مطابق انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئیں، پاکستان 29 سال بعد آئی سی سی ایونٹ کی میزبان کیلیے مکمل تیار ہے،اپ گریڈیشن کے بعد تینوں اہم اسٹیڈیمز کی حالت بدل چکی، اب فیلڈ میں بہترین کھیل سے گرین شرٹس کو نہ صرف چیمپئنز ٹرافی کے اعزاز کا دفاع کرنا ہے بلکہ ہوم شائقین کی توقعات کو بھی پورا کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی 2017،جب پاکستان نے دنیا کو حیران کر دیا
پاکستان ٹیم کی دیار غیر میں ون ڈے میچز میں کارکردگی شانداررہی، البتہ ہوم گراؤنڈ پر ٹرائنگولر سیریز میں کھلاڑیوں نے مایوس کیا،جنوبی افریقہ کیخلاف رضوان اور سلمان کی عمدہ بیٹنگ نے ریکارڈ ہدف تک دلائی، البتہ کیویز سے فائنل سمیت دونوں میچز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹیم کا اوپننگ پیئر سیٹ نہیں ہو سکا، فخرزمان کے ساتھ بابر اعظم کو اننگز کا آغاز کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن وہ 3 میچز میں محض 62 رنز ہی بنا سکے،کپتان محمد رضوان کا کہنا ہے کہ بابر ہی چیمپئنز ٹرافی میں اوپننگ کریں گے، فخر کی مجموعی پرفارمنس بہتر ہے، وہ اور بابر عمدہ شراکت سے ٹیم کو بڑا اسکور بنانے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں، کامران غلام کو پہلے میچ میں فلاپ ثابت ہونے پر باہر کر کے سعود شکیل کو کھلایا گیا لیکن وہ دونوں میچز میں ناکام رہے۔
مزید پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی، کئی ستارے نظروں سے اوجھل رہیں گے
طیب طاہر کی کارکردگی اوسط درجے کی ہے، کپتان محمد رضوان اور سلمان علی آغا ٹیم کو مشکلات سے باہر نکالتے ہیں، اب بھی دونوں سے عمدہ کھیل کی توقع ہو گی، آل راؤنڈرز کے نام پر منتخب ہونے والے فہیم اشرف اور خوشدل شاہ دونوں شعبوں میں ٹیم کی کمزور کڑی ثابت ہوئے ہیں۔
ٹرائنگولر سیریز میں پاکستانی بولرز کی کارکردگی مایوس کن رہی،اختتامی اوورز میں شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کی بولنگ پر بھی حریف بیٹرز نے دل کھول کر رنز بنائے، انھیں اب بہتر پرفارم کرنے کا چیلنج درپیش ہوگا، واحد اسپیشلسٹ اسپنر ابرار احمد اتنے کارآمد ثابت نہیں ہوئے، پارٹ ٹائم سلو بولرز بھی محض خانہ پری کر رہے ہیں،فتح کیلیے ٹیم کو بطور بولنگ یونٹ بھی بہترین پرفارم کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں: بابر اعظم کا چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے اہم بیان
دوسری جانب نیوزی لینڈ کی ٹیم کا حالیہ فتوحات کی وجہ سے اعتماد بلند ہے،سینئر بیٹر کین ولیمسن سے میچ وننگ کارکردگی کی توقعات وابستہ ہیں،پہلے میچ میں کیچ تھامتے ہوئے زخمی ہونے والے راچن رویندرا فٹ ہو چکے۔
انھوں نے گذشتہ روز ساتھیوں کے ہمراہ بھرپور پریکٹس کی،ان کی جگہ 2 میچز کھیلنے والے ڈیون کونووے بھی97 اور48 رنز کی اننگز کھیل کر صلاحیتوں کالوہا منوا چکے، ٹیم کے پاس بہترین ہارڈ ہٹرز اور اسپنرز بھی موجود ہیں۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی پچ بیٹنگ کیلیے سازگار ہے،گذشتہ روز دونوں ٹیموں نے الگ اوقات میں پریکٹس کی،میچ کیلیے شائقین میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے، کئی روز قبل ہی تمام ٹکٹس فروخت ہو چکے، آج اسٹیڈیم میں ہاؤس فل کی توقع ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیمپئنز ٹرافی میچز میں میچ میں ٹیم کو
پڑھیں:
بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
کراچی:’’یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘ جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم منیجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔
تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کے لیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کو جانے کا کہہ دیا، انہیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا، بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو انہیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا، اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بیحد منفی رہا، بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے، اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی۔
نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا، پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔
پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہوگی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے، شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے، پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا۔
البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟ کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جا رہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا، ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی۔
جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں، جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے، ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرنا ہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔
اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں، البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے، ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟ ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟۔
آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے، پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا، فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل رائونڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا۔
صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا، بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آئوٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے، یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہوگیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔