بنگلا دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ایک ویڈیو کال کے ذریعے اپنے ملک واپس آنے اور مارے گئے پولیس اہلکاروں کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کو ’’مافیا سرغنہ‘‘قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ موجودہ حکومت دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دے رہی ہے۔

شیخ حسینہ نے ان پولیس افسران کی بیواؤں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد بنگلا دیش واپس آ کر انصاف دلائیں گی۔ ان پولیس اہلکاروں کی ہلاکت 2024 میں طلبہ مظاہروں کے دوران ہوئی تھی۔ یہ احتجاج ابتدا میں متنازع کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوا تھا، لیکن بعد میں یہ شیخ حسینہ کی برطرفی کے مطالبے پر منتج ہوا۔ اس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کو 5 اگست 2024 کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

شیخ حسینہ نے عبوری حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے ایک سازش کی گئی تھی۔ انہوں نے کہایہ سب کچھ مجھے اقتدار سے ہٹانے کی سازش کے تحت کیا گیا۔ مگر میں زندہ بچ گئی اور خدا نے مجھے موقع دیا کہ میں انصاف دلا سکوں۔ میں ضرور واپس آؤں گی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچاؤں گی۔

بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے شیخ حسینہ کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی ان کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے شیخ حسینہ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ شیخ حسینہ کے بیانات نے بنگلا دیش کی سیاسی صورتحال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں غیر منصفانہ طریقے سے اقتدار سے ہٹایا گیا ہے جبکہ عبوری حکومت کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے دوران کرپشن اور بدعنوانی عروج پر تھی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عبوری حکومت ہوئے کہا کہ بنگلا دیش حکومت کے

پڑھیں:

حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کربلا کوئی قصۂ پارینہ نہیں بلکہ ایک زندہ اور تازہ پیغام ہے جو ہر دور کے باطل کے سامنے سر بلند ہو کر حق کی صدا بلند کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ معرکہ صرف نیزوں، تلواروں اور خیموں کا نہیں تھا بلکہ اصول و حق اور باطل کے درمیان وہ جنگ تھی جو قیامت تک انسانیت کو راہ دکھاتی رہے گی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مطابق امام حسینؓ کی شہادت محض ایک شخص کا نذرانۂ جاں نہ تھی بلکہ ایک گمراہ نظام کے خلاف بغاوت تھی۔ ایسا نظام جو خلافت کے لبادے میں ملوکیت بیچتا تھا، عدل کے نام پر ظلم کرتا اور اسلام کے نام پر فریب پھیلاتا رہا تھا۔ آج ہم بھی ایک ویسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک جانب ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کا دعویٰ ہے تو دوسری طرف شخصی آمریت، مورثی سیاست اور مذہبی ملمع کاری ہے۔ وہی پرانے یزیدی چہرے اب نئی پگڑیوں کے نیچے اور وردیوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کیا امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار محض اقتدار کی جنگ کے لیے کیا تھا؟ ہرگز نہیں! ان کا پیغام واضح تھا جہاں دین کو دنیا کا کاروبار بنا دیا جائے وہاں خاموشی بذاتِ خود جرم بن جاتی ہے۔ آج کے پاکستان میں بھی کیا ہم کسی اور کربلا کا مشاہدہ نہیں کر رہے؟ کیا اسلام کو محض نعرے، ’’اسلامی ٹچ‘‘ اور رمضان ٹرانسمیشن کے مولویوں تک محدود نہیں کر دیا گیا؟ کیا سیاست خدمت کے بجائے موروثی تاج پوشی نہیں بن چکی ہے؟ سوائے جماعت اسلامی کے، کیا دیگر تمام بڑی مذہبی جماعتیں اقتدار کی موروثی نرسریاں نہیں بن چکیں؟ اسی المیے کو اقبالؒ نے یوں لکھا تھا:

’’صوفی و مْلّا مْلوکیّت کے بندے ہیں تمام‘‘۔ یہ ایک اہم سوال ہے جو کہ ہماری قوم کو جمہوریت کے علمبرداروں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب عالی! آپ کی جماعتیں تو اپنے اندر جمہوریت نہیں لا سکتیں، وہ قوم میں جمہوریت کیسے نافذ کریں گی؟ جو اپنے حلقے میں مشورے کی روایت کو برداشت نہیں کر سکتیں، وہ امت کی رہنمائی کا حق کیسے رکھتی ہیں؟

دکھ تو یہ ہے کہ حسینیت کا پیغام صرف نوحوں اور جلوسوں تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تو ظلم کے خلاف عملی جہاد کا نام ہے صرف یاد نہیں زندہ لائحہ عمل ہے۔ اگر ہمیں واقعی ملوکیت اور وراثتی بادشاہت کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں امام حسینؓ کے اسوہ کو اپنا رہنما بنانا ہوگا وہ اسوہ جو خلافت کو عدل، مشورہ اور احتساب کا نظام سمجھتا ہے نہ کہ اقتدار کی وراثت یا بادشاہی کی توسیع۔ حسینؓ نے دکھایا کہ اصل اسلامی سیاست اصولوں کی پاسداری کا نام ہے چاہے اس کی قیمت سر کٹوانا ہی کیوں نہ ہو۔ سید مودودیؒ نے کیا خوب کہا تھا: ’’یزید اگر خلیفہ بن سکتا ہے تو خلافت اور ملوکیت میں پھر کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اور اگر حسینؓ خاموش رہتے تو اسلام کے نام پر ظلم کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھل جاتا‘‘۔

تاریخ ایک بار پھر ہمیں اسی دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے جہاں ہمیں عزم کرنا ہے کہ ہم حق کا ساتھ دیں، چاہے اس کی قیمت اپنی جان ہی کیوں نہ ہو، ہم کوفیوں جیسی خاموش اختیار کرکے باطل کے جرائم میں سہولت کار نہیں بنے گے۔

آج وقت ہے بصیرت کی آنکھ کھولنے کا، سچ اور فریب میں فرق کرنے کا۔ پہچاننے کا کہ کون ہیں وہ جو دین کا جامہ پہن کر، اقتدار کی غلام گردشوں میں یزیدیت کی نحوست بکھیر رہے ہیں؟ اور کون ہیں وہ جو فکرِ حسینی کے سچے پیروکار بن کر، ملوکیت کے ایوانوں سے ٹکرا رہے ہیں؟ وہی جو اقتدار کو امانت سمجھتے ہیں، وراثت نہیں۔ جو شورائیت، شراکت اور احتساب کو ترجیح دیتے ہیں، چاپلوسی اور خوشامد کو نہیں جو اہلیت کو معیار بناتے ہیں، خاندانی نسبت کو نہیں اور وہ جو وقت کے یزیدیوں کے سامنے بے خوف و خطر سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں۔ یہی وہ سچے رہنما ہیں جو عالمی اسلامی تحریکوں کا وقار اور امتِ مسلمہ کی امید ہیں وہ جو خلافتِ راشدہ کے فکری وارث اور عدل و شراکت پر مبنی اسلامی نظام کے اصل ترجمان ہیں۔ مگر افسوس! آج یہی صاحبانِ کردار ظلم کی تاریکیوں میں گھرے ہوئے ہیں، اقتدار سے محروم اور یزیدی ذہنیتوں کے کینے کا نشانہ ہیں۔ گویا یزید آج بھی زندہ ہے تخت و تاج کے ساتھ، اور حسینؓ کا قافلہ آج بھی مظلوم ہے مگر سچ کے ساتھ۔

اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کیا ہم صرف زبان سے ’’لبیک یا حسینؓ‘‘ کہتے رہیں گے، یا کردار و عمل سے حسینیت کا علم بلند کریں گے؟ کیا ہم یونہی فرقہ پرستی، مفاد پرستی اور فرقہ واریت کے نام پر دین کی تجارت کرنے والوں کے فریب میں آتے رہیں گے؟ یا اب وہ گھڑی آ گئی ہے جب ہم اس قیادت کو پہچانیں جو عدل، دیانت اور شورائیت کی بنیاد پر اٹھتی ہے، نہ کہ فرقہ واریت خاندانی وراثت اور اندھی تقلید پر۔ کیونکہ اصل حسینیت یہی ہے ظلم کے سامنے ڈٹ جانا، خواہ کربلا ہی کیوں نہ بچھ جائے۔

’’غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ‘‘

متعلقہ مضامین

  • پاکستان نے بنگلادیش کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کیلئے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کر دیا
  • دورہ بنگلا دیش کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اعلان، کون ہوا اِن اور کون آؤٹ ؟
  • دورہ بنگلا دیش کیلئے پاکستان کرکٹ ٹیم کا اعلان کر دیا گیا
  • پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کی پختونخوا میں مخصوص نشستیں حصے کے مطابق لینے کی درخواست
  • اسد عمر کے بیان پر خواجہ آصف کا ردِ عمل سامنے آ گیا
  • سانحہ لیاری: سندھ حکومت کا لواحقین کو فی کس 10 لاکھ روپے دینے کا اعلان
  • بنگلہ دیش: سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے پر فیصلہ 10 جولائی کو متوقع
  • ٹرمپ کی برکس کو کھلی دھمکی: امریکا مخالف پالیسی پر 10 فیصد اضافی ٹیرف لگے گا
  • اسرائیلی حملوں کی مذمت کیوں کی؟ ٹیرف10 فیصد اضافے کیساتھ لگادوں گا،ٹرمپ کی برکس ممالک کو دھمکی
  • حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟