Islam Times:
2025-11-03@19:37:07 GMT

کل ایک صہیونی قیدی کی لاش حوالے کریں گے، سرایا القدس

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

کل ایک صہیونی قیدی کی لاش حوالے کریں گے، سرایا القدس

اسلامی جہاد تحریک کے عسکری ونگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ کل جمعرات کو ایک صہیونی قیدی کی لاش حوالے کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جہاد تحریک کے عسکری ونگ سرایا القدس نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعرات کو ایک صہیونی قیدی کی لاش حوالے کریں گے۔ فارس نیوز کے مطابق، سرایا القدس کے ترجمان ابو حمزہ نے اعلان کیا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ صہیونی قیدی عودید لیفشیتس کی لاش جمعرات 20 فروری 2025 کو قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے کے ساتویں دور کے تحت حوالے کی جائے گی۔ وہ ان قیدیوں میں شامل تھا جنہیں اسرائیلی دشمن نے طوفان الاقصی جنگ کے دوران فضائی حملے میں قتل کر دیا تھا۔

اسی حوالے سے، حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے گزشتہ شب کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعرات کے روز چار صہیونی قیدیوں کی لاشیں، بشمول بیباس خاندان کی لاشیں، حوالے کی جائیں، جبکہ اسرائیلی دشمن ہفتے (22 فروری) کو فلسطینی قیدیوں کو معاہدے کے مطابق رہا کرے گا۔ باقی قیدیوں کی لاشوں کی حوالگی کا عمل معاہدے کے چھٹے ہفتے میں مکمل کیا جائے گا۔

الحیہ نے مزید کہا کہ مزاحمتی تحریک ہفتے کے روز 6 زندہ صہیونی قیدیوں کو بھی رہا کرے گی، جن میں ہشام السید اور ابراہام منگستو شامل ہیں۔ دوسری طرف، فلسطینی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ ہفتے کے روز 800 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں سے رہا کیے جائیں گے: 445 قیدی جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ سے گرفتار کیے گئے تھے۔ 110 قیدی جو عمر قید اور طویل سزاؤں کے تحت قید تھے۔ 47 قیدی جو شالیط معاہدے کے تحت رہا ہوئے تھے لیکن دوبارہ گرفتار کر لیے گئے۔ 200 خواتین اور بچے جو غزہ کے رہائشی ہیں، 19 سال سے کم عمر کے ہیں اور جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صہیونی قیدی کیا ہے کہ کی لاش

پڑھیں:

اسرائیلی فوج کی فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار

اسرائیلی فوجیوں کی فلسطینی قیدی کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور بہیمانہ تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے اسکینڈل پر چیف پراسیکیوٹر اور ملٹری لا آفیسر کو حراست میں لے لیا گیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے چیف پراسیکیوٹر کرنل ماتن سولوموش پر الزام تھا کہ انھوں نے فوجی قانونی سربراہ میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی کا کردار چھپانے میں مدد کی تھی۔

میجر جنرل یفعات تومر یروشلمی نے فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی اور اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ بھی دیدیا تھا۔

یہ ویڈیو اسرائیل کے سدے تیمن (Sde Teiman) کے فوجی حراستی مرکز کی تھی جس میں اہلکاروں کو چند قیدیوں پر تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ویڈیو میڈیا کو فراہم کی گئی تھی۔

اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو گزشتہ رات مستعفی ہونے والی تومر یروشلمی کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔

عدالت میں پولیس کے نمائندے نے بتایا کہ چیف پراسیکیوٹر سولوموش کو پہلے سے علم تھا کہ ویڈیو لیک کرنے میں ملٹری لا آفیسر تومر یروشلمی ملوث ہیں لیکن انھوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔

جس پر چیف پراسیکیوٹر سولوموش کے وکیل ناتی سمخونی نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل کو اس بات کا علم اپنا بیان جمع کرانے کے کافی بعد میں ہوا تھا۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سولوموش اُس ٹیم کا حصہ بھی نہیں تھے جو تومر یروشلمی نے واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے لیے بنائی تھی جس میں بریگیڈیئر جنرل گل اسائل اور ڈپٹی اسٹیٹ پراسیکیوٹر آلون آلٹمین شامل تھے۔

اُن کے بقول اس ٹیم نے 25 ستمبر کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں ویڈیو لیک سے متعلق رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں تومر یروشلمی کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت سولوموش اپنی مدتِ ملازمت مکمل کر کے عہدے سے جا چکے تھے۔

پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر سولوموش کو رہا کیا گیا تو وہ جاری تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عدالت نے ان کی حراست بدھ دوپہر تک بڑھا دی۔

اسی طرح، پولیس نے تومر یروشلمی کی حراست میں پانچ دن کی توسیع کی درخواست کی تھی، تاہم تل ابیب مجسٹریٹ کورٹ کی جج شیلی کوٹین نے اسے تین دن تک محدود کر دیا۔

تومر یروشلمی پر فراڈ، اعتماد شکنی، شواہد میں رکاوٹ ڈالنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ہیں۔

تومر یروشلمی کے وکیل ڈوری کلاگسبلاد نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کی موکلہ بے گناہ ہیں اور پولیس کے پاس پہلے ہی دیگر مشتبہ افراد سے حاصل کردہ کافی شواہد موجود ہیں۔

پس منظر:

یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب اسرائیلی میڈیا میں سدے تیمن فوجی حراستی مرکز کی وہ ویڈیو لیک ہوئی جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی فوجی غزہ کے قیدی کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔

ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد اسرائیل میں فوجی طرزِ عمل پر سخت تنقید ہوئی، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے فوجی زیادتیوں کا ثبوت قرار دیا۔

تومر یروشلمی، جو اُس وقت فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھیں، نے بعد ازاں اعتراف کیا کہ ویڈیو انھوں نے خود لیک کی تاکہ فوجی زیادتیوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔

جس کے بعد تومر یروشلمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب انھیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔

پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا فوج کے دیگر اعلیٰ افسران، خصوصاً سولوموش، نے اس عمل کو چھپانے یا کم کرنے کی کوشش تو نہیں کی۔

 

متعلقہ مضامین

  • فلسطینی قیدی پر اسرائیلی تشدد؛  ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
  • اسرائیلی فوج کی فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے پر 2 اعلیٰ افسران گرفتار
  • نیشنل گیمز کے حوالے سے اہم اجلاس آج کراچی میں ہوگا
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • اسرائیلی فوج نے فوجی پراسیکیوٹر کو ہٹا دیا
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو افشا ہونے کے بعد اسرائیلی فوجی استغاثہ لاپتہ
  • فلسطینی قیدی سے اجتماعی زیادتی کی ویڈیو لیک کرنیوالی اسرائیلی فوج کی اعلیٰ وکیل مستعفی
  • مڈعیدن ، ڈی سی کا ڈینگی وائرس سے بچائو کے حوالے سے اجلاس
  • فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا