ٹریفک حادثات پر عدالت عظمیٰ کی تشویش
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
عدالت عظمیٰ کی حالیہ سماعت میں کہا گیا ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات دہشت گردی اور بیماریوں سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود، سڑکوں پر قانون کی عملداری اور ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی موثر اقدامات نظر نہیں آتے۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں نے بجا طور پر اس مسئلے کی سنگینی پر سوال اٹھایا ہے، لیکن جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے عملی اقدامات نہیں کریں گے، صورت حال میں بہتری کی امید محض ایک خواب ہی رہے گی۔ عدالت عظمیٰ میں ہونے والی سماعت میں یہ بات ایک بار پھر واضح ہوئی کہ بھاری گاڑیوں کی اوور لوڈنگ اور ناقص سڑکوں کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پورٹ قاسم، کورنگی اور انڈسٹریل ایریا جیسی اہم شاہراہوں پر دو دو فٹ کے گڑھے حادثات کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی، حکومتی عدم توجہی اور کرپشن اس کی وجہ ہیں۔ جب تک اوور لوڈنگ کے مقامات پر سخت کارروائی نہیں کی جائے گی اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوگا، حادثات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جب جب حکومتی انتظامی سطح پر کچھ سختی ہوتی ہے یا قانون پر عملدرآمد کا اعلان کیا جاتا ہے، ٹریفک پولیس اور پولیس کی موجیں ہی ہوتی ہیں، ان کے رشوت کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ آج بھی حکومت کے اعلانات کے باوجود شہر میں ڈپمر اور ہیوی ٹریفک دندناتے پھر رہے ہیں اور لوگ موت کا شکار ہورہے ہیں۔ اس تشویشناک صورت حال کے خلاف جماعت اسلامی نے کراچی میں بھرپور احتجاج کیا، جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے بجا طور پر مطالبہ کیا کہ عوام کو تیز رفتار اور خطرناک ڈمپرز اور ٹینکرز کے ظلم سے بچایا جائے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حادثات کے شکار ہونے والے شہریوں کے ورثا کو زرِ تلافی دیا جانا چاہیے تاکہ ان کے نقصان کی جزوی تلافی ہوسکے۔ اسی طرح، روڈ سیفٹی قوانین پر سختی سے عمل درآمد، ہیوی ٹریفک کی متبادل شاہراہوں پر منتقلی، پبلک ٹرانسپورٹ کے مؤثر نظام کی بحالی، اور چنگ چی رکشوں کی بے ہنگم موجودگی پر قابو پانے جیسے اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مشاہدے کے بعد بھی اگر متعلقہ حکام نے اپنی روش نہ بدلی، تو ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی تعداد ہمارے شہروں کو موت کے گڑھوں میں تبدیل کر دے گی۔ عوامی دباؤ اور عدالتی احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ سندھ حکومت اور محکمہ پولیس اپنی ذمے داری نبھائیں اور ایک موثر اور محفوظ ٹریفک نظام کے لیے عملی اقدامات کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عدالت عظمی
پڑھیں:
پنجاب سے لوگ مرنے نہیں، سیر کیلیے گئے تھے؛عظمیٰ بخاری کی پختونخوا حکومت پر شدید تنقید
لاہور:ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری سانحہ سوات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پختونخوا حکومت پر شدید تنقید کی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پنجاب سے مرنے نہیں، سیر کے لیے گئے تھے۔
پنجاب اسمبلی کے میڈیا ہال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے دریائے سوات میں پیش آنے والے دل خراش واقعے پر کے پی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ بار بار پیش آ رہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی دیکھنے اور پوچھنے والا نہیں۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے افراد پانی میں بہہ گئے، جن کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تھا۔ وہ 2 گھنٹے تک ٹیلے پر کھڑے مدد کے منتظر رہے، لیکن متعدد کالز کے باوجود ریسکیو ٹیمیں موقع پر نہ پہنچیں۔ انہوں نے کہا کہ چھبیس مئی 2024 کو کے پی کے حکومت نے ایئر ایمبولینس سروس کے اجرا کا اعلان کیا تھا لیکن ضرورت کے وقت یہ سہولت کہیں نظر نہ آئی۔
وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ ناران، کاغان جیسے سیاحتی مقامات پر ہوٹل تجاوزات کی بنیاد پر بنائے گئے اور سب جانتے ہیں کہ کن پرچیوں پر یہ اجازت نامے جاری ہوئے۔ نہ سڑکوں پر فنڈز خرچ ہو رہے ہیں، نہ سیاحتی مقامات کی بہتری پر اور نہ ہی دریائے سوات کے اردگرد کسی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ریسکیو 1122 میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں، جن کی کارکردگی سانحات کے وقت صفر رہتی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ برس بارشوں سے 17 افراد جاں بحق ہوئے تھے، تب بھی پنجاب حکومت نے فوری طور پر 6امدادی ٹرک روانہ کیے تھے۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جب پنجاب میں معمولی واقعہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ کسی کو کتا کاٹ ہے، تو وزیر اعلیٰ پنجاب فوری نوٹس لیتی ہیں، لیکن جب سوات میں افسوسناک واقعہ پیش آیا، اس وقت کے پی کے وزیر اعلیٰ کہیں اور مصروف تھے۔ انہوں نے کہا کہ 2022 میں بھی ایسے ہی حالات میں لوگ مدد کے لیے بلاتے رہے لیکن ایک طیارہ علیمہ خان کو بچانے کے لیے اڑایا گیا، عام شہریوں کی لاشیں ڈمپرز میں بھجوائی گئیں۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ اگر کے پی حکومت کے پاس وسائل نہیں تو وہ حکومت چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ ریسکیو صرف چڑھائی کے وقت استعمال ہوتی ہے، عام عوام کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ ایسا واقعہ پنجاب میں ہوتا تو فوراً ہنگامی اقدامات ہوتے، جیسے مری کے سانحے پر کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ سوات سیر کے لیے گئے تھے، ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی حکومت پر تھی۔ تمبو نہیں لگا سکتے تو کم از کم زبان بند کریں، ندامت تو کریں۔ دریائے سوات میں کچھ نہیں کرسکتے ، تو کوئی دفتر ہی بنا دو، کشتیاں ہی دے دو بھائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ محرم الحرام کے لیے بھی پنجاب حکومت مکمل تیاری کر رہی ہے اور ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب متاثرہ خاندان کے گھر بھی جائیں۔ انہوں نے زور دیا کہ کے پی کے عوام اب بیدار ہو رہے ہیں اور سوال پوچھ رہے ہیں کہ بار بار ایسے سانحات کیوں ہو رہے ہیں اور ان کے تدارک کے لیے عملی اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے۔