7 ارب ڈالر قرض کی اگلی قسط؛ آئی ایم ایف مشن کے دورۂ پاکستان کا شیڈول جاری
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
اسلام آباد:
آئی ایم ایف کا جائزہ مشن 7 ارب ڈالر قرض کی اگلی قسط سے متعلق مذاکرات کے لیے پاکستان کا دورہ کرے گا، جس کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔
پاکستان میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کے نمائندے نے 7ارب ڈالر قرض کی اگلی قسط اور کلائمیٹ فنانسنگ کے حوالے سے مذاکرات کے لیے آئی ایم ایف جائزہ مشن اور تکنیکی ٹیم کے پاکستان کے دورے کا شیڈول جاری کردیا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاکستان میں نمائندے ماہر بنیسی کے مطابق آئی ایم ایف وفد مارچ کے اوائل سے پاکستان کا دورہ کرے گا۔ آئی ایم ایف وفد قرض پروگرام کے پہلے جائزے کے لیے مذاکرات کرے گا۔
نمائندہ آئی ایم ایف کا مزید کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کا ایک اور وفد کلائمیٹ فناننسنگ کی پاکستانی درخواست پر بھی بات چیت کرے گا۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کا وفد فروری کے آخر میں پاکستان کا دورہ کرے گا۔ اس دوران تکنیکی ٹیم کلائمیٹ فناننسنگ سے متعلق تکنیکی معاملات پربات چیت کرے گی اور کلائمیٹ فناننسنگ کے حوالے سے ممکنہ انتظامات کاجائزہ لے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف کا پاکستان کا کرے گا
پڑھیں:
پاکستان نے گزشتہ مالی سال 26.7 ارب ڈالرکا ریکارڈ غیر ملکی قرضہ لیا
اسلام آباد:پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے دوران ریکارڈ 26.7 ارب ڈالرکے غیر ملکی قرضے حاصل کیے، جن میں سے تقریباً نصف حصہ پرانے قرضوں کی مدت میں توسیع (رول اوور) پر مشتمل ہے۔
وزارتِ اقتصادی امور، وزارتِ خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ قرضے گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق صرف 3.4 ارب ڈالر (یعنی کل قرضوں کا 13 فیصد) ترقیاتی منصوبوں کیلیے وصول ہوئے جبکہ باقی قرضے بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کیلیے لیے گئے۔
یہ صورتحال قرضوں کی واپسی کو مزید مشکل بنا رہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر قرضے آمدنی پیدا نہیں کرتے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جون کے اختتام پر 14.5 ارب ڈالر تھے، جو کہ بنیادی طور پر انہی قرضوں کے رول اوور اور نئی ادائیگیوں کا نتیجہ ہیں، جو ملک کی بیرونی مالیاتی خودمختاری کو مزیدکمزورکرتے ہیں۔
حکومت کو 11.9 ارب ڈالر براہِ راست قرض کی صورت میں ملے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 1.2 ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2.1 ارب ڈالر اداکیے گئے جبکہ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات اور کویت کی جانب سے مجموعی طور پر 12.7 ارب ڈالر کے رول اوور کیے گئے۔
سعودی عرب نے 5 ارب ڈالر کے ڈپازٹس 4 فیصد شرح سود پر دیے جبکہ چین نے 6 فیصد سے زائد شرح سود پر 4 ارب ڈالر رکھوائے۔ یو اے ای نے بھی 3 ارب ڈالر کے ذخائر اسٹیٹ بینک میں رکھوائے۔
چین نے 484 ملین ڈالر کی گارنٹی شدہ رقم اثاثے خریدنے کیلیے دی جبکہ حکومت 1 ارب ڈالر کے یوروبانڈز اور پانڈا بانڈز جاری کرنے میں ناکام رہی۔ حکومت نے مہنگے تجارتی قرضے حاصل کرکے اس کمی کو پورا کیا، جن میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی گارنٹی بھی شامل تھی۔
اے ڈی بی نے 2.1 ارب ڈالر، آئی ایم ایف نے 2.1 ارب، ورلڈ بینک نے 1.7 ارب اور اسلامی ترقیاتی بینک نے 716 ملین ڈالر کے قرضے دیے۔ سعودی عرب نے 6 فیصد سود پر 200 ملین ڈالر کا تیل فنانسنگ معاہدہ بھی دیا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاکستان کا قرضہ برائے جی ڈی پی تناسب اور مجموعی مالیاتی ضروریات اب ناقابل برداشت سطح سے تجاوز کر چکی ہیں۔ آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ تین مالی سالوں (2026-2028) کے دوران پاکستان کو 70.5 ارب ڈالر کی بیرونی مالیاتی ضرورت ہوگی جبکہ قرض واپسی کی صلاحیت پر مسلسل خطرات منڈلا رہے ہیں۔