اپوزیشن رہنماؤں کی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی—فائل فوٹو
اپوزیشن رہنماؤں نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی۔
پاکستان تحریک انصاف وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو بھی کی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ ہماری چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات ہوئی، گزشتہ جیل ٹرائل میں بانئ پی ٹی آئی سے چیف جسٹس سے ملاقات کی اجازت لی۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات میں چیف جسٹس کے سامنے بانئ پی ٹی آئی کے کیسز پر بات ہوئی، بانئ پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے کیسز کی تاریخ تبدیل ہو جاتی ہے۔
وزیر اعظم نے چیف جسٹس کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
عمر ایوب کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود ملاقات کا وقت تبدیل ہو جاتا ہے، چیف جسٹس پاکستان کو بتایا کہ وکلاء کو بانی سے ملنے نہیں دیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات میں بابر اعوان نے کہا کہ ماضی میں جیل ٹرائل کے بجائے اوپن ٹرائل ہوئے، عدالتی احکامات موجود ہیں جہاں ایک ایک فرد پر کئی ایف آئی آرز ہیں، سلمان اکرم راجہ نے لاپتہ افراد کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھا، پنجاب میں اسٹیٹ ٹیرر ازم کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کو بتایا کہ پنجاب میں ہمارے خلاف پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے، بلوچستان کی صورتِ حال کو چیف جسٹس کے سامنے رکھا، بڑی صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور حجم 2 فیصد سے سکڑ گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے کہنا ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے بانی کے خطوط کا ذکر کیا، سینیٹرز اور ممبران اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کا معاملہ بھی سامنے رکھا گیا، ہم نے وکلاء کو ڈرانے سے متعلق تفصیلات بھی رکھیں، وکلاء کے اوپر فیک ایف آئی آرز ہیں، اس کا ذکر کیا گیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ چیف جسٹس کو بتایا کہ ہمارے کیسز نہیں لگ رہے ہیں، چیف جسٹس کو بتایا کیسے ہمارے ارکان اسمبلی کو زبردستی اٹھایا گیا، چیف جسٹس نے باور کرایا کہ ایسے اقدامات کریں گے جس سے ان کا حل ہو۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی جانب سے جوڈیشل کمیشن سمیت قانونی نکات پر تجاویز مانگی گئیں، تحریک انصاف کے ورکرز اور بانئ پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے کیسز نہیں لگ رہے، بانی کو کتابیں اور ایکسر سائز مشین تک نہیں دی جاتی۔
بیرسٹر گوہر علی کا کہنا ہے کہ ہم نے بتایا کہ آپ کی عدالت کے حکم کو کوئی حکم سمجھتا ہی نہیں، ہم نے بتایا کہ ہمارے ممبران کو کیسے جبری گمشدہ کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ چیف جسٹس کو بتایا کہ ملک میں انسانی حقوق عملا ختم ہو چکے ہیں، اس وقت پورے نظام عدل کو مذاق بنادیا گیا ہے، ہم نے بتایا کہ نظام عدل کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو عوام احتجاج پر مجبور ہوں گے، اگر یہ صحیح نہیں ہوتا کہ تو پھر ملک کس طرف جاتا ہے، عمر ایوب نے بتا دیا ہے، ہم نے واضح کیا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ عدالت دیکھے کہ کہیں نظام عدل کو آلہ کار تو نہیں بنایا جا رہا، سیاسی جدوجہد واحد حل ہے، جب عدالت سے راستہ نہیں نکلتا، ہمارے سامنے ہے کہ لوگوں پر کیسے ظلم ہو رہا ہے، ہم نے واضح کیا کہ جیسے 26ویں ترمیم ہوئی اس کا متن اور طریقہ غلط تھا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: چیف جسٹس کو بتایا آفریدی سے ملاقات سلمان اکرم راجہ بانئ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ کو بتایا کہ کہ چیف جسٹس نے کہا کہ
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔