لاہورہائیکورٹ بار کے انتخابات کے موقع پر وکلاء کی گہما گہمی کا منظر

لاہور(نمائندہ جسارت) لاہور ہائیکورٹ بار انتخابات برائے سال 2025-26ء پروفیشنل گروپ (حامد خان گروپ)کے ملک آصف نسوانہ کامیاب قرارپائے،عاصمہ جہانگیر گروپ کے ثاقب اکرم گوندل صدر کے عہدے کیلئے مدمقابل تھے۔ انتخابات کے حتمی نتائج کے مطابق حامد خان گروپ کے امیداور
آصف نسوانہ 7050 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ عاصمہ جہانگیر گروپ کے ثاقب اکرم گوندل 6460 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔نائب صدر کی نشست پر عبد الرحمن رانجھا کامیاب قرار پائے۔جبکہ سیکرٹری کی نشست پر فرخ الیاس چیمہ کامیاب ہوئے۔دوسری جانب سیکرٹری فنانس کی نشست پر حام بن شعیب کمبوہ بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گروپ کے

پڑھیں:

کفار کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا معاشرتی رویہ

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے اس پہلو پر آج کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کافروں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں کیا معاملہ کیا ہے اور ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری ہے؟ اس حوالہ سے جناب سرور کائناتﷺکی حیات مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (۱) پہلا حصہ اس چالیس سالہ دور کا ہے جو نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں گزرا۔ نبی اکرمﷺ چونکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اس لیے کفر و شرک، بت پرستی اور جاہلانہ رسوم سے آپ کی نفرت طبعی تھی۔ حضورﷺ ان امور میں معاشرے کے ساتھ شریک نہیں تھے اور ایسی تمام باتوں سے الگ تھلگ رہتے تھے لیکن عمومی معاشرت میں باقی لوگوں کے ساتھ آپ ﷺ بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے۔ سوسائٹی کے معاملات میں شریک ہوتے تھے، رشتہ داریاں قائم تھیں اور لین دین کے معاملات بھی جاری رہتے تھے۔(۲) جناب نبی اکرمﷺکی معاشرتی زندگی کا دوسرا حصہ نبوت ملنے کے بعد کا ہے۔ جب نبوت ملی اور آنحضرتﷺ نے توحید کی دعوت کا آغاز کیا تو صورتحال مختلف ہو گئی۔ اس سے قبل اخلاق حسنہ اور خدمت خلق کے باعث آپؐ کو سوسائٹی کی پسندیدہ ترین شخصیت کی حیثیت حاصل تھی، صادق و امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا، اور مختلف امور میں آپ سے راہنمائی لی جاتی تھی۔ لیکن توحید کے اعلان اور عام محفلوں میں قرآن کریم کی تلاوت کو ناپسند کیا گیا اور مخالفت کا دور شروع ہو گیا جو تیرہ سال جاری رہا۔یہ تیرہ سالہ دور مخالفت کا دور تھا، آزمائش و ابتلاء کا دور تھا اور اذیت و تکلیف کا دور تھا۔ اس دور میں جہاں نبی اکرمﷺ نے دین کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا، اپنی جماعت کی توسیع کی محنت کرتے رہے، ساتھ دینے والے حضرات کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے، اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنے مشن کو مسلسل آگے بڑھاتے رہے وہاں مکہ مکرمہ کی عمومی معاشرت کا حصہ رہے اور معاشرتی معاملات میں برابر شریک ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر قریش کے مختلف خاندانوں نے اجتماعی فیصلہ کر کے آنحضرت ﷺاور ان کے ساتھیوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جو تین سال جاری رہا۔ اس دوران شعب ابی طالب میں انہیں محصور کر دیا گیا اور بائیکاٹ کی نگرانی کے لیے ناکہ بندی کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن یہ بائیکاٹ یکطرفہ تھا۔جناب رسول اللہﷺنے اس دور میں بھی دعوت و تبلیغ کے تقاضوں کی تکمیل کی اور بائیکاٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے تعلقات اور دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور میں کافروں کا غلبہ تھا اور مسلمان اقلیت میں تھے بلکہ وہ اکثریت کے مظالم اور اذیتوں کا نشانہ تھے لیکن آنحضرت ﷺ نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کیا، نہ اجتماعی مزاحمت کی اور نہ ہی انفرادی طور پر کسی ساتھی کو اس کی اجازت دی، بلکہ حوصلہ اور صبر کے ساتھ مظالم برداشت کرتے ہوئے دعوت تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ قائم رکھا۔
البتہ اس دوران مکہ مکرمہ کی آبادی سے ہٹ کر مختلف اطراف سے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کافر قبائل میں اپنی حمایت و حفاظت کے مواقع بھی تلاش کرتے رہے۔ طائف کا سفر جناب رسول اللہﷺنے اسی لیے کیا تھا کہ بنو ثقیف کے سرداروں کو قریش کے مظالم کے خلاف اپنی حمایت کے لیے آمادہ کر سکیں۔ حبشہ کی طرف صحابہ کرامؓ کی ہجرت کا بھی ایک اہم مقصد مسلمانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنا تھا جو حاصل ہو گئی۔ جبکہ حج کے لیے یثرب سے آنے والے قافلوں کے خیموں میں حضورؐ کا بار بار جانا اور انہیں دعوت دینا بھی اسی لیے تھا کہ وہ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھی بنیں اور انہیں محفوظ ٹھکانہ مہیا کریں جیسا کہ عملاً ہو بھی گیا۔ یثرب سے آنے والے لوگوں کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد نبی اکرم ﷺکی ہجرت کی راہ ہموار ہوئی اور اس ہجرت پر مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ مظلومانہ دور کا اختتام ہوا۔(۳) اس کے بعد جناب رسول اللہ ﷺ کی معاشرتی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا جو دس سال جاری رہا اور یہ سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور تھا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ کی ہجرت سے پہلے یثرب اور اردگرد کے قبائل ایک علاقائی حکومت کے قیام پر متفق ہو چکے تھے اور بادشاہ کے طور پر عبد اللہ بن أبی کے نام کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا، صرف تاج پوشی کی رسم باقی تھی کہ حضورﷺکی تشریف آوری سے ساری صورت حال بدل گئی۔ وہ حکومت جو عبد اللہ بن أبی کی سربراہی میں قائم ہونا تھی وہ آپ ﷺ کی قیادت میں تشکیل پا گئی۔میری طالب علمانہ رائے میں اس ریاست و حکومت کے خدوخال طے کرنے کے لیے قبائل کے درمیان جو مذاکرات ہو چکے تھے وہی ’’میثاق مدینہ‘‘ کا ہوم ورک اور اساس بنے جس میں حضورﷺ نے بنیادی تبدیلی یہ کی کہ اسے ایک نظریاتی ریاست کی شکل دے دی جو آگے چل کر خلافت راشدہ اور عالمی اسلامی خلافت کی صورت میں دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ ابتدا میں اس حکومت و ریاست میں مسلمان بھی شامل تھے، یہودی قبائل بھی اس کا حصہ تھے اور اردگرد کے دیگر قبائل بھی اس میں شریک تھے، جبکہ اس نظم میں آنحضرتؐ کو حاکم اعلیٰ جبکہ ’’میثاق مدینہ‘‘ کو دستور کی حیثیت حاصل تھی۔ بعد میں یہودی قبائل میثاق معاہدہ کی خلاف ورزی کے باعث یکے بعد دیگرے مدینہ منورہ سے جلاوطن ہوتے گئے اور بنو قریظہ کی جلاوطنی کے بعد مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔
( جاری ہے )

متعلقہ مضامین

  • مقدمات کے جلد فیصلوں کیلئے جدید طریقہ کار اپنایا جائے: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
  • پاکستان کی بڑی کامیابی، چیئرمین سینیٹ بین الاقوامی پارلیمانی اسپیکرز کانفرنس کے چیئرمین منتخب
  • چین، شینزو-20 انسان بردار خلائی جہاز کی کامیاب لانچنگ
  • پاکستان کا خلائی مشن:2 پاکستانی خلاء باز چین میں تربیت کے لئے منتخب
  • بلدیاتی ادارے اور پارلیمنٹ
  • ڈی جی موسمیات ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن میں ایشیا ریجن کے وائس پریذیڈنٹ منتخب
  • ملتان، رہبرمعظم کی سالگرہ کی مناسبت سے المصطفیٰ ہائوس میں نشست کا اہتمام، کیک بھی کاٹا گیا 
  • سندھ حکومت کینالز منصوبہ رکوانے میں کامیاب ہے، مراد علی شاہ
  • گندم کی قیمت مقرر کرنے کا معاملہ: پنجاب کابینہ گندم کی ڈی ریگولرائزیشن پر فیصلہ کرے گی، محکمہ پرائس کنٹرول
  • کفار کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا معاشرتی رویہ