اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 فروری 2025ء) سوڈان میں جاری تباہ کن خانہ جنگی نے ملک کو غذائی قلت، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور شدید عدم تحفظ کی صورت میں کثیرالجہتی انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

اب اس لڑائی کو تیسرا سال شروع ہونے والا ہے اور اس موقع پر اقوام متحدہ نے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے 4.

2 ارب ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔

امدادی اداروں نے ملک کے موجودہ حالات کو اس وقت دنیا میں سب سے بڑا اور تباہ کن بحران قرار دیا ہے جسے سمجھنے کے لیے درج ذیل حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔1۔ خرطوم کی لڑائی اور امن عمل کا خاتمہ

2022 کے آخر تک امید تھی کہ اقوام متحدہ کی معاونت سے سوڈان میں شروع ہونے والا امن عمل ایک سویلین حکومت کے اختتام پر منتج ہو گا۔

(جاری ہے)

اس وقت ملک میں فوجی بغاوت کے ذریعے عمر البشیر کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جمہوری حکمرانی کا مطالبہ کرنے والے شہریوں پر سختیاں ڈھائی جا رہی تھیں۔

سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے وولکر پرتھیز نے دسمبر 2022 میں کہا تھا کہ سیاسی فریقین کے مابین معاہدے کے ذریعے ملک کو جمہوری راہ پر گامزن کیا جانا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ طویل عرصہ تک حکمران رہنے والے عمر البشیر کی حکومت ختم کرنے والی سوڈان کی مسلح افواج (آر ایس ایف) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کا خوش اسلوبی سے انضمام نہ ہوا تو ملک کو شدید عدم استحکام کا سامنا ہو سکتا ہے۔

2023 کے اوائل میں دونوں عسکری دھڑوں کے مابین تناؤ اور کشیدگی جھڑپوں میں تبدیل ہو گئی۔ 15 اپریل کو 'آر ایس ایف' نے دارالحکومت خرطوم پر حملہ کر دیا جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ ان حالات میں اقوام متحدہ نے خرطوم سے اپنے دفاتر خالی کر کے بحیرہ احمر کی بندرگاہ پورٹ سوڈان میں منتقل کر دیے۔

گزشتہ جمعے کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا تھا کہ سوڈان میں جاری مسلح تنازع کے اثرات ہمسایہ ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔

ادارے نے ملک میں جاری لڑائی کی مذمت کی ہے اور سوڈان کے لیے سیکرٹری جنرل کے ذاتی نمائندے رمتان لامامرا افریقن یونین جیسی علاقائی تنظیموں کی مدد سے قیام امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ © WFP/Eulalia Berlanga 2۔

تین کروڑ لوگوں کو امداد کی ضرورت

خانہ جنگی سوڈان کے شہریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس وقت تقریباً تین کروڑ 4 لاکھ لوگوں کو غذائی، طبی اور دیگر امداد کی ضرورت ہے۔ لڑائی کے نتیجے میں ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، خوراک، ایندھن اور بنیادی ضرورت کی اشیا کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت سے گھرانے ان چیزوں تک رسائی سے محروم ہو گئے ہیں۔

شدید بھوک بھی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو شدید درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ شمالی ڈارفر اور مشرقی نوبا میں پانچ مقامات پر قحط پھیلنے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ رواں سال مئی تک مزید پانچ علاقوں میں یہ صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

سوڈان میں اقوام متحدہ کی امدادی رابطہ کار اینکویتا سالامی نے کہا ہے کہ ریاست جنوبی کردفان کے بعض حصوں میں بھی غذائی عدم تحفظ کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں جہاں بہت سے خاندانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے اور غذائی کمی کے نتیجے میں جنم لینے والے جسمانی عوارض میں مبتلا ہونے والے لوگوں اور بالخصوص بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

تحفظ کے فقدان کی وجہ سے امدادی کوششیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں انسانی امداد کی رسائی میں رکاوٹیں حائل ہیں اور امدادی کارکنوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔

خطروں کے باوجود اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت دار بدحال لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) روزانہ لاکھوں لوگوں کو خوراک مہیا کر کے ان کی زندگی کو تحفظ دے رہے ہیں۔

'ایف اے او' نے نئی فصلوں کی کاشت کے موسم میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاشتکار گھرانوں کو بیج مہیا کیے ہیں۔ 2024 میں تقریباً ایک کروڑ 56 لاکھ لوگوں نے اقوام متحدہ سے کم از کم ایک طرح کی مدد حاصل کی تھی۔

گزشتہ دو سال میں ملک کا طبی نظام انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ طبی مراکز پر حملوں کے باعث عملے کی بڑی تعداد نقل مکانی کر گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اب بھی ملک میں موجود ہیں اور لوگوں کو ہیضے اور ملیریا جیسی بیماریوں سے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

3۔ سوئٹزرلینڈ کی آبادی کے برابر لوگ بے گھر

عدم تحفظ کے باعث سوڈان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اندرون و بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

تقریباً 90 لاکھ سوڈانی اپنے ملک میں بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ 30 لاکھ نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی مجموعی تعداد سوئزرلینڈ کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

محاذ جنگ میں آنے والے تبدیلیوں کے باعث نقل مکانی بھی تواتر سے جاری ہے جس کی وجہ سے ضرورت مند لوگوں تک مدد پہنچانا مشکل عمل بن گیا ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے سوڈان کی صورتحال کو دنیا میں نقل مکانی کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا بحران قرار دیا ہے۔

اندرون و بیرون ملک بے گھر ہونے والے ان لوگوں کو خوراک، قدرتی وسائل اور بنیادی خدمات تک محدود رسائی حاصل ہے۔ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ہیضہ اور ملیریا جیسے وبائیں بھی پھیل رہی ہیں۔

سوڈان کے ہمسایہ ممالک کو بھی کئی طرح کے معاشی مسائل اور سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے اور ان میں بعض کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں پناہ گزینوں کی آمد سے خدمات پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) اور 'یو این ایچ سی آر' جب اور جہاں ممکن ہو لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے اور ان کی بنیادی ضروریات کو باوقار طور سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔4۔ خواتین اور لڑکیوں کے لیے بڑھتے خطرات

سوڈان میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد 18,800 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں مہینے کے آغاز پر صرف ایک ہی ہفتے میں کم از کم 275 لوگوں کی ہلاکت ہوئی جو کہ اس سے گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں تین گنا بڑی تعداد ہے۔

شہری توپخانے کی گولہ باری، فضائی حملوں اور ڈرون طیاروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ریاست جنوبی کردفان اور نیل ازرق میں حالات کہیں زیادہ خراب ہیں۔ مسلح گروہوں کی جانب سے عام لوگوں کے علاوہ امدادی کارکنوں کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بہت سے کارکنوں کو 'آر ایس ایف' کا ساتھ دینے کے الزام میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حقائق کی جانچ کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک مشن نے دونوں متحارب عسکری دھڑوں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی تفصیلات جمع کی ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے کہا ہے۔

سوڈان میں امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے نائب سربراہ ایڈمور ٹونڈلانا نے یو این نیوز کو بتایا کہ سوڈان کے بحران میں خواتین اور لڑکیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جنہیں جنسی زیادہ، جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کا سامنا ہے۔

گزشتہ دنوں جنوبی کردفان میں ہلاک کیے گئے 79 افراد میں بڑی تعداد خواتین اور لڑکیوں کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ نوعمر لڑکوں کے لیے خطرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ محاذ جنگ والے علاقوں میں باآسانی سفر نہیں کر سکتے۔ ان پر جاسوسی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد کو مسلح گروہوں کے لیے بھرتی اور مخالفین کی جاسوسی پر مجبور کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

5۔ اربوں ڈالر کے امدادی وسائل کی ضرورت

امدادی وسائل کی قلت کے باعث اقوام متحدہ کی سوڈان کے لوگوں کو مدد پہنچانے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ 'یو این ایچ سی آر' اور شراکت دار اب تک جتنی مدد مہیا کر سکے ہیں وہ ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث غذائی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے جس سے غذائی عدم تحفظ بڑھ گیا ہے۔

'اوچا' اور 'یو این ایچ سی آر' کل سوڈان کے لیے مالی وسائل کی اپیل کریں گے۔ اندازے کے مطابق ملک کے لیے 4.2 ڈالر کے وسائل درکار ہیں جبکہ ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین سوڈانی لوگوں کے لیے 1.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

ایڈمور ٹونڈلانا کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ رقم بہت بڑی معلوم ہوتی ہے لیکن سوڈان میں جتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بحران کا سامنا ہے انہیں دیکھتے ہوئے یہ وسائل بمشکل کافی ہوں گے۔ دو کروڑ 10 لاکھ لوگ مدد کے منتظر ہیں اور اس طرح سال بھر ہر فرد پر 200 ڈالر خرچ ہو گے۔ اگر روزانہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اس سے ہر ضرورت مند کو نصف ڈالر مالیت کی مدد ملے گی۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یو این ایچ سی آر اقوام متحدہ کے ہمسایہ ممالک کا سامنا ہے کر رہے ہیں آر ایس ایف بڑی تعداد نقل مکانی سوڈان میں وسائل کی لوگوں کو سوڈان کے کی ضرورت ہیں اور کے باعث ملک میں بہت سے ہے اور کے لیے نے ملک

پڑھیں:

غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس

9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔

ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔

آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا  آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔

اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے وفد کی ملاقات، پاکستان کے زرعی و لائیوسٹاک شعبے میں جاری اشتراک عمل کا جائزہ لیا گیا
  • غزہ میں شدید غذائی بحران: بچے بھوک سے مرنے لگے، لوگ چلتی پھرتی لاشیں بن گئے
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • احتساب کے بغیر مختلف ممالک کے علاقوں پر قبضے جاری ہیں، انسانی بحران ہر گزرتے لمحے بڑھ رہا ہے :اسحاق ڈار
  • غزہ: سنگین غذائی قلت کے بعد برستے بارود نے ماحولیاتی بحران پیدا کردیا، مٹی اور پانی زہریلے ہوگئے
  • شام: فرقہ وارانہ تشدد کا شکار سویدا میں انسانی امداد کی آمد
  • اسحاق ڈار نے بھی غزہ میں خوراک کی قلت دور کرنے کا مطالبہ کر دیا
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • ’غزہ کی ہولناکیوں‘ کے سائے میں اقوام متحدہ کی امن کی اپیل