اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 فروری 2025ء) سوڈان میں جاری تباہ کن خانہ جنگی نے ملک کو غذائی قلت، بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور شدید عدم تحفظ کی صورت میں کثیرالجہتی انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

اب اس لڑائی کو تیسرا سال شروع ہونے والا ہے اور اس موقع پر اقوام متحدہ نے ملک بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے 4.

2 ارب ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے۔

امدادی اداروں نے ملک کے موجودہ حالات کو اس وقت دنیا میں سب سے بڑا اور تباہ کن بحران قرار دیا ہے جسے سمجھنے کے لیے درج ذیل حقائق سے آگاہی ضروری ہے۔1۔ خرطوم کی لڑائی اور امن عمل کا خاتمہ

2022 کے آخر تک امید تھی کہ اقوام متحدہ کی معاونت سے سوڈان میں شروع ہونے والا امن عمل ایک سویلین حکومت کے اختتام پر منتج ہو گا۔

(جاری ہے)

اس وقت ملک میں فوجی بغاوت کے ذریعے عمر البشیر کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جمہوری حکمرانی کا مطالبہ کرنے والے شہریوں پر سختیاں ڈھائی جا رہی تھیں۔

سوڈان کے لیے اقوام متحدہ کے سابق خصوصی نمائندے وولکر پرتھیز نے دسمبر 2022 میں کہا تھا کہ سیاسی فریقین کے مابین معاہدے کے ذریعے ملک کو جمہوری راہ پر گامزن کیا جانا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ طویل عرصہ تک حکمران رہنے والے عمر البشیر کی حکومت ختم کرنے والی سوڈان کی مسلح افواج (آر ایس ایف) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کا خوش اسلوبی سے انضمام نہ ہوا تو ملک کو شدید عدم استحکام کا سامنا ہو سکتا ہے۔

2023 کے اوائل میں دونوں عسکری دھڑوں کے مابین تناؤ اور کشیدگی جھڑپوں میں تبدیل ہو گئی۔ 15 اپریل کو 'آر ایس ایف' نے دارالحکومت خرطوم پر حملہ کر دیا جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی چھڑ گئی۔ ان حالات میں اقوام متحدہ نے خرطوم سے اپنے دفاتر خالی کر کے بحیرہ احمر کی بندرگاہ پورٹ سوڈان میں منتقل کر دیے۔

گزشتہ جمعے کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا تھا کہ سوڈان میں جاری مسلح تنازع کے اثرات ہمسایہ ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔

ادارے نے ملک میں جاری لڑائی کی مذمت کی ہے اور سوڈان کے لیے سیکرٹری جنرل کے ذاتی نمائندے رمتان لامامرا افریقن یونین جیسی علاقائی تنظیموں کی مدد سے قیام امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ © WFP/Eulalia Berlanga 2۔

تین کروڑ لوگوں کو امداد کی ضرورت

خانہ جنگی سوڈان کے شہریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اس وقت تقریباً تین کروڑ 4 لاکھ لوگوں کو غذائی، طبی اور دیگر امداد کی ضرورت ہے۔ لڑائی کے نتیجے میں ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، خوراک، ایندھن اور بنیادی ضرورت کی اشیا کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت سے گھرانے ان چیزوں تک رسائی سے محروم ہو گئے ہیں۔

شدید بھوک بھی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو شدید درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ شمالی ڈارفر اور مشرقی نوبا میں پانچ مقامات پر قحط پھیلنے کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ رواں سال مئی تک مزید پانچ علاقوں میں یہ صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

سوڈان میں اقوام متحدہ کی امدادی رابطہ کار اینکویتا سالامی نے کہا ہے کہ ریاست جنوبی کردفان کے بعض حصوں میں بھی غذائی عدم تحفظ کے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں جہاں بہت سے خاندانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے اور غذائی کمی کے نتیجے میں جنم لینے والے جسمانی عوارض میں مبتلا ہونے والے لوگوں اور بالخصوص بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

تحفظ کے فقدان کی وجہ سے امدادی کوششیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ بہت سے علاقوں میں انسانی امداد کی رسائی میں رکاوٹیں حائل ہیں اور امدادی کارکنوں کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔

خطروں کے باوجود اقوام متحدہ اور اس کے امدادی شراکت دار بدحال لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) روزانہ لاکھوں لوگوں کو خوراک مہیا کر کے ان کی زندگی کو تحفظ دے رہے ہیں۔

'ایف اے او' نے نئی فصلوں کی کاشت کے موسم میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاشتکار گھرانوں کو بیج مہیا کیے ہیں۔ 2024 میں تقریباً ایک کروڑ 56 لاکھ لوگوں نے اقوام متحدہ سے کم از کم ایک طرح کی مدد حاصل کی تھی۔

گزشتہ دو سال میں ملک کا طبی نظام انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔ طبی مراکز پر حملوں کے باعث عملے کی بڑی تعداد نقل مکانی کر گئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور اقوام متحدہ کا ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اب بھی ملک میں موجود ہیں اور لوگوں کو ہیضے اور ملیریا جیسی بیماریوں سے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

3۔ سوئٹزرلینڈ کی آبادی کے برابر لوگ بے گھر

عدم تحفظ کے باعث سوڈان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اندرون و بیرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

تقریباً 90 لاکھ سوڈانی اپنے ملک میں بے گھر ہو گئے ہیں جبکہ 30 لاکھ نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔ نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی مجموعی تعداد سوئزرلینڈ کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

محاذ جنگ میں آنے والے تبدیلیوں کے باعث نقل مکانی بھی تواتر سے جاری ہے جس کی وجہ سے ضرورت مند لوگوں تک مدد پہنچانا مشکل عمل بن گیا ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے سوڈان کی صورتحال کو دنیا میں نقل مکانی کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا بحران قرار دیا ہے۔

اندرون و بیرون ملک بے گھر ہونے والے ان لوگوں کو خوراک، قدرتی وسائل اور بنیادی خدمات تک محدود رسائی حاصل ہے۔ پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ہیضہ اور ملیریا جیسے وبائیں بھی پھیل رہی ہیں۔

سوڈان کے ہمسایہ ممالک کو بھی کئی طرح کے معاشی مسائل اور سلامتی کے خطرات کا سامنا ہے اور ان میں بعض کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں پناہ گزینوں کی آمد سے خدمات پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) اور 'یو این ایچ سی آر' جب اور جہاں ممکن ہو لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے اور ان کی بنیادی ضروریات کو باوقار طور سے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔4۔ خواتین اور لڑکیوں کے لیے بڑھتے خطرات

سوڈان میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد 18,800 سے زیادہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں مہینے کے آغاز پر صرف ایک ہی ہفتے میں کم از کم 275 لوگوں کی ہلاکت ہوئی جو کہ اس سے گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں تین گنا بڑی تعداد ہے۔

شہری توپخانے کی گولہ باری، فضائی حملوں اور ڈرون طیاروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ریاست جنوبی کردفان اور نیل ازرق میں حالات کہیں زیادہ خراب ہیں۔ مسلح گروہوں کی جانب سے عام لوگوں کے علاوہ امدادی کارکنوں کو بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بہت سے کارکنوں کو 'آر ایس ایف' کا ساتھ دینے کے الزام میں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حقائق کی جانچ کرنے والے اقوام متحدہ کے ایک مشن نے دونوں متحارب عسکری دھڑوں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی تفصیلات جمع کی ہیں اور ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے کہا ہے۔

سوڈان میں امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے نائب سربراہ ایڈمور ٹونڈلانا نے یو این نیوز کو بتایا کہ سوڈان کے بحران میں خواتین اور لڑکیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جنہیں جنسی زیادہ، جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کا سامنا ہے۔

گزشتہ دنوں جنوبی کردفان میں ہلاک کیے گئے 79 افراد میں بڑی تعداد خواتین اور لڑکیوں کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ نوعمر لڑکوں کے لیے خطرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ محاذ جنگ والے علاقوں میں باآسانی سفر نہیں کر سکتے۔ ان پر جاسوسی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ بچوں کی بڑی تعداد کو مسلح گروہوں کے لیے بھرتی اور مخالفین کی جاسوسی پر مجبور کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

5۔ اربوں ڈالر کے امدادی وسائل کی ضرورت

امدادی وسائل کی قلت کے باعث اقوام متحدہ کی سوڈان کے لوگوں کو مدد پہنچانے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ 'یو این ایچ سی آر' اور شراکت دار اب تک جتنی مدد مہیا کر سکے ہیں وہ ضروریات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث غذائی امداد میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے جس سے غذائی عدم تحفظ بڑھ گیا ہے۔

'اوچا' اور 'یو این ایچ سی آر' کل سوڈان کے لیے مالی وسائل کی اپیل کریں گے۔ اندازے کے مطابق ملک کے لیے 4.2 ڈالر کے وسائل درکار ہیں جبکہ ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین سوڈانی لوگوں کے لیے 1.8 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

ایڈمور ٹونڈلانا کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ رقم بہت بڑی معلوم ہوتی ہے لیکن سوڈان میں جتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بحران کا سامنا ہے انہیں دیکھتے ہوئے یہ وسائل بمشکل کافی ہوں گے۔ دو کروڑ 10 لاکھ لوگ مدد کے منتظر ہیں اور اس طرح سال بھر ہر فرد پر 200 ڈالر خرچ ہو گے۔ اگر روزانہ کی بنیاد پر دیکھا جائے تو اس سے ہر ضرورت مند کو نصف ڈالر مالیت کی مدد ملے گی۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یو این ایچ سی آر اقوام متحدہ کے ہمسایہ ممالک کا سامنا ہے کر رہے ہیں آر ایس ایف بڑی تعداد نقل مکانی سوڈان میں وسائل کی لوگوں کو سوڈان کے کی ضرورت ہیں اور کے باعث ملک میں بہت سے ہے اور کے لیے نے ملک

پڑھیں:

اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ

کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا کہ ان رہنمائوں کا واحد جرم اپنے لوگوں کے ناقابل تنسیخ اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مطالبہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ نے کئی دہائیوں سے بھارتی جیلوں میں کشمیری حریت رہنمائوں اور کارکنوں کی طویل اور غیر انسانی نظربندی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی نے اسلام آباد سے جاری ایک بیان میں کہا کہ ان رہنمائوں کا واحد جرم اپنے لوگوں کے ناقابل تنسیخ اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق خودارادیت کا مطالبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت 77 سال قبل خود تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا تھا اور عالمی برادری کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے سرینگر میں اعلان کیا تھا کہ علاقے میں بھارت کی فوجی موجودگی عارضی ہے اور امن بحال ہونے کے بعد یہ ختم ہو جائے گی جس کے بعد کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے اپنی تقدیر کا تعین کرنے کی اجازت ہو گی۔

غلام محمد صفی نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت نہ صرف اپنے بین الاقوامی وعدوں سے منحرف ہو گیا بلکہ ان وعدوں کو یاد دلانے والے کشمیری رہنمائوں کو بھی من گھڑت الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر نظربند رہنما سنگین بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں طبی علاج سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے، یہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر اور نیلسن منڈیلا رولز کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ، یورپی یونین، اسلامی تعاون تنظیم اور انسانی حقوق کی تمام بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا کہ وہ تمام نظربند حریت رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی جبر اور استحصال کے خاتمے کے لیے بھارت پر دبائو ڈالیں اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔

غلام محمد صفی نے کہا کہ اپنے حق کا مطالبہ کرنا کوئی جرم نہیں ہے، یہ ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی کنونشنز میں دی گئی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کی مسلسل خاموشی سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و جبر کو تیز کرنے کے لئے بھارت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جس سے جنوبی ایشیاء سمیت دنیا کے امن و استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر محض علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ یہ حق خودارادیت، انصاف، انسانی وقار اور عالمی امن کا سوال ہے، دنیا کب تک خاموش تماشائی بنے گی؟ حریت رہنما نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ نظربند کشمیری رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کرے اور تنازعہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

متعلقہ مضامین

  • سوڈان میں انسانی بحران، الفاشر سے 62 ہزار سے زائد بے گھر افراد کی ہجرت
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل،ہزاروں افراد محصور
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان